سابق وفاقی وزیر اور مسلم لیگ ن کے رہنما خرم دستگیر نے کہا ہے کہ ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ لگانے کی سکت اب پارٹی میں نہیں رہی اور اس مقصد کے لیے حکومتوں کی قربانی دینی ہو گی۔
وی نیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ پارٹی ابھی تک ڈیسک ٹاپ کی سیاست کر رہی ہے جبکہ لوگ اب موبائل پر منتقل ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کوشش کے باجود تقریباً ایک سال سے میاں محمد نواز شریف سے نہیں مل سکے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ مسلم لیگ ن کا ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ کدھر گیا تو انہوں نے کہا کہ ’اب وہ نعرہ لگانے کی سکت ہم میں نہیں رہی، اس کے لیے اپنی حکومتوں کی قربانی دینی پڑے گی‘۔
یہ بھی پڑھیں: ’ووٹ کو عزت دو‘ آج بھی ن لیگ کا بیانیہ ہے، لوگ اس کا مطلب غلط لیتے ہیں، انجم عقیل
اس سوال پر کہ مسلم لیگ ن بیانیے کی جنگ میں کہاں کھڑی ہے؟ لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ اس وقت ہم ایک جگہ آ کر رک گئے ہیں کہ ہم کس طرح عوامی تخیل میں واپس آئیں لیکن ہمیں آگے کا راستہ نظر نہیں آ رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے ٹرائل سے بہتر پیغام جائے گا کہ ادارہ اپنے گھر کی صفائی کرتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مجرم کو سزا اصل میں آئندہ ہونے والے جرائم کو روکنے کے لیے دی جاتی ہے۔
’عمران خان کا فوجی ٹرائل ہونا چاہیے‘
جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل کو اچھا شگون قرار دیتے ہوئے خرم دستگیر نے کہا کہ عمران خان کا فوجی ٹرائل ہونا چاہیے کیوں کہ انہوں نے ملی بھگت کی جس کی وجہ سے فوج میں بغاوت کی کوشش کی گئی، وہ بہت بڑا جرم تھا جو 9 مئی کو ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کو اپنے دفاع کے لیے سخت اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ نازی جرمنی جیسی صورتحال سے بچا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم سب فوجی آمریت سے چھٹکارا چاہتے ہیں مگر اس وقت اس سے بڑا عفریت فاشزم کی شکل میں کھڑا ہے۔ نازی جرمنی میں جب ہٹلر سنہ 1933 میں برسر اقتدار آیا تو اس نے پہلے تو جرمنی کے تمام اداروں کو تاراج کیا اور پھر اپنے قبضے میں کیا اور پارلیمان کو آگ لگا دی۔ اس کی پالیسی پر اس وقت تو سب نے واہ واہ کی مگر بعد میں پورا جرمنی تباہ ہوا اور قوم کو بڑی قیمت ادا کرنی پڑی‘۔
مزید پڑھیے: عمران خان کی انتشاری سیاست نے ملک مفلوج کردیا، 160ارکان پارلیمنٹ کا وزیر اعظم کو خط
انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان کا ایک ہی حل ہے کہ اس کوحکومت دے دی جائے وہ 6 ماہ میں غیر مقبول ہو جائے گا مگر ایسا کرنا بہت بڑی غلطی ہو گی اور ہٹلر کے جرمنی میں بھی ایسا ہوا تھا، اس مسئلے کا سیاسی حل نکالنا ہوگا۔
نواز شریف سے آخری ملاقات
مسلم لیگی رہنما نے کہا کہ نواز شریف سے ان کی آخری ملاقات گزشتہ سال دسمبر میں پارٹی ٹکٹوں کی تقیسم کے موقعے پر ہوئی تھی جسے تقریباً ایک سال ہوچکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد انہوں نے ملاقات کی کافی کوشش کی مگر کامیابی نہیں ہوئی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن سے قبل بھی کوشش کی تھی اور الیکشن کے بعد بھی کافی دفعہ کوشش کی مگر بے سود۔
خرم دستگیر نے کہا کہ ’جھوٹ بول کر پاکستان کے صوبوں کی ہم آہنگی کو توڑا گیا ہے اور جب تک ہم حقیقت کو کھل کر بیان نہیں کریں گے بہتری نہیں آئے گی‘۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ سیاستدان اسمبلی میں ہو یا نہ ہو اسے عوام میں ہونا چاہیے اور میں بھی عوام کے ساتھ ہوں اور یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا، میرے دادا بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔
مسلم لیگ ن کے لوگ الیکشن میں کیوں ہارے؟
ان کا کہنا تھا کہ اس الیکشن سے جو پچھلے 24 ماہ تھے اس دوران مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور پھر نگراں حکومت آئی جس میں پاکستان کی تاریخ کی بدترین مہنگائی تھی۔ اس وقت پاکستان کے عوام کو بہت دھچکا لگا اور اس پر غم و غصے کا اظہار غلط ہی سہی لیکن مسلم لیگ ن پر ہوا، ہمیں اس کی سزا بھی ملی۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کی سوچ ہے کہ ہمیں پاکستان کا انفراسٹرکچر بہتر کرنا ہے مگر اس وقت پاکستان میں یہ خبر نہیں چلتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیانیے کی جنگ میں ایک جماعت نے عوام کے ذہن میں یہ بات ڈال دی ہے کہ اگر ایک جماعت نے یہ سب کام کیے بھی ہیں تو کون سا اپنی جیب سے کیے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ہم نے تعمیر کیا ہے اور سڑکوں سے زندگیوں کو بدل رہے ہیں۔ صرف ہزارہ موٹروے نے سیاحت کا رخ بدل دیا ہے اور لوگوں کو بے انتہا فائدہ دیا ہے۔
’مسلم لیگ ن آج بھی ڈیسک ٹاپ کے دور میں ہے‘
خرم دستگیر نے کہا کہ ہم نے بیانیے کے محاذ پر اپنا درست دفاع نہیں کیا۔ آج کے دور میں سب سے بڑا چیلنج ابلاغ ہے۔ ایک پوری نسل ہے جس نے لیپ ٹاپ دیکھا بھی نہیں انہوں نے سب کچھ موبائل پر کیا ہے جب کہ غالباً مسلم لیگ ن اب تک ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر کے دور میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں ابلاغ کے نئے طریقوں کی سمجھ نہیں آئی۔ میں اس ایشو سے سنہ 2011 سے ڈیل کر رہا ہوں اور ہمیں اس کے لیے جس قسم کے وسائل یا لوگ یا ایڈوائس چاہیے تھی وہ ہم نے نہیں لی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا خیال تھا کہ ہم پریس کانفرنس یا تقریر کرکے قوم تک پہنچ سکتے ہیں۔
مزید پڑھیے: ’ووٹ کو عزت دو‘ کے بیانیہ سے پیچھے ہٹنا ن لیگ کے ساتھ اختلافات کی وجہ بنا، شاہد خاقان
ان کا کہنا تھا کہ ایک مثال ہے کہ کراچی کے قریب جھمپیر کے علاقے میں ہوا سے چلنے والے بجلی پلانٹ کا افتتاح کیا گیا، تقاریر ہوئیں، نئی ٹرانسمیشن کا افتتاح ہوا لیکن اس سارے دن کا حاصل میرے ذہن میں آیا کہ دونوں ایونٹس کے درمیان میں پہاڑی تھی جس میں میلوں تک پون چکیاں نظر آ رہی تھیں۔ وہ چند منٹ کی ویڈیو تھی جو سوشل میڈیا نے دیکھی۔ انہوں نے ہماری تقریر کا ایک لفظ بھی نہیں سنا جس سے پتا چلا کہ یہاں کیا کچھ ہوتا ہے۔
خرم دستگیر نے کہا کہ ہمیں ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ جب تک اپنی پالیسیوں کو تصویری لحاظ سے واضح نہیں کیا جائے گا تب تک مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ جو موبائل ہے حقیقت کا فیصلہ یہ کرتا ہے، آپ اسے دیکھ کر حقیقت کو جانتے ہیں اور ہمیں اپنی کامیابیوں کو اس مشین میں لے کر جانا ہوگا۔
جب سابق وفاقی وزیر سے پوچھا گیا کہ مریم نواز اپنی ٹک ٹاک بناتی ہیں اور نواز شریف لوگوں سے نہیں ملتے تو ان کا کہنا تھا کہ اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے بارے میں عوامی تصور دھندلا گیا ہے اور عوام کو یقین نہیں کہ یہ لوگ ان کا مسئلہ حل کر سکتے ہیں۔