آوازِ وزیرستان

ہفتہ 14 دسمبر 2024
author image

شہریار محسود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاک افغان تاریخ بالخصوص جہاد افغانستان سے متعلق باتوں میں دلچسپی لینے والے ہمارے تاریخ دان جب بھی سابقہ فاٹا کے حوالے سے کچھ بتاتے ہیں تو وہ اس بات کا ذکر ضرور کرتے ہیں کہ سابقہ قبائلی علاقوں کے لوگ روس کے افغانستان پر قبضے کے بعد مکمل طور پر افغان جہاد کا حصہ بنے تھے جبکہ حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان جو اب 3انتظامی اضلاع میں تقسیم ہوچکے ہیں کی حد تک ہمیں ساری چیزیں اچھی طرح ازبر ہیں کہ یہاں ایسا کوئی سین نہیں تھا۔ شمالی وزیرستان  اور جنوبی وزیرستان کی لوئر سائیڈ جو اب جنوبی وزیرستان لوئر ضلع بن چکا ہے، میں مخصوص خاندان افغان جہاد کا حصہ بنے تھے لیکن وہ صرف اس حد تک تھے کہ جسے آپ منتظم کہہ سکتے ہیں، ان حالات میں ان لوگوں کے بارے میں بھی صرف قریبی لوگ جانتے تھے گاؤں کے یا صرف علاقے کے۔

باقی وزیرستان کے لوگ اس زمانے کے مطابق ریڈیو خبروں میں سنا کرتے تھے کہ افغانستان میں ہونے والی مبینہ جہاد کی کیا پوزیشن ہے لیکن ان دنوں بھی زیادہ تر پروپیگنڈا ہی سنایا جاتا رہا۔

اس زمانے کے مطابق جنوبی وزیرستان کے درمیانی حصے یعنی محسود علاقوں میں بالکل الگ ٹرینڈ شروع ہوا۔ یہاں کچھ ایسے کمانڈرز موجود رہے جو افغان حکومت کی طرف سے مجاہدین کے خلاف لڑتے رہے۔ ان کو اس وقت کی افغان حکومت نے اسلحہ کے ڈپو دیے تھے اور ان کمانڈروں کے ساتھ علاقے سے جنگ لڑنے کے لیے جو بھی شخص افغانستان جاتا، ان کو ایک عدد روسی کلاشنکوف دے دی جاتی تھی۔ ہمارے گاؤں کا ایک نوجوان کابل حکومت کی طرف سے ملی کلاشنکوف گاؤں میں لایا تو گاؤں کے سارے لوگ دیکھنے کے لیے جمع ہوئے تھے کیونکہ ان دنوں یہاں تھری ناٹ تھری بندوق توتھے لیکن کلاشنکوف کا صرف نام ہی سنا کرتے تھے۔ کلاشنکوف مہنگی ہوا کرتی تھی مگر کارتوس کی کوئی مول ہی نہیں تھی اور جب اس شخص نے اپنی کلاشنکوف برسٹ چلائی تو گاؤں کے لوگ جیسے اس نئی مشین (کلاشنکوف) کے دیوانے سے ہوگئے تھے۔

اس واقعے کا ذکر پہلے بھی کرچکا ہوں مگر ہمارے حالات ہی ایک جیسے ہیں اس لیے نہ چاہتے ہوئے واقعات کا ذکر کرنا پڑتا ہے۔

وقت کے ساتھ وزیرستان میں کلاشنکوف کلچر بڑھنے لگا پھر تو کلاشنکوف کے حصول کے لیے جیسے دوڑ ہی لگ گئی تھی۔ کچھ عرصہ بعد راکٹ لانچرز وغیرہ مارکیٹ میں وارد ہوئے اور قومی دشمنیاں آگے بڑھانے کے لیے راکٹ لانچرز اور دیگر بڑا اسلحہ ( یہاں بڑا اسلحہ اس اسلحے کو کہا جاتا ہے جو کلاشنکوف سے مہلک ہو یا ان کی گولیاں بڑی ہوں جیسے راکٹ لانچر دوشکہ وغیرہ) ضرورت بن گیا تھا۔

نائن الیون ہوا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ سابقہ قبائلی علاقوں میں ایسے حالات بنیں گے۔ حالانکہ ہمارا محسود علاقہ افغانستان کے ساتھ بارڈر پر واقع ہے لیکن کوئی لنک روڈ وغیرہ نہ ہونے کی وجہ سے محسود قبیلہ افغانستان کے ساتھ ایسے منسلک نہیں رہا جیسے بقیہ قبائلی علاقے منسلک رہے ہیں، اس لیے محسود علاقے میں یہ سلسلہ وانہ (جنوبی وزیرستان لوئر) میں داخل ہونے کے ایک ڈیڑھ سال بعد پہنچا۔ یہاں پراپیگنڈہ اتنا زیادہ ہوتا آرہا ہے کہ کئی چیزوں کو مکس کردیا جاتا ہے۔

دہشتگردی کے خلاف ہونے والی جنگ میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا محسود قبیلے کو رہا کیونکہ ٹی ٹی پی کی قیادت محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل رہی۔ آپریشن راہ نجات 2009 میں شروع ہوا تو محسود قبیلے کے مشیران سمیت عام لوگوں کو امید تھی کہ آپریشن ہوگا امن آئے گا اور ہمیں ان سخت آزمائشوں سے آزادی ملے گی لیکن ریاستی ذمہ داروں کے غلط فیصلوں کی وجہ سے سب سے زیادہ تکالیف عام لوگوں کو اٹھانی پڑیں۔ دورانِ آپریشن لوگوں کے ساتھ جس طرح کا سلوک روا رکھا گیا بلکہ یہاں تک کہ دیگر علاقوں میں جیسے ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان میں گڈ والے گروپس سامنے آئے جنہوں نے محسود قبیلے کے سفید پوش لوگوں کا جینا حرام کردیا، کی وجہ سے محسود قبیلے کے عام لوگوں میں یہ تاثر بڑھتا گیا کہ یہ ریاستی آپریشنز ہمارے خلاف ہو رہے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب حالانکہ آپریشن راہ کے چار پانچ سال بعد شروع ہوا مگر ریاستی ذمہ داروں نے وقت اور حالات سے کچھ نہیں سیکھا تھا اور وہی غلطیاں دہرائیں جو آپریشن راہ نجات میں کی تھیں اور یہی وجہ ہے کہ 2018 کے بعد آپریشنز کے حوالے سے یا ریاستی پالیسیوں کے حوالے سے وزیرستان کے لوگوں کی آواز یکساں ہوئیں جو مخالفت پر مبنی تھی اور ہے۔ سابقہ فاٹا کے دیگر اضلاع میں بھی وہی غلطیاں کی گئیں جو وزیرستان میں ہوئی تھیں یہی اس لیے وقت کے ساتھ احتجاجی آوازیں تیز ہوتی گئیں۔

 آپریشن راہ نجات اور ضرب عضب کے بعد بہرحال حالات کچھ وقت تک بدلے تھے، کم وقت کے لیے تھا مگر امن آیا، مگر جو نہیں بدلا وہ یہ کہ سرکار کی یہاں کے لوگوں کے حوالے سے سوچ نہیں بدلی، اس کی تفصیل میں جائیں گے تو باتیں لمبی ہوتی جائیں گی مگر اس ساری کہانی کا افسوسناک اختتام یہ ہوا کہ کئی سال تک تکالیف سہنے والے لوگوں پر دوبارا پہلے سے زیادہ بدتر حالات آچکے ہیں اور حکمران طبقہ عملی طور پر علاقے کے حالات بدلنے کی کوشش کرتا نظر نہیں آرہا۔ آپریشن راہِ نجات اس کے بعد شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کے بعد متاثرہ علاقوں کی تقدیر بدل جانی چاہیے تھی لیکن محض ایک ڈیڑھ سال بعد ہی چیزیں بدل گئیں۔

آپریشن راہ نجات کے بعد جنوبی وزیرستان اپر کے لوگوں کی بحالی کا وقت آیا تب وہ پیسہ جو لوگوں پر خرچ ہونا تھا وہ کرپشن کی نظر ہوتا گیا۔ کرپشن کا افسوسناک پہلو میرے لیے یہ رہا کہ کوئی اتھارٹی ایسی نہیں ہے جو کھانے والوں سے سوال جواب کرسکے اور اگر دیکھا جائے تو اس کا سادہ سا مطلب نکالا جاسکتا ہے کہ حکومت کو اس علاقے کی بحالی میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ اس وقت حالانکہ اس علاقے کے لیے کوئی خاص پیسہ خزانے میں موجود نہیں ہے مگر اب ایک بار پھر تیاری ہوچکی ہے جو تھوڑا بہت پیسہ آرہا ہے ان کو بھی ذاتی جیبوں میں ڈالا جائے گا لہٰذا حکومت بالخصوص طاقتور طبقات سے گزارش ہے کہ اس حوالے سے ضروری اقدامات اٹھائیں، جو بھی پیسہ علاقے کے نام پر آرہا ہے ان سے اجتماعی منصوبے بنائے جائیں جو لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال ہو، صحت اور تعلیم کی بحالی کے لیے استعمال ہو اور پانی کی سہولت پہنچانے کے لیے استعمال ہو۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp