چند ہفتے قبل معروف سیزن آوٹ لینڈرز کی نئی اقساط ریلیز ہونا شروع ہوئیں، یہ سیزن 2 زمانوں کے بارے میں ہے۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک خاص وقت پر ایک خاص قسم کی انگوٹھی پہن کرایک جادوئی پتھر کے سامنے کھڑے ہونے سے کچھ انسان 200 سال پرانے زمانے میں جا سکتے ہیں۔ خیر، 200سال پرانے دور کی اس کہانی میں ایک دلچسپ منظر نے مجھے جکڑ لیا۔ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ایک شخص کو برسوں بعد اس کا بیٹا آکر ملتا ہے۔ اس وقت باپ موت کے بستر پرپڑا ہے۔ کافی جذباتی صورتحال میں باپ بیٹے سے پوچھتا ہے، کیا تمہیں کوئی لڑکی پسند ہے؟ بیٹا کہتا ہے ہاں ایک لڑکی ہے، پوچھتا ہے وہ کہاں ہے ،بیٹا بتاتا ہے کہ یہاں سے بہت دور ایک قصبے میں رہتی ہے۔ باپ پوچھتا ہے کیا وہ تمہارا انتظار کر رہی ہے۔ بیٹا ہاں میں جواب دیتا ہے، تو باپ کہتا ہے کیا معلوم وہ زیادہ دیر تمہارا انتظار نہ کرسکے۔ تم ایسا کروفوراً اس کے پاس جاو اور شادی کرلو۔ بیٹا کہتا ہے تم قریب المرگ ہو تو ایسے حالات میں میرا جانا ممکن نہیں۔ باپ کہتا ہے میں نے اپنی زندگی جی لی ہے، تمہاری زندگی ابھی شروع ہونی ہے۔ تم تاخیر کرو گے تو کیا معلوم ساری زندگی اپنی محبت کے بغیر گزارنا پڑے۔
مجھے اس سین سے ایک سچا واقعہ یاد آیا جس کا میں ایک حد تک عینی شاہد ہوں اور وہ واقعہ 2معاشروں کے حالات اورانسانی رویوں کے فرق کو واضح کرتا ہے۔ ایک بزرگ شخصیت کو جب ڈاکٹروں نے ایک موذی مرض میں مبتلا ہونے کے بعد لاعلاج قرار دے دیا اورانہیں اور ان کے اہل خانہ کو بتایا گیا کہ اب ان کی سانسوں کا سلسلہ چند ماہ میں منقطع ہو سکتا ہے تو انہوں نے اپنے سب بچوں کو پاس بلا لیا اور انہیں کہا کہ اب میری موت تک میرے پاس رہنا ہے اور میری خدمت کرنی ہے۔ ان کے بچے کافی فرماں بردار تھے سو باپ کی تیمار داری کے لیے پہنچ گئے۔ سب بچوں میں معاشی طور پر مشکل صورت حال سے دوچار ایک بیٹے نے، جسے طویل بے روزگاری کے بعد انہی دنوں میں کسی دوسرے شہر میں ایک معقول ملازمت ملی تھی، مشکل سے چند دن کی چھٹی لے کر پہنچ گیا لیکن والد کے عالم ثانی میں بلاوے سے قبل ہی اس کی چھٹیاں ختم ہو گئیں اور اس کے ادارے کی جانب سے بلاوا آگیا کہ کام پر واپس آو۔ اس نے بہن بھائیوں سے اس بابت مشورہ کیا تو سب کا یہی خیال تھاکہ ہم سب یہاں موجود ہیں سو تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، تمھیں کام پر واپس جانا چاہیے۔ اس نے کہا لوگ کیا کہیں گے کہ باپ کو اس حال میں چھوڑ کر واپس چلا گیا۔ اسے اس پر بھی یہی کہا گیا کہ لوگوں کی باتوں کو اہمیت مت دو اور اتنی مشکل سے ہاتھ آنے والی ملازمت کو داو پر مت لگاو۔ ویسے بھی تم ویک اینڈ پر تو آہی جایا کرو گے۔ اس نے جب باپ سے بات کی توآخری سانسیں لیتے بابا جی نے اسے نافرماں بردار اور سنگ دل قرار دے دیا اوریوں اس نوجوان کو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے اوراس کو پورا کیریئر تباہ ہوگیا۔
یہ تو خیر ایک انتہائی صورت حال تھی لیکن اس سے ہٹ کر بھی ہمارے ہاں آئے روز ایسے کئی واقعات سامنے ملتے ہیں کہ جن میں مرنے والا یہ چاہ رہا ہوتا ہے کہ باقی دنیا بھی اس کے ساتھ ہی ختم ہی ہو جائے۔ رشتوں میں محبت اور مروت ہمارے معاشرے کا خوبصورت پہلوتوہے کہ مشکل میں سب قریبی عزیز جمع ہو جاتے ہیں لیکن ہم نے کچھ بوجھ فالتو بھی اٹھائے ہوئے ہیں اور لوگوں کی باتوں کے خوف سے بہت کچھ ایسا بھی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جس کے نتائج مستقبل پر بہت برے بھی پڑسکتے ہیں۔ اسی پر موقوف نہیں بلکہ اکثریت دنیا سے جاتے جاتے بھی دولت سے چمٹی ہوتی ہے اورخود غرضی سے ان کی جان نہیں چھوٹتی۔ وہ قبر میں جاتے ہوئے بھی جائیداد میں کشادگی کےبارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اس حال میں بھی حق داروں، خاص طور پراپنی بیٹیوں کو ان کا حق دینے سے گریزاں رہتے ہیں اورآخری وقت میں بھی اپنے بیٹوں کے لیے سوچ رہے ہوتے ہیں۔ خود غرضی کی انتہا کردینے والے یہ لوگ جن مغربی معاشروں میں سے ہر وقت کیڑے نکالتے رہتے ہیں، اگر دیکھیں تو ان معاشروں میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ جہاں دنیا کے امیر ترین لوگ دنیا سے جاتے وقت دنیا کو مزید خوبصورت بنانے کے لیے اپنی املاک وقف کر دیتے ہیں اور اپنی جمع پونجی انسانوں کے دکھوں پر مرہم رکھنے والوں کے حوالے کر جاتے ہیں۔
نوبیل انعام کا بانی الفریڈ نوبل اپنی زمینوں اور ڈائنامائٹ سے کمائی گئی 90 لاکھ ڈالر کی رقم اپنی وصیت کےذریعے طبیعیات، کیمیا، طب، ادب اور امن کے میدانوں میں کوئی کارنامہ انجام دینے والوں کے نام کر جاتا ہے اور یہ سلسلہ سوا صدی سے جاری ہے۔ سوچیے تو ایک شخص کا یہ عمل دنیا پر کتنے مثبت اثرات ڈالنے کا سبب بنا۔ یہ توصرف ایک مثال ہے، انسانی عظمت کی ایسی مثالیں وہاں اتنی ہی عام ہیں جتنی ہمارے ہاں خود غرضی کی، ہم کتنے خود غرض ہیں۔