نوبیل انعام یافتہ ڈرامہ نگارجوجنگ کے دوران بھی اپنا کرکٹ بلا نہیں بھولے 

بدھ 25 دسمبر 2024
author image

سجاد بلوچ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ہیرلڈ پنٹر نوبیل انعام یافتہ ڈرامہ نگار، شاعر، ڈائریکٹراوراداکارتھے۔ اس عظیم ڈرامہ نگار کا سب سے بڑا جنون کرکٹ تھا۔ دوسری جنگِ عظیم کے  ہنگاموں کے دوران جب پنٹر کے خاندان کو جلدی میں گھر سے نکلنا پڑا تو پنٹر نے اپنا بلا سینے سے لگایا ہوا تھا، جس سے ان کی کرکٹ سے محبت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پنٹرکہتے ہیں کہ میری زندگی کا ایک اہم حصہ کرکٹ سے محبت میں گزرا، میں ہمہ وقت کھیلتا اوراس کے بارے میں پڑھتا اور سوچتا رہتا تھا۔ وہ آگے چل کر ایک کرکٹ کلب کے چئیرمین بھی بنے۔ انہوں نے اپنے مختلف انٹرویوزمیں کرکٹ سے دلچسپی کا بہت کھل کراظہار کیا۔

انگریزی دورِ جدید کے اس سب سے بڑے ڈرامہ نگار پنٹر کا کیرئیر 50 سے زائد برسوں پر محیط ہے۔ ان کے معروف ڈراموں میں برتھ ڈے پارٹی، ہوم کمنگ اور بیٹریال شامل ہیں۔ یہ سب انہوں نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد لکھے، جن کی بعد میں عکس بندی بھی ہوئی۔ پنٹر شمالی لندن ہیکنی میں پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے۔ وہ تیز دوڑ اور کرکٹ کے اچھے کھلاڑی تھے، اس کے علاوہ اسکول کے ڈراموں میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کرتے تھے۔

انہوں نے رائل اکیڈمی ڈرامہ آرٹ میں داخلہ لیا، لیکن تعلیم مکمل نہ کرسکے۔ انہوں نے سینٹرل اسکول فاراسپیچ اینڈ ڈرامہ میں تربیت جاری رکھی اور آئرلینڈ اورانگلینڈ کے تھیٹرمیں کام کرتے رہے۔ ان کے والد درزی کا کام کرتے تھے اورماں گھریلوخاتون تھیں۔ 1940 اور1941 میں جنگِ عظیم کے دوران پنٹرخاندان اپنا گھرچھوڑ کرکارنیول اور ریڈنگ منتقل ہوگیا۔ زندگی اورموت کے اس تجربے نے پنٹر کو بہت متاثر کیا اورتنہائی، وحشت، جدائی اور نقصان کے سارے مناظر جو ان کے ڈراموں کا خاصہ ہیں، اِنہیں یادوں کے سبب ہیں۔

ہیرلڈ پنٹرکی سیاسی جدوجہد کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ 18برس کی عمرمیں انہوں نے سرد جنگ کی مخالفت کی۔ انہوں نے سیاسی ڈھانچےاورسیاست دانوں کی کھل کرمخالفت کی اورایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے چلائی گئی تحریک کے ابتدائی رکن بنے، اس کےعلاوہ  کئی اور سیاسی و سماجی جدوجہد کرنے والی تنظیموں کےعملی طورپررکن بھی رہے۔

1985 میں ترکی میں قیدی لکھاریوں کے حق میں احتجاج کے لیے ارڑتھرملر کے ساتھ ترکی کا دورہ کیا۔ انہوں نے وہاں قید مصنفین سے ملاقاتیں کی اوران کے خاندانوں سے بھی ملے۔ وہ کیوبا کے امریکی تسلط کے خلاف بھی آوازبلند کرنے والوں میں پیش پیش رہے۔ 1991 کی گلف وار اور 1999میں یوگوسلاویہ میں بمباری کے کڑے ناقد بھی رہے، افغان جنگ اور عراق پر حملے کی مخالفت بھی کی۔ انہوں نے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلئیرکو فریبی اور بے وقوف کہا اور امریکی صدر جارج بش انتظامیہ کا نازی جرمنی سے موازنہ کیا۔

پنٹر کو کرکٹ کے کھیل سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا، ان کے بقول ’کرکٹ اللہ کی زمین پر تخلیق کی گئی سب سے عظیم چیز ہے، یقیناً یہ جنس سے بھی بہتر ہے، اگرچہ وہ بھی کوئی بری نہیں‘، پنٹر کے آخری انٹرویو کا موضوع بھی کرکٹ تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے پہلی بار کرکٹ جنگ کے دوران دیکھی۔ ایک موقع پرفضائی حملوں کے دوران سب لوگوں کو گھرخالی کرنا پڑے، ہمارے لان میں بڑے سے ایک درخت کے ساتھ پچھلی دیوار کے ساتھ کچھ روشنی تھی، ہمیں فوراً نکلنا تھا لیکن میں اپنا کرکٹ کا بلا اٹھانا نہیں بھولا۔

پنٹر کی ایک بات سے یاد آیا کہ ہم میں سے بیشترکرکٹ کے مداحوں کا بچپن اس حوالے سے کتنا ملتا جلتا ہے۔ پنٹر بتاتے ہیں۔ میں صبح 5بجے اٹھتا اور کرکٹ کھیلتا، میرا ایک دوست مک گولڈ اسٹین جو آسٹریلیا میں رہتا ہے، اس وقت ہیکنی میں قیام پزیرتھا اور ہم دریائے لی کے قریب رہتے تھے۔ ہم علی الصبح کھیتوں میں نکل جاتے، اوروہاں ایک درخت تھا جسے ہم وکٹوں کے طور پر استعمال کرتے۔

پنٹر فیملی میں کرکٹ نہیں کھیلی جاتی تھی، لیکن پنٹر کوکرکٹ سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا۔ ان کے دوستوں اور ہم جماعتوں میں کئی ایسے تھے جنہیں کرکٹ سے دلچسپی تھی۔ پنٹر گراؤنڈ میں جا کر میچ دیکھنے کا شوقین تھا۔ پنٹر کا پسندیدہ کھلاڑی لین ہٹن تھا، اس عظیم کرکٹر سے عظیم ڈرامہ نگار کی محبت کا اندازہ لگائیے۔ ’مجھے اچھی طرح یاد ہے میںلارڈز کرکٹ گراؤنڈ میں میچ دیکھنے جارہا تھا اور میرا ایک دوست واپس آرہا تھا، اس نے مجھے ملتے ہی بتایا ہٹن آوٹ ہوگیا، میرا جی چاہا میں اسے مار دوں، میرے لیے یہ بہت اہم تھا کہ میں ہٹن کو دیکھوں‘۔

وہ بچپن کے اس مشکل اورہنگامہ خیز دور کے بعد طویل عرصہ تک کرکٹ نہیں کھیل پائے، یہاں تک کہ 60کی دہائی میں انہوں نے اپنے 9سالہ بیٹے کی کوچنگ کے لیے اسے کلب میں کھلانے کا ارادہ کیا اور وہیں سے انہیں کرکٹ دوبارہ کھیلنے کا شوق ہوا، بعد ازاں وہ ایک کلب کی طرف سے کھیلتے بھی رہے۔

پنٹر کے بقول ’میں خوش قسمت ہوں کہ میچ دیکھنے کے لیے لنچ باکس لے کر گراؤنڈ میں جاتا ہوں اور لطف اندوز ہوتا ہوں اور میرے پوتے بھی صبح صبح اٹھتے ہیں اور میری طرح کرکٹ کھیلتے ہیں۔‘

کرکٹ کے اس اسیر ہیرلڈ پنٹر کے ڈرامہ نگاری کے سفرکا آغاز بھی عجیب و غریب تھا۔ وہ بتاتے ہیں ’میں نے جب پہلا ڈرامہ دی روم لکھا اس وقت میں 27برس کا تھا۔ میرا ایک دوست ہنری وولف اس وقت برسٹل یونیورسٹی ڈرامہ ڈیپارٹمنٹ میں طالبعلم تھا، یہ اس وقت پورے ملک میں واحد ڈرامہ ڈیپارٹمنٹ تھا۔ اسے ایک ڈرامہ کی ہدایت کاری کا موقع ملا، وہ میرا سب سے پرانا دوست تھا اور جانتا تھا کہ میں لکھتا ہوں، اور یہ بھی جانتا تھا کہ میرے پاس ایک ڈرامے کا آئیڈیا ہے، اگرچہ میں نے اس وقت تک کوئی ڈرامہ نہیں لکھا تھا۔ میں ایک ڈرامے میں اداکاری کر رہا تھا اور اس نے مجھے کہا کہ اگلے ہفتے تک ڈرامہ چاہیے۔ میں نے اس بات کو مضحکہ خیز جانا اور کہا کہ شاید میں یہ 6ماہ میں لکھ سکوں۔ لیکن میں نے چار دن میں لکھ لیا‘۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سجاد بلوچ شاعر، ادیب، صحافی اور ترجمہ نگار ہیں۔ ان کی مطبوعات میں ہجرت و ہجر(شعری مجموعہ)، نوبیل انعام یافتگان کے انٹرویوز(تراجم)، جینے کے لیے(یوہوا کے ناول کا ترجمہ)، رات کی راہداری میں(شعری مجموعہ) شامل ہیں۔ کچھ مزید تراجم ،شعری مجموعے اور افسانوں کا مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔پاکستان اور بھارت کے اہم ادبی جرائد اور معروف ویب سائٹس پر ان کی شاعری ،مضامین اور تراجم شائع ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp