خیبر پختونخوا کے ضلع لوئیر چترال میں ہندو کش پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع کیلاش وادیوں میں مذہبی تہوار چاؤموس کا جشن ہے، جو ہر دسمبر کے دوسرے ہفتے سے شروع ہوتا ہے۔
چترال میں پاک افغان سرحد کے قریب کیلاش قبیلہ تین وادیوں بمبوریت، بریر اور رمبور میں آباد ہے۔ اس قبیلہ کی کل آبادی ساڑھے چار ہزار کے قریب ہے۔ کیلاش وادیاں دشوار گزار پتھریلے راستوں کے بعد آتی ہیں، لیکن سیاحوں کے بقول ان وادیوں میں داخل ہونے کے بعد جنت نظیر مناظر اور ثقافت دیکھتے ہی تھکاوٹ ختم ہو جاتی ہے۔
کیلاش قبیلہ والے دنیا کی نایاب ثقافت کے امانت دار ہے۔ وہ اب بھی صدیوں پرانی مذہبی روایات کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
کیلاش کون ہیں، ان کے تہوار چاؤموس میں خاص کیا ہے؟
کیلاش قبیلے کے مطابق وہ تاریخ کے عظیم فاتح سکندر اعظم کی نسل سے ہیں۔ ان کے آباؤ اجداد فتوحات کے دوران یہاں رہ گئے تھے۔ وہ صدیوں سے یہاں آباد ہیں۔ اپنی تاریخی اور نایاب ثقافت اور مذہبی روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں، جو دنیا میں اب پریوں کی کہانیوں کی شکل میں صرف کتابوں ہی میں ملتی ہیں۔
کیلاش روایت کے مطابق سال کے چاروں موسم سے منسوب تہوار ان کے مذہبی عقیدے کا حصہ ہیں۔ اور چاؤ موس ان میں سے ایک ہے۔
کیلاش قاضیوں کے مطابق چاؤموس کیلاشی لفظ چووجوش سے نکلا ہے، جس کے معنی ہے 4 حصے یا خانے، اور اسی طرح اس سرمائی تہوار کے 4 حصے ہیں، جو سوگ کو ختم کرنا، بچوں کی رسم ، عبادت خانوں کو سجانا، جانوروں کی قربانی اور نئے سال کے لیے دعا اور پیش گوئی پر مشتمل ہے۔
مقامی کیلاش رہنما زرین خان بتاتے ہیں کہ تہوار کا آغاز قبیلے میں غم کو ختم کرنے سے شروع ہوتا ہے، جس میں کیلاشی قاضی خواتین اور بچوں سمیت تمام افراد کو لے کر سال کے دوران فوت ہونے والوں کے گھر جاتے ہیں اور دعاؤں کے بعد پھول دے کر غم ختم کرتے ہیں۔ اور غم زدہ خاندان ان کے لیے طعام کا اہتمام کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ مذہبی تہوار کے دوسرے حصے میں خواتین کا کردار شروع ہو جاتا ہے، جو گھروں کی صفائی، روایتی پکوان کی تیاری کرتی ہیں۔
چاؤموس کے دوران مذہبی رسومات کی ادائیگی انتہائی عقیدت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے۔ قربانی اور عبادات کی جاتی ہیں اور پاکیزگی کے لیے درختوں کی ہری شاخوں سے چراغاں کرکے رات بھر پوری وادی کا چکر لگایا جاتا ہے۔ ہر گھر کے سامنے رک کر اس گھر کے بڑے کا نام لے کر پکارتے ہیں اور کیلاشی زبان میں گانا گاتے ہیں۔ اس دوران دیگر مذاہب کے افراد سے میل جول بھی بند ہوتا ہے۔
تہوار کے آخری حصے میں جشن منایا جاتا ہے، جسے دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں ملکی و غیر ملکی سیاح بھی کیلاش وادی پہنچ جاتے ہیں، جہاں گلی کوچوں میں جشن کا سماں ہوتا ہے۔ سیاحوں کو روایتی اور تاریخی کیلاشی گھروں اور ملبوسات کو بھی دیکھنے کا موقع مل جاتا ہے۔
زرین نے بتایا کہ کیلاش میں پسند کی شادی کا رواج ہے اور مذہبی تہوار شادی کے خواہش مند لڑکے لڑکیوں کے لیے ایک بہترین موقع ہوتا ہے۔ وہ تہوار کے دوران میں محبوب، محبوبہ سے اظہار محبت کرتے ہیں۔ اور شادی کرکے گھر والوں کو آسانی سے منا لیتے ہیں۔
کیلاش روایت کے مطابق 22 دسمبر جو کیلاش کیلنڈر میں سال کاآ خری دن ہوتا ہے، کیلاشی نئے لباس زیب تن کرتے ہیں، خواتین ثقافتی لباس پہنتی ہیں، اور روایتی موسیقی پر رقص کرکے جشن کی جگہ پہنچ جاتی ہیں۔ اس طرح جشن شروع ہو جاتا ہے۔ خواتین رقص کرتی ہیں اور نئے سال کے لیے گیت گاتی ہیں۔
وادی میں جہاں جشن کا سماں ہوتا ہے وہیں کچھ نوجوان پہاڑی علاقے کا رخ کرتے ہیں جن کی واپسی کا سب کو شدت سے انتظار ہوتا ہے۔ وہ کیلاشی روایت کے مطابق نئے سال میں احوال سے متعلق جاننے کے لیے لومڑی ڈھونڈتے اور بھگاتے ہیں، اس کے بھاگنے کے رخ سے نئے سال کا تعین کیا جاتا ہے۔ اس بار لومڑی نے کیلاشی عقیدے کے مطابق نئے سال کو خوشحالی اور امن کا سال قرار دیا ہے۔لومڑی کی خوشخبری کے ساتھ ہی چاؤموس تہوار اور کیلاشی سال کا سورج غروب ہوجاتا ہے۔ ایک نئے سال کا سورج طلوع ہوتا ہے۔