سال 2024، سپریم کورٹ میں کیا بدلا؟

جمعرات 26 دسمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سال 2024 سپریم کورٹ آف پاکستان کے لیے ایک بہت ہنگامہ خیز سال ثابت ہوا۔ سال کا آغاز 13 جنوری کو بلے کے نشان سے متعلق فیصلے سے ہوا جبکہ اختتام فوجی عدالتوں کو 9 مئی ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت سے ہوا۔ یہ فیصلہ 13 دسمبر کو سنایا گیا۔

اس سال 8 فروری کو انتخابات کے تناظر میں سپریم کورٹ کے جس فیصلے نے سب سے زیادہ تنازع کھڑا کیا اور اُس کے بعد سپریم کورٹ اور اُس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو جس نفرت انگیز مہم کا سامنا کرنا پڑا، وہ 13 جنوری کا فیصلہ ہی تھا۔ اس کے سبب پاکستان تحریکِ انصاف کو اس کے انتخابی نشان بلے سے محروم ہونا پڑا، اور اِس کے بعد آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ ہو، فوجی عدالتوں کا فیصلہ ہو، ججوں کی تقرری ہو یا اُن کے استعفے سپریم کورٹ کو سخت ترین تنقید کا سامنا رہا۔

تاہم اسی سال 21 اکتوبر کو 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد جب 14 نومبر کو آئینی بینچوں نے کام شروع کیا تو اُس کے بعد سپریم کورٹ کا ماحول یکسر تبدیل ہو گیا۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ ہر وقت اپنے فیصلوں سے میڈیا میں سرخیاں بناتی تھی اور حکومتِ وقت کو ہر آن سپریم کورٹ کے فیصلوں کی جانب دیکھنا پڑتا، وہ سب بدل گیا۔ آئینی بینچوں نے بیشتر فیصلوں میں کہا کہ آئین سازی پارلیمنٹ کا کام ہے۔ اس سے قبل سابق چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی بھی اسی بات کو دہراتے رہے کہ سپریم کورٹ کا کام آئین سازی نہیں۔ یہ چیز بعض حلقوں کے لیے ناگوار تھی کیونکہ اس سے قبل سپریم کورٹ اراکینِ پارلیمان کی قانون سازی کو کئی فیصلوں میں مسترد کرچکی تھی یا ایسی تشریح کر چکی تھی جو سیاسی قوتوں کے لیے ناقابلِ قبول تھی۔

سال 2024 کے اکتوبر کی 25 تاریخ تک جسٹس قاضی فائز عیسٰی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے اور 13 جنوری کے فیصلے کے نتیجے میں انہیں ریٹائرمنٹ تک سخت ترین تنقید کا سامنا رہا۔ حتٰی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جب وہ لندن گئے تو جہاز اور اُس کے بعد لندن میں اُن کے ساتھ بدتمیزی کے واقعات رونما ہوئے جو میڈیا کے ذریعے سامنے آئے۔

سابق چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ تک سپریم کورٹ میں صورتحال کافی تناؤ کا شکار تھی لیکن آئینی بینچوں کے قیام اور ان کے فعال ہونے کے بعد سے صورتحال میں بہت تبدیلی آئی۔

رواں برس 2 سپریم کورٹ جج مستعفی ہوئے

سپریم جوڈیشل کونسل میں درج شکایات اور اُن پر ہونے والی کارروائی کے نتیجے میں جسٹس اعجاز الاحسن نے 11 جنوری کو استعفٰی دے دیا۔

اس سے قبل سپریم کورٹ کے ایک اور جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق ریفرنس کا سامنا کر رہے تھے، 10 جنوری کو اُنہوں نے بھی اپنے عہدے سے استعفٰی دیا لیکن اُن کا استعفٰی مسترد کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ کارروائی کا آغاز ہو جائے تو جج مستعفی نہیں ہو سکتا۔ اور اس فیصلے کے نتیجے میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو 20 مارچ کو اُن کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔

سابق چیف جسٹس کے ساتھ بدتمیزی کے واقعات

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو 13 جنوری کے فیصلے کی وجہ سے عوامی مقامات پر اور عدالت میں بھی درشت رویے کا سامنا کرنا پڑا۔

25 ستمبر کو ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں اسلام آباد کا ایک بیکری ملازم جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے ساتھ بدتمیزی کرتا ہے لیکن بعد میں بتایا جاتا ہے کہ یہ واقعہ ایک ماہ پُرانا ہے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد 27 اکتوبر کو جسٹس قاضی فائز عیسٰی برطانوی درسگاہ مڈل ٹیمپل کے بینچر منتخب ہو گئے۔ جب 29 اکتوبر کو انہوں نے لندن میں تقریب میں شرکت کی تو پاکستان تحریک انصاف کے حامیوں نے ان کی گاڑی پر حملہ کیا اور گالیاں دیں۔

اس سے قبل جب وہ لندن جانے کے لیے جہاز میں سوار ہوئے تو کسی مسافر کی جانب سے اُن کے ساتھ بدتمیزی کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی۔

25 اکتوبر کو اپنی ریٹائرمنٹ کے روز بھی تقریب کے انعقاد میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو بعض صحافیوں کی جانب سے سخت سوالات کا سامنا رہا۔

ان واقعات سے قبل 3 اکتوبر کو آرٹیکل اراکین پارلیمان کی نااہلی سے متعلق آرٹیکل 63 اے کے مقدمے کی سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل مصطفین کاظمی نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے ساتھ بدتمیزی کی جن کو بعد میں اسلام آباد پولیس نے گرفتار کر لیا۔

اسی سال جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی جانب سے ایک قادیانی مبارک ثانی کے ضمانت کیس کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد مذہبی جماعتوں نے ڈی چوک میں اُن کے خلاف مظاہرہ کیا۔

پاکستان تحریک انصاف مخصوص نشستوں کا مقدمہ جو 2 ججوں کے درمیان اختلاف کا باعث بنا

سپریم کورٹ میں پہلے سے رائج نظام اگر برقرار رہتا تو بطور سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس بنتے لیکن 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے جب چیف جسٹس کی تعیناتی کا نظام تبدیل کیا گیا تو جوڈیشل کمیشن نے 3 سینئر ترین ججوں میں سے ایک کو چیف جسٹس تعینات کیا اور اس طرح سے جسٹس یحییٰ آفریدی 26 اکتوبر کو ملک کے چیف جسٹس تعینات ہو گئے۔

12جولائی کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سماعت کرنے والی 13 رکنی فل کورٹ نے ایک مختصر 8،5 کے اکثریتی فیصلے کے ذریعے قرار دیا کہ 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں جن امیدواروں نے کاغذات نامزدگی میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے جاری کردہ پارٹی ٹکٹس جمع کروائے تھے ان کا تعلق پی ٹی آئی ہی کے ساتھ ہے اور ان 39 اراکین کو آزاد امیدوار خیال نہیں کیا جائے گا جبکہ 41 امیدوار 15 روز کے اندر پی ٹی آئی یا کسی اور جماعت میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا جس کی ان کے علاوہ 7 دیگر جج صاحبان نے حمایت کی جبکہ چیف جسٹس اقلیتی فیصلے کا حصہ تھے۔ لیکن وفاقی حکومت کی الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی وجہ سے یہ مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل / پاکستان تحریک انصاف کو نہیں مل پائیں۔ لیکن اس فیصلے کی وجہ سے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس منصور علی شاہ کے درمیان کافی خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہا جو دونوں جج صاحبان کے درمیان اختلافات کو اُجاگر کرتا رہا۔

پرُامن احتجاج ہر شہری کا حق: جسٹس قاضی فائز عیسٰی

4 جنوری 2024 لاپتہ افراد سے متعلق بیرسٹر اعتزاز احسن کی ایک درخواست کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دئیے کہ پُرامن احتجاج ہر شہری کا حق ہے یہاں تک کہ مظاہرین مشتعل ہوں اوروہ توڑ پھوڑ کریں۔ اِن ریمارکس کی اہمیت اس لیے ہے کیونکہ اُس وقت بلوچستان سے لاپتہ افراد کے لیے ماہرنگ بلوچ کی قیادت میں احتجاجی مظاہرین نے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے کیمپ لگا رکھا تھا۔

سپریم کورٹ انتخابات کے انعقاد کے لیے ہر سیاسی جماعت کے ساتھ ہے؛ جسٹس قاضی فائز عیسٰی

4 جنوری کو لیول پلیئنگ فیلڈ سے متعلق پاکستان تحریک انصاف کی شکایات کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نےکہا کہ سپریم کورٹ انتخابات کے انعقاد کے لیے ہر سیاسی جماعت کے ساتھ ہے۔ 13 جنوری کو بلے کے انتخابی نشان کے حوالے سے جب پی ٹی آئی کے خلاف فیصلہ آیا تو 16 جنوری کو اُس نے لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سے اپنی درخواست واپس لے لی۔

8 جنوری 2024 کو سپریم کورٹ نے 2018 کا تاحیات نااہلی کا فیصلہ ختم کر دیا جس سے میاں نواز شریف اور جہانگیر ترین کے لیے انتخابات میں حصہ لینے کی راہ ہموار ہوئی۔

13 جنوری کو سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے انتخابی نشان بلے کے حوالے سے فیصلہ دیا تو عدلیہ کے خلاف بھرپور مہم کا آغاز ہوگیا جس کے لیے 16 جنوری کو وفاقی حکومت نے ایک مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی۔

ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس

9جولائی 2024 کو چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سماعت کرنے والے 9 رکنی بینچ نے ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس پر تفصیلی فیصلے میں اپنی رائے دیتے ہوئے کہا  کہ سابق وزیراعظم کے مقدمے میں آئینی و قانونی ضابطے پورے نہیں کئے گئے نہ ہی ذوالفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل کا حق دیا گیا اور یہ کہ مارشل لاء ادوار میں عدالتیں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر پاتیں۔

مبارک ثانی کیس

22 اگست 2024 کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے بینچ نے توہین مذہب کے الزام میں انڈر ٹرائل ملزم مبارک ثانی کے فیصلے میں ترمیم کی۔ 6 فروری کو مبارک ثانی کی درخواست ضمانت کے فیصلے کی وجہ سے ملک کی مذہبی جماعتوں میں شدید بے چینی پیدا ہوئی۔ جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے خلاف بہت سے احتجاج بھی ہوئے۔ اس مقدمے کے نظرثانی فیصلے کے خلاف بھی بہت سے احتجاج ہوئے یہاں تک کہ 22 اگست کو سپریم کورٹ نے اپنے نظر ثانی شدہ فیصلے میں بھی ترمیم کر دی۔

نیب ترامیم کیس

6 ستمبر 2024 کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سماعت کرنے والے 5 رکنی بینچ نے پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے نیب قانون میں کی گئی ترامیم کو منظور کر لیا۔ اس سے قبل سابقہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سماعت کرنے والے بینچ نے 15 ستمبر 2023 کو یہ ترامیم کالعدم قرار دے دیں تھیں جس پر وفاقی حکومت نے بعد میں نظر ثانی اپیلیں دائر کی تھیں۔

آرٹیکل 63 اے کا مقدمہ

3 اکتوبر کو چیف جسٹس، جسٹس قاضی عیسیٰ کی سربراہی میں سماعت کرنے والے بینچ نے  آرٹیکل 63 اے سے متعلق اچانک فیصلہ سنا دیا۔چوتھی سماعت پر بینچ نے متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے نظر ثانی اپیلیں منظور کر لیں اور 63 اے پر جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سماعت کرنے والے بینچ کا 17 مئی 2022 کا فیصلہ کالعدم قرار دیا۔

فوجی عدالتوں کا مقدمہ

سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق مقدمے کی سماعت کے لیے چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے جسٹس ریٹائرڈ سردار طارق مسعود کی سربراہی میں ایک بینچ تشکیل دیا جس نے 12 دسمبر 2023 کو سپریم کورٹ کے گزشتہ فیصلے کو معطل کرتے ہوئے 9 مئی کے سویلین ملزمان کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی اس شرط پر اجازت دی کہ ان مقدمات کے حتمی فیصلے جاری نہیں کیے جائیں گے۔ لیکن 13 دسمبر 2024کو سپریم کورٹ نے یہ فیصلے سنانے کی اجازت دے دی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp