کپتان کی اہلیہ بشریٰ وٹو کا تعلق وسطی پنجاب کی ایک زمیندار سیاستدان فیملی سے ہے، انہیں سیاست سیکھنے کسی یونیورسٹی جانے کی ضرورت نہیں، وہ ویسے ہی اچھے اچھوں سے زیادہ سیاسی سمجھ بوجھ رکھتی ہیں۔ بشریٰ بی بی کے حوالے سے عملیات وغیرہ کو جوڑ دیا جاتا ہے، اس سے ایک ان کی سیاسی اور انتظامی سمجھ بوجھ کی طرف خیال جاتا ہی نہیں ہے۔
کپتان کو بشریٰ بی بی نے آرگنائز کیا اور مینیج بھی، اتنے بجے گھر واپس آ جاؤ، اب پہاڑ پر چلے جاؤ، فلاں کو یہ عہدہ دے دو، اس کو پوزیشن سے ہٹا دو۔ بشریٰ بی بی کی آمد کے بعد کپتان کے اقتدار میں آنے کی راہ ہموار ہوئی۔ پارٹی کو اکثریت حاصل کرنے کے لیے جو جوڑ توڑ ہوا اس میں ان کا کردار بھی تھا۔
جنرل فیض کو کپتان کیوں عہدے پر مزید رکھنا چاہتا تھا؟ اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ جنرل فیض اور بشریٰ بی بی کی کوآرڈینیشن اچھی تھی۔ دونوں سیاسی انتظامی فیصلوں پر اثرانداز ہوتے تھے۔ یہ اثر کپتان کے حق میں ہی استعمال ہوتا تھا۔ بشریٰ بی بی نے کپتان کی فیملی (بہنوں) کو بھی سیاسی معاملات سے باہر رکھا ہوا تھا۔
پاکستان میں کپتان کی فیملی سیاست سے دور یا باہر تھی، کپتان کے دونوں بچے بھی کپتان کی وزارت عظمیٰ کے دور میں باہر ہی رہے۔ جو لوگ باہر تھے ان کا اپنا ایک دھڑا بننا قدرتی سی بات ہے۔ کپتان کے ساتھ یہودی سازش کو جوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ الزام تب لگنا شروع ہوا جب کپتان نے گولڈ اسمتھ فیملی کی لڑکی جمائمہ سے شادی کی۔
گولڈ اسمتھ خاندان کاروبار، سیاست اور سماجی شعبوں میں نمایاں رہا ہے۔ جمائمہ گولڈ اسمتھ کے دادا میجر فرانک گولڈ اسمتھ بھی ممبر پارلیمنٹ رہے۔ ہوٹل انڈسٹری میں ان کا بڑا نام تھا۔ جمائمہ کے والد سر جیمز گولڈ اسمتھ نے کاروبار میں اپنے والد سے مختلف راستہ چنا۔ فوڈ بزنس سے شروع ہو کر وہ مائننگ سے خام مال کی تجارت تک کے شعبوں میں کام کرتے رہے۔
سر جیمز گولڈ اسمتھ نے 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں شہرت حاصل کی، کارپوریٹ ری اسٹرکچرنگ، غیر منافع بخش اداروں کو منافع بخش اداروں میں تبدیل کرنا، شیئر ہولڈر کو فائدے پہنچا کر اپنے اثاثوں میں بھی تیزی سے اضافہ کیا۔ سر جیمز گولڈ اسمتھ کی ایک مہارت بڑے پیمانے پر سرمائے کی ایک مارکیٹ سے دوسری مارکیٹ منتقلی بھی تھی۔
سر جیمز گولڈ اسمتھ نے ریفرنڈم پارٹی بھی قائم کی، یہ پارٹی پارلیمنٹ میں پہنچ ہی نہ سکی۔ سیاست میں بھی کوئی بڑا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی۔ سر جیمز گولڈ اسمتھ ایک طرح سے اینٹی یورپ اور برطانوی خودمختاری کے حامی تھے۔ یہ انہی کے آئیڈیاز تھے جنہوں نے آگے چل کر ایک طرح سے بریگزٹ کی شکل اختیار کی اور برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہوا ۔
جیمز گولڈ اسمتھ کے بیٹوں جمائمہ کے بھائیوں نے زیک اور بین گولڈ اسمتھ نے سیاسی ورثے کو آگے بڑھایا۔ زیک گولڈ اسمتھ کنزرویٹو پارٹی کے رکن پارلیمنٹ کے علاوہ ہاؤس آف لارڈ کے بھی رکن بنے۔ بین گولڈ اسمتھ ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرتے ہیں۔ کپتان کے بلین ٹری سونامی ماحول کی باتیں کرنا، سرمائے کی منتقلی پر اعتراض، برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی بہت سے خیالات کدھر جا ملتے ہیں۔ کپتان لگتا اپنے سسرالیوں سے کافی آئڈیا پر بات کرتا رہا ہے۔
گولڈ اسمتھ فیملی کے رشتے روتھس چائلڈ اور گنیز جیسی بڑی بزنس فیملیز کے ساتھ ہیں۔ اپنی رشتہ داری اور کاروباری روابط سے گولڈ اسمتھ فیملی عالمی مالیات، میڈیا اور طاقت کے مراکز میں اثر رکھتی ہے۔ زیک گولڈ اسمتھ نے ایلس مرانڈا روتھس چائلڈ سے شادی کی۔ روتھس چائلڈ خود ایک بڑی بزنس فیملی ہیں۔ ایلس امشل روتھس چائلڈ اور انیتا گنیز (گنیز بھی ایک بڑی بزنس میں فیملی ہے ) کی بیٹی ہیں۔ اب زیک اور ایلس کی علیحدگی ہوچکی ہے۔ تاہم، تینوں خاندانوں کے تعلقات قائم ہیں۔
جمائمہ گولڈ اسمتھ کپتان کے سارے بچے پال رہی ہیں، وہ کیسے کپتان سے لاتعلق رہ سکتی ہیں۔ کپتان کی بہنوں سے اس کے اچھے تعلقات ہیں۔ اپنا کاروباری سیاسی اور خاندانی اثر وہ کپتان کے حق میں کیوں استعمال نہیں کریں گی؟ بارلے پاکستانیوں سے ہم سارے ہی واقف ہیں، یہ اتنی جوگے ہوتے تو نوازشریف کو مشرف سے چھڑا لیتے۔ بھٹو کی پھانسی رکوا لیتے۔ یہ الحمدللہ اتنے ہی نکمے اور سیانے ہیں جتنے پاکستان میں موجود ہم سارے ہیں۔
کپتان کے حق میں باہر جو منظم مہم جاری ہے اس کے پیچھے کوئی تجربہ کوئی تعلق درکار ہے۔ وہ ٹیکسیاں چلا کر، پیزے بیچ کر، سوشل سیکیورٹیاں کھا کر، گیس اسٹیشنوں پر کام کرکے حاصل ہوتا ہے، تو ٹھیک ہے ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ یہ بارلے پاکستانی وہ سخی روحیں ہیں جنہوں نے کپتان کے کہنے پر ہزار ہزار ڈالر بھی نہیں بھیجا تھا۔ یہ اتنی جوگے ہوتے تو کپتان اندر ہی نہ ہوتا، اب تک جرمنی جاپان کو ملا کر لائٹ کی اسپیڈ سے ٹرین چلا رہا ہوتا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔