فوجی عدالتوں نے بین الاقوامی دباؤ قبول نہیں کیا

جمعرات 26 دسمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین کے دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان میں 9 مئی کے 60 مجرمان کو فوجی عدالتوں نے سزائیں سنا دیں۔

کیا پاکستان دنیا کے طاقتور ملکوں کی جانب سے آنے والے ردعمل سے نبرد آزما ہو سکتا ہے؟ آج دفتر خارجہ بریفنگ کے دوران جب یہی سوال ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں ادا کرنے کے حوالے سے پرعزم ہے اور یہ ذمہ داریاں پوری کرتا ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ جی ایس پی پلس اسکیم کے تحت ہم اپنی بین الاقوامی ذمے داریاں پوری کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یورپی یونین کے ساتھ تعلق دوطرفہ اور دونوں فریقوں کے لیے فائدہ مند ہے اور ایسا نہیں کہ پاکستان اور یورپی یونین کے درمیان تعلق کا ایک ہی مقصد ہو بلکہ یہ ایک کثیر المقاصد تعلق ہے جسے ہم مضبوط کرنے کے لیے یورپی یونین کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے۔

ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ پاکستان کا آئین اور عدالتی نظام داخلی طور پر پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور  پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ عدالتی نظرثانی کے اختیارات رکھتی ہے اور انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کی ضمانت دیتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم اپنے آئین، پاکستانی قانون اور بین الاقوامی قوانین پر عمل درآمد جاری رکھیں گے۔

حکومتیں بیرونی ممالک کی خواہشات پر نہیں چلتیں، علی سرور نقوی

سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹجک اسٹڈیز انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور سابق سفارتکار علی سرور نقوی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومتیں بیرونی ممالک کی خواہشات پر نہیں چلتیں۔

علی سرور نقوی نے کہا کہ صرف پاکستان نہیں باقی ممالک بھی وہی کرتے ہیں جو اپنے مفاد میں بہتر سمجھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ صحیح اور غلط کی بحث سے ہٹ کر یہ ملکوں کے اندرونی معاملات ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ضروری نہیں پاکستان کے ان اقدامات سے اس کے جی ایس پی پلس اسٹیٹس کو خطرہ ہو۔

اس طرح کے بیانات آتے رہتے ہیں، حسین حقانی

امریکا میں پاکستان میں سابق سفیر اور تجزیہ نگار حسین حقانی نے ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین کی جانب سے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق بیانات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ سنہ 1977 سے لے کر اب تک برطانیہ اور یورپی یونین بیشمار مرتبہ پاکستان میں انسانی حقوق کے بارے میں بیانات جاری کرتے رہتے ہیں لیکن ہر بیان کے ردعمل میں پاکستانی حکومت کوئی ایکشن نہیں لیتی تاوقتیکہ حکومت کو یہ بنہ لگے کہ اس کے نتیجے میں کوئی پالیسی بن گی جس سے پاکستان کو نقصان ہو گا۔

حسین حقانی نے کہا کہ یہ ابال آتے رہتے ہیں اور میڈیا پر شور بھی ہو جاتا ہے لیکن ابھی تک امریکن مین اسٹریم میڈیا پر یہ چیزیں نہیں آئی ہیں اور وہاں پالیسی سازوں کو بھی اتنی دلچسپی نہیں ہوتی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp