یہ بات امریکی گھامڑوں کو کیسے سمجھ آئے!

جمعہ 27 دسمبر 2024
author image

عبیداللہ عابد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آپ نے ایک کہانی بچپن سے لے کر آج تک بیسیوں بار سنی ہوگی لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ امریکیوں نے یہ کہانی کبھی سنی نہ پڑھی۔ حالانکہ یہ کہانی ایسوپ نے بیان کی جو ایک قدیم یونانی قصہ گو تھا اور اہل مغرب ہی میں سے تھا۔

ایسوپ لڑکپن میں کسی کا غلام تھا۔ کسی نہ کسی طرح آزاد ہوا تو اس نے اپنے اُس عظیم خطے یونان کا سفر کیا جہاں وہ پیدا ہوا تھا، پھر غلام بنایا گیا، پھر آزاد ہوا۔ اس سفر کے دوران ایسوپ نے دلچسپ اور سبق آموز کہانیاں لکھیں۔ ایک تحقیق یہ بھی ہے کہ ایسوپ وہی شخص تھا جسے ’حکیم لقمان‘ کہا جاتا ہے اور جس کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی ہے۔ بعض لوگ اس دانش مند شخصیت کو اللہ کا برگزیدہ پیغمبر بھی خیال کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو۔

ایسوپ کی ایک کہانی بھیڑیے اور بھیڑ کے بچے سے متعلق بھی ہے۔

کسی بھیڑ کا بچہ اپنے خاندان کے دیگر ارکان کے ساتھ گھاس کے ایک وسیع و عریض میدان میں چر رہا تھا۔ یہ بھیڑ کا چھوٹا بچہ بہت شرارتی تھا، اپنے خاندان کی باقی بھیڑوں سے بہت دور بھٹکتا چلا گیا۔ پھر اسے پانی کی ایک ندی نظر آئی، اس کا چمکتا دمکتا پانی نظر کو خیرہ کر رہا تھا، اس نے اس قدر صاف شفاف پانی دیکھا تو پینے کے لیے اس کی طرف چل دیا۔

اتفاق سے ادھر ایک بھیڑیا بھی پانی پی رہا تھا۔ اس نے پانی پینے کے دوران میں نظر اٹھا کر اِدھر اُدھر دیکھا تو اسے تھوڑی دور، اسی ندی کے کنارے بھیڑ کا بچہ بھی پانی پیتا نظر آیا جو کافی خوبصورت اور موٹا تازہ تھا۔

بھیڑیے کی آنتوں نے جھرجھری سی لی، تن بدن میں عجب سی لہریں دوڑنے لگیں۔ تاہم وہ جنگل کا باسی تھا جہاں بہرحال کچھ اصول ہوتے ہیں۔ ایک اصول یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی دوسرے جانور  کے بچے کو کھانا تو دور کی بات، اس پر ہاتھ بھی نہیں اٹھانا۔ آج بھی جنگل کے جانور اس اصول کی پابندی کرتے ہیں۔

بھیڑیا بہت بدنیت تھا۔ وہ کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کرنے لگا جس کو بنیاد بنا کر وہ بھیڑ کے بچے کو ہڑپ کر سکے۔ اس نے کہا ’او کسی بھیڑ کے بچے!! دیکھتے نہیں ہو کہ میں پانی پی رہا ہوں اور تم پینے کا پانی گدلا کر رہے ہو۔ تمھاری ہمت کیسے ہوئی؟‘

بھیڑ کا بچہ منمنایا: ’سرکار! میں معافی چاہتا ہوں لیکن آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ پانی آپ کی طرف سے آ رہا ہے۔ میں آپ کا جوٹھا پی رہا ہوں‘۔ یہ سن کر بھیڑیا لاجواب ہوگیا۔

پھر اسے ایک نیا بہانہ سوجھا: ’ہاں! یاد آیا، تم نے تقریباً ایک سال پہلے مجھے گندی گالیاں دی تھیں‘۔

بھیڑ کا بچہ پھر منمنایا ’ عالی جاہ! بصد احترام عرض ہے کہ ایک سال پہلے میں پیدا ہی نہیں ہوا تھا، اس لیے میں کیسے آپ کو گالی دے سکتا تھا!!‘

’اوہ! اچھا، پھر وہ تمھارا باپ ہوگا، اس نے میرے ساتھ یہ زیادتی کی۔‘

اب کی بار بھیڑ کا بچہ عرض گزار ہوا ’ محترم! ایسا ہوا ہے تو مجھے اس پر سخت افسوس  ہے۔ بہرحال میں اپنے والد کی طرف سے معافی کا طلب گار ہوں۔ براہ کرم! معافی قبول کریں۔

اس پر بھیڑیا غرایا ’ تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے بحث کرنے کی؟ تمہیں مجھے جواب دینے کا کوئی حق نہیں۔ اب میں تمہیں اور تمہارے گھر والوں کو سبق سکھاؤں گا۔‘

یہ کہا، اور ایک جست بھری اور سیدھا بھیڑ کے بچے کو دبوچ لیا، اور چیر پھاڑ کھایا۔

مجھے امید ہے کہ جناب ایسوف مجھے معاف کردیں گے اگر زیب داستان کی خاطر کہانی میں کچھ کمی بیشی ہوگئی ہو۔

بچپن میں پڑھی ہوئی یہ کہانی پچھلے دنوں، تب بے طرح یاد آئی جب امریکا نے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں سے لیس لانگ رینج بیلسٹک میزائل پروگرام سے منسلک سرکاری دفاعی ادارے نیشنل ڈیولپمنٹ کمپلکس اور تین نجی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا۔

یہ پابندیاں چند دنوں کے مہمان صدر جو بائیڈن نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت عائد کی ہیں۔ ان کے نائب مشیر برائے قومی سلامتی جان فائز کا کہنا ہے کہ پاکستان نے لانگ رینج میزائل سسٹم اور ایسے دیگر ہتھیار بنا لیے ہیں جو اسے بڑی راکٹ موٹرز کے (ذریعے) تجربات کرنے کی صلاحیت دیتے ہیں۔ اور یہ کہ اس میزائل سسٹم سے امریکا کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

یہ اقدام ایسے ماحول میں کیا گیا ہے جب پاکستان اور امریکا کے مابین سب کچھ اچھے بھلے انداز میں چل رہا تھا۔ ویسے بھی پچھلے کئی برسوں سے پاکستان کا سارا فوکس معیشت کو مضبوط کرنے پر ہے، بالخصوص وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی ساری توجہ اسی پر ہے۔ ان کی ساری گفتگوؤں اور کوششوں کا موضوع ملکی معیشت کی مضبوطی ہی ہوتی ہے۔ پاکستانیوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں کہ وہ امریکا کے خلاف کوئی ایسی مہم جوئی کریں گے۔ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ یہ سادہ سی بات جوبائیڈن اینڈ کمپنی کو سمجھ نہ آتی ہوگی۔ یہ لوگ اس قدر گھامڑ تو نہیں ہوں گے، اگرچہ ہالی ووڈ کے معروف فلمساز اور مصنف انھیں ’گھامڑ‘ ہی کہتے ہیں۔ انھوں نے ایک کتاب بھی لکھی جس کا عنوان ’ گھامڑ گورے‘ہے۔

امریکی حکمران چاہے ڈیموکریٹس ہوں یا ری پبلیکنز، دنیا میں اپنے ملک کی ساکھ خاصی خراب کرچکے ہیں۔ انھیں اس کا بخوبی ادراک بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جارج بش جونیئر جیسا امریکی صدر بھی پوچھتا پھر رہا تھا کہ دنیا امریکا سے نفرت کیوں کرتی ہے؟

دنیا امریکا سے اس لیے نفرت کرتی ہے کہ اس کے حکمران خود دنیا میں جنگیں کرتے اور کرواتے ہیں تاکہ ان کا اسلحہ، گولہ و بارود فروخت ہو۔ اور پھر یہ دوسری اقوام کو جنگ پسندی کا طعنہ دیتے ہیں۔ یہ صرف اپنے لیے اور اپنے انتہائی قریبی دوستوں مثلاً اسرائیل کے لیے امن چاہتے ہیں، لیکن باقی ساری دنیا میں یہ بدامنی چاہتے ہیں۔ کیا دنیا نہیں دیکھ رہی کہ کس طرح امریکی حکمران غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی حمایت کرتے ہیں، صیہونیوں کو گولہ و بارود فراہم کر رہے ہیں، جنگ بندی نہیں ہونے دے رہے۔ کیا دنیا دیکھ نہیں رہی کہ کس طرح امریکی میزائل اور دیگر اسلحہ و بارود یوکرین پہنچایا جا رہا ہے۔

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جاری کردہ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 2023 میں امریکی غیر ملکی اسلحے کی فروخت 16 فیصد اضافے کے ساتھ  238 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔  یقیناً 2024کا سال پچھلے سارے ریکارڈ توڑے گا۔

امریکا ہتھیاروں کی فروخت اور منتقلی کو اپنی خارجہ پالیسی کا اہم ذریعہ سمجھتا  ہے، اور  اسلحے کی فروخت کے ذریعے یورپ، ایشیا بحرالکاہل، مشرق وسطیٰ اور دیگر خطوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھاتا ہے اور جغرافیائی سیاسی مفادات حاصل کرتا ہے۔

دنیا نے یہ بھی دیکھا ہے کہ انھوں نے عراق پر جنگ سراسر جھوٹ کی بنیاد پر مسلط کی تھی۔ اس کا انھوں نے اعتراف بھی کیا تھا۔ اور خود امریکی ماہرین نے کہا کہ عراق جنگ بھی اپنا اسلحہ فروخت کا ایک موقع تھا۔

امریکا کو چین سے کچھ نہ کچھ سیکھنا چاہیے جو  صرف اور صرف تجارت کے ذریعے دنیا میں اپنا اثرورسوخ بڑھا رہا ہے۔ اسی انداز میں وہ ایشیا سے افریقہ تک اپنی تجارتی سلطنت قائم کر رہا ہے۔ تجارت سے دوستیاں قائم ہوتی ہیں جبکہ جنگ کے الاؤ بھڑکانے سے نتائج مختلف نکلتے ہیں۔ اب یہ بات امریکی گھامڑوں کو کیسے سمجھ آئے!

یہ امریکا ہی ہے جس کی افغانستان میں جنگ(1979-1989) لڑ کے پاکستان نے دنیا میں اپنا تاثر خراب کرلیا۔ اس کے  بعد وہ مسلسل اپنا تاثر درست کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اس کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔ حتیٰ کہ اس نے اپنے روایتی حریف بھارت کے ساتھ بھی اعتماد سازی کے لیے ہر ممکن تدبیر کی۔ اس کے باوجود پاکستان کی کوششوں پر یقین نہیں کیا جاتا۔

بھارت کے یقین نہ کرنے کی سمجھ آتی ہے، اسے کبھی یقین نہیں آئے گا کیونکہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی روٹیاں پاکستان دشمنی کی بنیاد پر ہی پکتی ہیں لیکن امریکیوں کو کیا ہوا، جو ایک طرف آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں کو پاکستان کے لیے ’کیریکٹر سرٹیفکیٹ‘ بھی دیتے ہیں اور دوسری طرف پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے بارے میں نری احمقانہ باتیں بھی کرتے ہیں۔ اس سے بڑی احمقانہ بات کوئی ہوسکتی ہے کہ پاکستان کے میزائل سسٹم سے امریکا کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں!

جوبائیڈن ایسے حکمرانوں کا معاملہ اس متعصب بھارتی بنیے جیسا ہے جسے ایک دفعہ کشتی میں مسلمان کے سینے پر چڑھنے کا موقع مل گیا اور وہ وہاں بیٹھے دھاڑیں مار کر رو رہا تھا اور یہ خدشہ ظاہر کر رہا تھا کہ یہ مسلمان جب میرے سینے پر سوار ہوا تو میری کیا درگت بنائے گا!

امریکیوں سے اتنی ہی گزارش ہے کہ کچھ عقل کی بات کیا کرو، ورنہ دنیا آپ کے بارے میں مزید کیا سوچے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp