تحریر: عاصم تنویر
محترمہ بینظیر بھٹو 23 دسمبر کی ٹھٹھرتی سردی میں اپنی بہترین دوست اور پولٹیکل سیکریٹری مس ناہید خان کے ہمراہ سکھر سے رحیم یار خان پہنچیں۔ رات کو انہوں نے پیپلز پارٹی ڈسٹرکٹ رحیم یار خان کے عہدے داروں سے بھر پور میٹنگ کی اور اگلے دن رحیم یار خان کے عوامی جلسہ عام کی تیاریوں اور پیپلز پارٹی کے ضلعی عہداروں کو جلسہ عام کو کامیاب بنانے کے بارے میں ہدایات جاری کیں۔
24 دسمبر کو محترمہ بینظیر بھٹو اپنی پولٹیکل سیکریٹری مس ناہید خان کے ہمراہ رحیم یار خان کے اسپورٹس اسٹیڈیم میں ایک بہت بڑے جلوس کے ہمراہ پہنچیں۔ جلسہ گاہ پہنچ کر انہوں نے سب سے پہلے میڈیا کی لائیو کوریج کے بارے میں پوچھا جس پر ناہید خان نے انہیں بتایا کے ملکی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے علاوہ بین الاقوامی خبر رساں ادارے رائٹرز کے نمائندہ عاصم تنویر، ایسوسی ایٹڈ پریس آف امریکا کے نمائندہ میاں خالد تنویر، ایجنسی فرانس پریس کے نمائندہ عارف علی اور بی بی سی کی ٹیم ان کے جلسہ عام کی کوریج کے لیے اسٹیڈیم میں موجود ہے۔
اس پر محترمہ بینظیر بھٹو نے غیر ملکی میڈیا کے نمائندوں کو اسٹیج پر بلایا اور ان سے تبادلہ خیال کیا۔ رحیم یار خان میں عوام کے جوش و خروش کو دیکھ کر محترمہ بینظیر نے اپنی پولیٹیکل سیکریٹری ناہید خان کو زبردست خراج تحسین پیش پیش کیا۔ انٹیلی جینس ایجنسیوں نے پیپلز پارٹی کے رحیم یار خان میں لوگوں کی شمولیت ایک لاکھ سے زائد رپورٹ کی جبکہ آزاد ذرائع کے مطابق جلسے میں 2 لاکھ سے زائد کارکنوں نے شرکت کی۔
مزید پڑھیں: مفاہمت کی مضبوط حامی، محترمہ بے نظیر بھٹو، ہمت اور استقامت کی علامت بنیں، وزیر اعظم پاکستان
محترمہ بینظیر بھٹو رحیم یار خان سے اسی دن 24 دسمبر کو چارٹرڈ طیارہ کے ذریعے بہاولپور پہنچیں اور شام کو بہاولپور اسٹیڈیم میں سخت ترین سردی کے باوجود ایک بہت بڑے تاریخی عوامی جلسہ سے خطاب کیا۔ بعد ازاں پیپلز پارٹی کے رہنما اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین ذکا اشرف کی شوگر مل میں ان کے گھر پر قیام کیا اور ڈنر میں شرکت کی۔
محترمہ بینظیر بھٹو 25 دسمبر کو دوپہر 12 بجے لودھراں میں عوامی جلسہ عام سے خطاب کے لیے پہنچیں اور لودھرا ں کے تاریخ کے سب سے بڑے عوامی جلسہ سے خطاب کیا۔ اس موقع پر سابق وفاقی وزیر مرزا ناصر بیگ اور سابق ممبر قومی اسمبلی رانا ممتاز نون بھی محترمہ بینظیر بھٹو کے ہمراہ تھے۔
لودھراں میں تاریخی جلسہ عام سے خطاب کرنے کے فوری بعد محترمہ بینظیر بھٹو سابق اسپیکر قومی اسمبلی سید یوسف رضا گیلانی کے ہمراہ مظفر گڑھ کالج گراؤنڈ میں منعقدہ جلسہ سے خطاب کے لیے پہنچیں اور 4 بجے شام مظفر گڑھ کے کالج گراؤنڈ میں بہت ہی بڑے جلسہ عام سے خطاب کیا۔
محترمہ بینظیر بھٹو، سابق اسپیکر قومی اسمبلی سید یوسف رضا گیلانی اور محترمہ بینظیر بھٹو کی پولیٹیکل سیکریٹری ناہید خان مظفرگڑھ کے عوامی جلسہ عام سے خطاب کرنے کے بعد براہ راست ملتان ایئر پورٹ پہنچے جہاں پر ایکسپریس ٹی وی ملتان کے بیوروچیف شکیل انجم (سابق صدر نیشنل پریس کلب) کو انٹرویو دیا۔
مزید پڑھیں: سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی 71 ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے
محترمہ بینظیر بھٹو 25 دسمبر کی رات 8 بجے ملتان سے براہ راست اسلام پہنچیں اور رات گئے تک اپنی رہائش گاہ واقع ایف ایٹ ٹو پر پارٹی کے لیڈروں سے ملاقاتوں میں مصروف رہیں۔ ان کے ہمراہ پولیٹیکل سیکریٹری ناہید خان اور سینیٹر صفدر عباسی بھی موجود تھے۔
محترمہ بینظیر بھٹو نے رات گئے پارٹی کے اہم عہدے داروں سے ملاقات کے بعد پولیٹیکل سیکریٹری ناہید خان سے آئندہ کی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا اور پارٹی کے مستقبل کے بارے ناہید خان کو ہدایات بھی دیں۔
26 دسمبر کو محترمہ بینظیر بھٹو اٹک اور پشاور کے جلسہ عام سے خطاب کے لیے روانہ ہوئیں اور ارباب نیاز اسٹیڈیم میں عوامی جلسہ سے خطاب کیا۔ دہشتگرد بھی سائے کی طرح محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کرنے کے لیے ان کی جان کے درپے تھے۔ دہشتگردوں نے کارساز بم دھماکے کے بعد ایک مرتبہ پھر پشاور میں محترمہ بے نظیر پر حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن سیکیورٹی اداروں نے پشاور میں دہشتگردی کی کارروائی ناکام بنا دی اور ملزمان سے اسلحہ برآمد کرلیا۔
پشاور جلسہ عام سے خطاب کرنے کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو اور ان کی پولیٹیکل سیکریٹری ناہید خان واپس محترمہ بینظیر بھٹو کی رہائش پر اسلام آباد پہنچ گئے۔ ناہید خان رات 2 بجکر 30 منٹ پر محترمہ بے نظیر بھٹو کی رہائش گاہ سے اجازت لیے کر روانہ ہوئیں تو رات 3 بجے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم تاج محترمہ کی رہائش گاہ پر پہنچے اور محترمہ کے سیکیورٹی انچارج برگیڈیئر (ریٹائرڈ) امان سے ملاقات کی اور انہیں کہا کہ آپ میری محترمہ سے فوری طور پر ایمرجنسی میں ملاقات کروائیں۔ میں نے انہیں ایک اہم پیغام دینا ہے۔
مزید پڑھیں: اگر بے نظیر بھٹو کے قتل میں طالبان ملوث تھے تو کارساز پل کی لائٹس کس نے بند کروائیں؟
محترمہ بینظیر بھٹو اس وقت برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے نمائندے عاصم تنویر کو خصوصی انٹرویو دے رہی تھیں، اس دوران برگیڈیئر امان نے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم تاج کا فوری طور پر ملاقات کا پیغام پہنچایا۔ انٹرویو کے بعد محترمہ نے جنرل ندیم تاج سے ملاقات کی۔
اس دوران ڈی جی آئی ایس آئی نے محترمہ کو اگلے دن 27 دسمبر کو دہشتگردی کے خطرہ کے پیش نظر راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ عام سے خطاب کرنے سے منع کیا اور لیاقت باغ جانے سے منع کرتے رہے۔ 27 دسمبر کو محترمہ نے ناشتہ کرنے کے بعد ملکی اور غیر ملکی اخبارات کا مطالہ کیا اور اس دوران وہ اپنی پولیٹیکل سیکریٹری ناہید خان سے بات چیت بھی کرتی رہیں۔
27 دسمبر کو محترمہ بینظیر بھٹو اور افغانستان کے صدر حامد کرزئی کے درمیان صبح ساڑھے 10 بجے ملاقات طے تھی لیکن حامد کرزئی کی فلائٹ لیٹ ہونے کی وجہ سے یہ ملاقات دن ساڑھے 11 بجے شروع ہوئی۔ اس ملاقات میں محترمہ کے ساتھ ناہید خان اور سینیٹر صفدر عباسی بھی موجود تھے۔ محترمہ دوپہر ایک بجے افغانستان کے صدر حامد کرزئی سے ملاقات کے بعد اپنی رہائش گاہ پر پہنچیں۔
محترمہ بینظیر بھٹو ناہید خان اور برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے نمائندہ عاصم تنویر نے دوپہر کا کھانا اکٹھے کھایا اور اس کے بعد محترمہ بینظیر فون پر ملکی اور بین الاقوامی سیاست دانوں اور اہم افراد سے بات چیت کرتی رہیں۔
مزید پڑھیں: ذوالفقار علی بھٹو کا مزار جس کا فائنل ڈیزائن محترمہ بے نظیر بھٹو نے منظور کیا
محترمہ بینظیر بھٹو اپنی رہائش گاہ ایف ایٹ 2 سے سہ پہر ساڑھے 3 بجے لیاقت باغ جلسہ عام کے لیے ناہید خان، صفدر عباسی اور امین فہیم کے ہمراہ روانہ ہوئیں۔ محترمہ نے دہشتگردی کی پیشگی اطلاع کے باجود لیاقت باغ میں جلسہ عام سے خطاب کیا۔ خطاب کرنے کے بعد محترمہ نے گولڑہ شریف درگاہ پر دعا اور حاضری کے لیے جانا تھا اور رات 7 بجے 3 رکنی امریکی سینیٹرز کے وفد سے ملاقات کرنا تھی۔
لیاقت باغ جلسہ سے خطاب کے بعد لوگوں کا جم غفیر محترمہ کی گاڑی کے ساتھ ساتھ رواں دواں تھا کہ اس دوران محترمہ گاڑی کے ڈرائیور جاوید کو سن روف کھولنے کا کہا اور چند ہی سیکنڈز کے بعد محترمہ گاڑی کے سن روف سے کارکنوں کو ہاتھ ہلا کر ان کے نعروں کا جواب دے رہی تھیں کہ اچانک دہشتگردوں نے پر فائرنگ کردی اور 10 سیکنڈز بعد ہی بم دھماکا ہوگیا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی اور عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم نے محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کردیا گیا۔