تم کہاں کے سچے تھے۔۔۔!!!

اتوار 16 اپریل 2023
author image

ندیا اطہر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

‘تمہاری فائلیں ان کا جرم ثابت کریں یا نہ کریں لیکن ان کے ضمیر مجرم ہیں، یہ بات ان کو بخوبی معلوم ہے۔’
یہ الفاظ پاکستان کے پہلے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر فیلڈ مارشل ایوب خان کے منہ سے اُس وقت نکلے جب انہیں اپنے بنائے گئے قانون الیکٹیو باڈیز ڈسکوالیفیکیشن آرڈر المعروف ایبڈو کے تحت نااہل ہونے والے سیاستدانوں کے جرائم اور بدعنوانیوں کی فہرست دکھائی گئی۔ یہ جرائم اور بدعنوانیاں اتنی معمولی نوعیت کی تھیں کہ انہیں دیکھ کر فیلڈ مارشل بدمزہ ہو گئے۔

مجھے تاریخ کا یہ ورق شاہد میتلا کے انٹرویو میں باجوہ صاحب کے اس اعتراف پر یاد آیا:
“وہ بڑے پراعتماد تھے، انہیں یقین تھا کہ ان کے پاس دستاویزات مکمل ہیں۔ نوازشریف جے آئی ٹی کی تشکیل میں فوج کی شمولیت پر اس لیے رضامند تھے کہ وہ اپنی ایمانداری پر فوج کا ٹھپہ لگوانا چاہتے تھے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ نواز شریف اس کیس میں باعزت بری ہو جاتے تو اس کا سارا ملبہ فوج پر ہی گرنا تھا۔”

سوال یہاں یہ ہے کہ نوازشریف کی بریت سے فوج پر ملبہ گرنے کی کیا منطق ہے؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے جب ہم تاریخ کے گم گشتہ اوراق کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ سیاستدانوں کے خلاف بنائے گئے بدعنوانی، مالی بے ضابطگی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے زیادہ تر مقدمات کا مقصد ذاتی عناد اور دشمنی ہی رہا۔

قیامِ پاکستان کے فوراً بعد سیاسی انتقام کا پہلا نشانہ سندھ کے وزیر اعلیٰ محمد ایوب کھوڑو اُس وقت بنے جب سندھ کی صوبائی حکومت اور پاکستان کی مرکزی حکومت کے درمیان اختیارات کے استعمال میں اختلافات شدت اختیار کر گئے اور محمد ایوب کھوڑو کو برطرف کرتے ہوئے ان کے خلاف بدعنوانی کے ایسے مقدمات ٹربیونل کے سامنے رکھے گئے جن میں سے بیشتر میں ٹربیونل نے انہیں بری کر دیا اور چند انتہائی معمولی نوعیت کے انتظامی الزامات پر انہیں دو سال کے لیے نااہل کر دیا گیا۔

بعد ازاں وہ ان الزامات میں بھی بری ہو گئے۔اسی طرح ایوب خان کے ایبڈو کا ایک مقصد مخالفین سے انتقام لینا بھی رہا جیسا کہ فوج کے سربراہ ایوب خان کو اس وقت کے وزیر دفاع محمد ایوب کھوڑو کے دروازے کے باہر کافی دیر انتظار کرنا پڑا اور اپنی اس کوفت کا بدلا فیلڈ مارشل ایوب خان نے سابق وزیر دفاع پر مقدمات بنا کر لیا۔

ایبڈو کے تحت جن سیاسی مخالفین کو نااہل کیا گیا ان پر بھی کوئی بڑا الزام نہ لگایا جا سکا بلکہ الزامات کی نوعیت دیکھ کر فیلڈ مارشل بدمزہ ہو گئے اور پھر اپنے دل کی تسلی کے لیے انہیں ضمیر کا مجرم بنا دیا۔

انتقامی مقدمات کا سلسلہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی جاری رہا۔ ضیاء الحق نے بھی اسے دوام بخشا۔ بینظیر بھٹو اور نوازشریف بھی اسی روش پر چلتے رہے تاوقتیکہ پرویز مشرف اقتدار پر قابض ہو گئے اور انتقامی مقدمات کا رخ نوازشریف کی طرف مڑ گیا۔

یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر دور میں سیاستدانوں کے احتساب کے نام پر انتقام کا یہ سلسلہ جاری رہا اور سیاسی مخالفین کو دبانے، جھکانے، ڈرانے اور بدنام کرنے کے لیے بدعنوانی اور مالی بےضابطگیوں کے مقدمات بنائے جاتے رہے لیکن زیادہ تر مقدمات کی تاریخ دیکھی جائے تو وہ ہمیشہ بے نتیجہ ہی رہے اور کسی منطقی انجام تک پہنچے بغیر یا تو ختم ہو گئے یا پھر کسی ‘مناسب وقت’ کے لیے سنبھال لیے گئے۔

حالیہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو 2017 میں میاں صاحب کی تاحیات نااہلی کا معاملہ بھی مبنی بر انتقام ہی ہے کیونکہ اُس وقت کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ سیاست کے میدان کے پرانے کرداروں کی بجائے نئے چہروں کو اقتدار پر مسلط کیا جائے اور ملک میں تبدیلی لائی جائے۔

اپنے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اختیارات، وسائل اور اپنی طاقت کا بےدریغ استعمال کیا گیا۔ انصاف کے ایوانوں میں بیٹھے ججز، بیوروکریسی کے کل پرزوں، بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز اور سوشل میڈیا کے ٹرولز؛ سب کو ایک لڑی میں پرویا گیا۔ کرپشن کی نام نہاد فائلیں نکالی گئیں؛ بدعنوانی کے من گھڑت قصے سنائے گئے؛ اختیارات کے ناجائز استعمال کے لایعنی واقعات گھڑے گئے اور مالی بےضابطگیوں کی کہانیاں بنائی گئیں۔

واٹس ایپ گروپس بنا کر دی گئی ہدایات کی روشنی میں سوشل میڈیا پر چوبیس گھنٹے ٹرولنگ کی جانے لگی اور قومی میڈیا کے پرائم ٹائم شوز میں عدالتوں کے متوازی ٹرائل کورٹ لگا کر سزاؤں سے پہلے سزائیں سنائی جانے لگیں۔ جبکہ واقفانِ حال جانتے ہیں کہ پانامہ پیپرز کی ردی میں سے جب کچھ نہ نکلا تو اقامہ ڈھونڈا گیا اور اُس تنخواہ کو بنیاد بنا کر نوازشریف کو تاحیات نااہل کر دیا گیا جو کبھی وصول ہی نہ کی گئی تھی۔

اگر آج باجوہ صاحب یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ “ایک بےگناہ” کی بریت صرف اس لیے نہ ہو سکی کہ پھر “ملبہ فوج پر گرنا تھا” تو اس کی وجہ یہ ہے کہ باجوہ سمیت چند جرنیل ‘نوازشریف کی سیاست مکاؤ اور عمران خان کو لاؤ’ منصوبے کو ہر صورت میں کامیاب دیکھنا چاہتے تھے اور اسی کامیابی کے حصول کے لیے جھوٹ کو سچ بنایا گیا اور سچ کی کہیں شنوائی نہیں ہونے دی۔

لیکن یہ بھی قانونِ قدرت ہے کہ جھوٹ چاہے جتنی بھی منصوبہ بندی کے ساتھ بولا جائے بہرحال بےنقاب ہو کر رہتا ہے۔ اب چاہے یہ نقاب کشائی باجوہ صاحب کے مبینہ انٹرویوز سے ہو، عمران خان کی زبان سے سچ نکل جائے، پانچویں پشت کی دوغلی ابلاغی جنگ کے سوشل میڈیائی یوٹیوبرز کی دہائیاں ہوں کہ ہمیں تو آپ کرپشن کی یہ یہ کہانیاں بتاتے تھے اب نیوٹرل کیسے ہو گئے؟ یا عمران ریاض و دیگر کا یہ واویلا گونجتا نظر آئے کہ “ہمیں تو کرپشن کی فائلیں دکھائی گئی تھیں۔”

کوئی پوچھنے والا ہو تو پوچھے جناب کچھ تحقیق آپ کی بھی ذمہ داری تھی یا بس سنی سنائی کو ہی آگے بڑھانا تھا !!
قصہ مختصر ہم تبدیلی رجیم کے تمام سہولت کاروں اور آلہ کاروں سے یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اب شکوہ شکایت اور گلے شکوے کیوں؟
تم کہاں کے سچے تھے۔۔۔!!!

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp