ملک میں آئین کی بالا دستی اور عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے چوہدری اعتزاز احسن کی جانب سے بلائی گئی وکلاء کی گول میز کانفرنس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے۔
لاہور میں ہونے والی وکلاء کی گول میز کانفرنس کا اعلامیہ اعتزاز احسن نے پڑھ کر سنایا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں ہونے چاہییں۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ اپنے اندرونی معاملات کو افہام و تفہیم سے مل بیٹھ کر حل کرے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدالت کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قانون سازی کا عمل اس کی آزادی، اس کے وقار اور اتھارٹی کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس چیز کی اشد ضرورت ہے کہ عدالتیں آئین کے اندر رہ کر کام کریں۔ ہم تمام وکلاء عدالتوں کی حمایت کرتے ہیں۔ اس وقت مضبوط عدلیہ کی ضرورت ہے جو آئین کے اندر رہ کر کام کرے اس لیے ججز اپنے حلف کی پاسداری کریں۔
اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ موجودہ تنازعہ کی وجہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات ہیں اس لیے تمام متعلقہ ادارے الیکشن کے انعقاد کے لیے اپنے فرائض سرانجام دیں۔
گول میز کانفرنس کے اعلامیے میں کابینہ کی منظور کردہ قرار داد کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اس کا جائزہ لینے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدالت انتخابات میں تاخیر کرنے کا جائزہ لے۔
وکلاء کی گول میز کانفرنس کے اعلامیہ کے مطابق عدالتی حکم پر عمل نہ کرنے پروزیراعظم، وزیرقانون اور وزیرداخلہ پر ذمہ داری ڈالنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری کا خطاب
صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے گول میز کانفرنس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کہیں کہ آپ آئین کو نہیں مانتے تو آپ حلف کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ اگر الیکشن کی مدت بڑھانا مقصود ہے تو آئین میں ترمیم کر لیں۔ الیکشن کی تاریخ پر ساری سیاسی جماعتیں مل کر بیٹھیں لیکن کوئی قانون سازی ایسی نہیں ہو سکتی جو سپریم کورٹ کے اختیارات کو کم کرے۔ اس جنگ کا نقصان ملک کو ہو رہا ہے۔
ہم آئینی بحران سے گزر رہے ہیں، حامد خان
سابق صدر سپریم کورٹ بار حامد خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ملکی تاریخ کےآئینی بحران سے گزر رہے ہیں۔ ماضی میں بھی ایسے امتحانات تھے ان سے گزر گئے اس سے بھی گزر جائیں گے۔ بہت سارے معاملات اصول پر طے ہونا ہوتے ہیں جن پرکھڑے رہناچاہیے۔
حامد خان نے کہا کہ آئین میں کہیں بھی یہ بات درج نہیں کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی وقت پر ہوں۔ بھارت میں 28 صوبے ہیں اور وہاں سارا سال اسمبلیوں کے انتخابات ہوتے رہتے ہیں۔
حامد خان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کرے۔ کسی کے پاس گنجائش نہیں کہ وہ عدالتی فیصلے سے باہر نکل سکے۔ آئین کے تحت انتظامی ادارے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد کرنے اور کرانے کے پابند ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ یہ بات کررہے ہیں کہ عدالتی فیصلے پر عمل نہیں کرنا وہ احکامات کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ ہم سب سے پہلے وکیل ہیں پھر ہماری ہمدردیاں کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ ہیں۔ آئین نہ ہو تو وکالت کے پیشے کا جواز نہیں رہ جاتا۔
ان کا کہنا تھا کہ بہت سارے حادثات میں ہم نے ماضی میں آئین سے انحراف کیا۔ آج بھی از خود نوٹس پر اعتراض کیا جا رہا ہے۔ صرف تکنیکی بنیاد پر اصول کو نظرانداز کیاجارہا ہے۔ اختلافات کو بڑھاوا دینے کی بجائے معاملے کو ملکی مفاد اور عدلیہ کےساتھ مل کرحل کرنا چاہیے۔ اس قسم کی درخواستیں دائر نہ کی جائیں جو اختلافات کو بڑھاتی ہوں۔ عدلیہ کی مضبوطی ملک کے استحکام سے جڑی ہے۔
آئین کے دیباچہ کو پڑھیں تو حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے، انور منصور
سابق اٹارنی جنرل پاکستان انور منصور نے کہا کہ جس کانفرنس میں ہمیں بلایا گیا یہ پرانا ٹاپک ہے۔ بد قسمی سے اس موضوع پر کوئی کام نہیں ہوا۔ آئین کی شقوں کو شاید ہم نے کبھی غور سے نہیں پڑھا۔ آئین کے دیباچہ کو پڑھیں تو حاکمیت اللہ تعالٰی کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ ایسا ادارہ ہے جس کے اوپر ہمارا ایک بھروسہ رہتا تھا بد قسمتی سے اب سپریم کورٹ کو متنازع بنایا جا رہا ہے۔ اداروں کے درمیان دراڑ پڑ رہی ہے۔ آرمی چیف نے کہا کہ آئین مقدس ہے، پارلیمنٹ منتخب نمائندوں کے لیے ہے اس کے اندر کسی اور کا داخلہ بغیر اجازت نہیں ہوتا۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ استعفے دینے والوں کو عدالتی حکم کے باوجود بھی پارلیمنٹ میں نہیں جانے دیا گیا۔ سپریم کورٹ میں ہمیں اتفاق رائے پیدا کرنا پڑے گا۔
سلمان اکرم راجہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج کے موضوع کے مطابق آئین کا تقدس ایک متحد عدلیہ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ وہی جنگ ہے جو پہلے بھی لڑی تھی ہم نے جمہوریت کے لیے جنگ لڑنی ہے۔ ہمارا ذہنی پس منظر مختلف ہو سکتا ہے مگر آئین کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔
آئین کی گولڈن جوبلی پر انتخابات کی طرف جانا چاہیے تھا، ربیعہ باجوہ
لاہور ہائی کورٹ بار کی نائب صدر ربیعہ باجوہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ آئین کی گولڈن جوبلی کےموقع پر ہنسی خوشی انتخابات کی طرف جانا چاہیے تھا۔ وکلاء اس کےساتھ کھڑے ہیں جو آئین کےساتھ ہے۔ سیاست دان یہ نعرہ لگانا بند کریں کہ پارلیمان سپریم ہے۔ پارلیمان نہیں بلکہ آئین سپریم ہے۔ اگر پارلیمان سپریم تھی توجنرل باجوہ کی ایکسٹیشن کےوقت یہ کیوں نہیں کہاگیا۔
ربیعہ باجوہ کا کہنا تھا کہ جب فوجی عدالتیں بنائی گئیں تو اس وقت پارلیمان سپریم کانعرہ کیوں نہیں لگایا گیا۔ دوصوبوں کو غیرآئینی طریقے سے انتخابات سے دور رکھنے کے عمل کی مذمت کرتے ہیں۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں فوری انتخابات کرانا آئین کا تقاضا ہے۔
جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کوئی نہ کوئی حل ہونا فوری طور پر ضروری ہے۔ وکلاء نے آئین کی بالادستی کو قائم رکھنا ہے۔ آئین کہتا ہے کہ 90 روز میں انتخابات ہوں تو اس پر انگلیاں کیوں اٹھائی جا رہی ہیں۔ جو فیصلہ عدلیہ نے دیا ہے وہ سب سے ضرر ترین فیصلہ ہے اور آئین پر عمل نہ کرنا غداری کے مترادف ہے۔
سابق ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے اپنے خطاب میں کہا کہ وکلاء قانونی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ جو بھی حکومت ہو وہ آئین اور عدلیہ کی اہمیت کو جانے۔
احمد اویس نے کہا کہ بین الاقوامی پرواز اگر اپنا راستہ بھٹک جائے تو انہیں کہا جاتا ہے مخالف ملک تمہیں اڑا دے گا اسی طرح جب آپ آئین سے ہٹیں گے تو وکلاء آپ کو اڑا دیں گے۔ پاکستان کا آئین سپریم ہے، تمام افراد، ادارے سب آئین کے تابع ہیں۔ یہ حقیقت ہے اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے اور جو نہیں سمجھے گا ہم اسے سمجھا دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کے 3 ستون ہیں اور عدلیہ پاکستان کا سب سے اہم ستون ہے کیوں کہ اس کے پاس عدالتی نظر ثانی کا اختیار ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم عدلیہ کے فیصلوں کو نہیں مانتے یہ خود مفرور لوگ ہیں۔
پیپلزپارٹی چھوڑی ہے نہ چھوڑوں گا، لطیف کھوسہ
سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ نے کہا کہ پیپلزپارٹی چھوڑی ہے نہ چھوڑوں گا۔ جماعت سے محبت اپنی جگہ لیکن آئین کی پاسداری پر یقین رکھتے ہیں۔ اعتزاز احسن اور میں آئین کے لیے کھڑے ہوں گے۔ ہم کسی کو خوش کرنے کےلیے نہیں بلکہ آئین کے تحفظ کےلیے میدان میں آئے ہیں۔ اظہر صدیق کے گھر پر حملہ قابل افسوس ہے۔
سابق صدر اسلام آباد ہائی کورٹ بار شعیب شاہین نے کہا کہ ہماری جوڈیشری اور اسٹیبلشمنٹ نے ماضی میں ملک کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے۔ ہمارے الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ کی خواہش ہے کہ ہم انتخابات میں نہ جائیں لیکن عدلیہ آئین کے ساتھ کھڑی ہے ہم اس عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔
گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سینیئر قانون دان اکرام چوہدری نے کہا کہ جو لوگ آئین کی بالا دستی چاہتے ہیں ان کو مل کر معاملہ طے کرنا چاہیے۔ پاکستان کے وکلاء آئینی بالا دستی کے ساتھ ہیں۔ ہمیں ملک کےعوام کی جمہوری جدوجہد اور ووٹ کےحق کےلئے ساتھ دینا ہوگا۔
چیف جسٹس اور عدلیہ ہماری ریڈ لائن ہیں، اظہر صدیق
اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں لیکن چیف جسٹس اور عدلیہ ہماری ریڈ لائن ہیں۔ جو آنکھ عدالتوں اور ججوں کی طرف دیکھے گی وہ نکال دی جائے گی۔ ایک ایجنڈے کےتحت سیاست دان ججوں میں تقسیم چاہتے ہیں لیکن وکلاء سپاہی کی طرح عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔
جسٹس ریٹائرڈ شبر رضا رضوی نے کہا کہ ہمارے آرمی چیف نے بڑی خوش آئند بات کی ہے کہ وہ منتخب حکومت اور جمہوریت کو پسند کرتے ہیں۔ آرمی چیف کا یہ کہنا بڑی اچھی بات ہے مگر یہ چیز بتانا چاہوں گا کہ جمہوریت ایک طرف اور مذہبی رجحان ایک طرف ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت وزیر اعلیٰ کو صوبائی اسمبلیاں اور وزیراعظم کو قومی اسمبلی منتخب کرتی ہیں۔ آئین میں الیکشن کا وقت اور مدت بھی مقرر کی گئی ہے جس کے تحت 90 روز میں انتخابات کرانا ضروری ہیں۔ اسمبلی ہو یا نا ہو وفاقی حکومت آرٹیکل 86 اور 87 کے تحت الیکشن کے لیے فنڈز جاری کرنے کی پابند ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ کسی آرٹیکل پر عمل نہیں کریں گے تو اس سے انحراف کریں گے۔ اس وقت پاکستان میں لوگوں کے لیے خوراک ہے نہ دوائی اس لیے حل یہی ہے کہ آئین پر عمل کرو۔
سینیئر قانون دان خواجہ طارق رحیم نے اپنے خطاب میں کہا کہ خوشی ہے کہ کانفرنس میں صدر سپریم کورٹ بار اور سینئیر قانون دان موجود ہیں۔ پارلیمنٹ کا کوئی حق نہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے اختیارات میں مداخلت کرے۔ اگر کسی نے ایسا اقدام کیا تو وکلاء راست اقدام کرتے ہوئے عدلیہ کےساتھ کھڑے ہوں گے۔
سینیئر قانون دان ظفر اقبال کلانوری نے اپنے خطاب میں کہا کہ جب آئین میں 90 روز کے اندر الیکشن کرانے کا ذکر ہے تو پھر کرائے جائیں۔
سینیئرقانون دان آفتاب باجوہ کا کہنا تھا کہ قوم صرف بروقت انتخابات کا مطالبہ کررہی ہے اور اس کے بغیر نجات نہیں ہے۔