ممتاز امریکی افسانہ نگار اور ناول نگارجان چیورکومضافات کا چیخوف بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے فکشن کی بیشترلوکیل مین ہیٹن کی مشرقی سمت میں ویسٹ چیسٹرکے مضافات سے متعلق ہیں، جوان کی جنم بھومی ہے۔ اس کےعلاوہ انہوں نے اٹلی، خاص طورپر روم کے بارے میں بھی کافی لکھا۔ انہیں بیسویں صدی کے اہم ترین افسانہ نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے 4ناول بھی تخلیق کیے، جنہیں کئی اہم ایوارڈز سے نوازا گیا، ان کی زندگی کی کہانی ہربڑے فنکار کی طرح بہت دلچسپ ہے۔ ابتدائی تعلیمی کارکردگی کافی خراب رہی اور انہیں اسکول سے نکال دیا گیا۔ چیور نےاپنےاس تجربےکوطنزیہ اندازمیں رقم کیا، جس کا عنوان “Expelled” رکھا۔
چیور لکھنے کے معاملے میں کچھ منفرد معمولات رکھتے تھے، ان کے بقول ’’حقیقت یہ ہے کہ میرے پاس ڈیسک ہے ہی نہیں، اس وقت میں تیسری منزل پرایک کمرے میں کام کررہا ہوں جہاں ایک ٹوٹا ہوا ٹی وی، ایک پرنٹر اورایک کرسی ہے، جو تصویروں کی تار سے بندھی ہوئی ہے۔ اس چڑچڑے پن کا سبب ہونا چاہیے، لیکن کوئی مسئلہ نہیں۔ جب میں ایک کمرے میں کوئی کتاب مکمل کرلیتا ہوں تودوبارہ اس کمرے میں جانا نہیں چاہتا۔ مجھےتقاریب کا شوق ہے لیکن جن کے ساتھ لکھنے کا تعلق ہے، بس اتنا۔ میں صبح کے وقت کام کرتا ہوں، یعنی روشنی میں کام کرتا ہوں۔ میں بہت جلدی ناشتے کے لیے نیچے اترتا ہوں، اندھیرے میں روشنی ہونے سے پہلے، بلیوں کو اکٹھے ناشتے کی ضرورت ہوتی ہے، میں بلیوں کے معاملے میں ظالم نہیں ہوں۔‘‘
کوئی کتاب مکمل کرنے کے بعد کی صورتحال وہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں’’کتاب ختم کرنے کے بعدعموماً مجھے تھکن کا احساس ہوتا ہے۔ جب میرا پہلاناول ختم ہوا تھا تو میں اس پر بہت خوش تھا۔ ہم میاں بیوی نے یورپ چھوڑا اورباہر ہی رہے، سو میں نے تبصرے نہیں دیکھے اور 10برس تک تو مجھے میکسویل کی جانب سے اسے رد کرنے کا علم ہی نہ ہوسکا۔ اپنا ناول ویپشاٹ اسکینڈل مجھے زیادہ پسند نہ تھا اور جب یہ مکمل ہوا تو میں اسے جلانا چاہتا تھا۔ میں رات کوجاگتا اور ہیمنگوے کی آوازسنتا۔ میں نے دراصل اس کی آوازکبھی نہ سنی تھی، لیکن یہ اس کی آوازتھی ’’یہ چھوٹی سی تکلیف ہے بڑی تکلیف ابھی آنی ہے‘‘۔ میں جاگتا اور باتھ ٹب کے کنارے پربیٹھ کرصبح کے 3، 4بجے تک سگریٹ نوشی کرتا۔ ایک بار میں نے کھڑکی کے باہرکی تاریک قوتوں کے سامنے قسم کھائی کہ میں دوبارہ کبھی بھی ارونگ ویلس سے بہتر ہونے کی کوشش نہیں کروں گا۔‘‘
فکشن کے بارے میں جان چیور کے خیالات کافی دلچسپ ہیں، کہتے ہیں ’’لکھنا میرے تئیں ابلاغ کا وسیلہ ہے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں، یہ میرے لیے حتمی، کارآمد کام ہے۔ یہ ان لوگوں سےمکالمہ ہے، جنہیں اگرنہ جانتا ہوتا توان کی صحبت سے یقیناً لطف اندوز ہوتا۔ یہ ان کے ساتھ میری زندگی اور ہماری زندگیوں کے بارے میں بہت گہرے اور درست محسوسات اورتحفظات کے بارے میں گفتگو ہوتی۔ اس ابلاغ کا نقطہ یہ ہے کہ یہ بہت مفید کام ہے، فکشن میں حقیقت کی قوت اور خواب میں حقیقت کی قوت ایک ہی چیز ہے۔ آپ خود کوایک کشتی پر محسوس کرتے ہیں اور نہیں جانتے ایسے ساحل کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہیں کہ جومکمل طور پر اجنبی ہے، لیکن آپ ایک پرانا سوٹ پہنے ہوئے ہیں اورجو شخص آپ کے ساتھ بیٹھا ہے وہ آپ کی بیوی ہے۔ یہ تو ہوئی خواب کی کیفیت، فکشن کا تجربہ بھی یہی ہے، لیکن جہاں تک خواب کے مفید ہونے کا تعلق ہے، ابتدائی معنوں میں وہ صرف خود آپ کے اپنے تجزیے کے لیے ہے۔‘‘
اپنی ذات اوراپنے فکشن کے بارے میں کہتے ہیں ’’میں خود کواس سے زیادہ جامع محسوس کرتا ہوں جتنا مجھے ہونا چاہیے۔ میری تحریروں میں ایسے پیراگراف ہیں جو کہ ابواب تھے۔ مثال کے طور پرککولڈ کے جواہرات کا کاروبار، یہ صرف 3جملے ہیں جنہیں بہت زیاہ پھیلایا جا سکتا تھا، وہاں اور صورتیں بھی ہیں۔ میں انہیں قبول نہیں کرسکتا۔ میرے پاس راستہ موجود تھا اورمجھے ہرچیز چھوڑ کر اسے جامع رکھنا تھا۔ جب میں جوان تھا توساری چراگاہ میں دوڑ کر واپس آسکتا تھا، اب مجھے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ میں براہ راست اس چیز پر جاتا ہوں جومدعا ہوتا ہے۔ میں اس معاملے میں پہلےاس قابل نہ تھا، مجھے اعتماد ہے کہ میں اب مزید پختہ ہوگیا ہوں۔‘‘
ان سے کسی نے فکشن اورحقیقت کےتعلق سے متعلق پوچھا توچیورکا جواب تھا ’’ایک بات تو یہ ہے کہ سچائی اور حقیقت کے اس وقت تک کوئی معنی نہیں جب تک کہ انہیں کسی اجتماعی حوالے میں نہیں رکھا جاتا۔ جہاں تک جھوٹ کا تعلق ہے میرے نزدیک فکشن میںیہ اہم عنصر ہے۔ ایک کہانی سنانے کی سنسنی خیزی دھوکا کھانے یا دینے کے مترادف ہے۔ ناباکوف اس کا ماہر تھا۔ جھوٹ بولنا ہاتھ کی ایسی صفائی ہے جو ہماری زندگی کے بارے میں گہرے محسوسات کو مترشح کرتی ہے۔‘‘
لکھنے کے انداز کے بارے میں کہتے ہیں’’یہ میرے نزدیک ایک تکنیک ہے، جس کا لکھاری اس لیے استحصال کرتا ہے تاکہ قاری کو اپنے کہے کی سچائی کا یقین دلاسکے، اگروہ حقیقت میں اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ وہ ایک ایسی چٹائی پرکھڑا ہے جسے آپ اس کے قدموں کے نیچے سے کھینچ سکتے ہیں۔ بلاشبہ انداز یا اظہار بھی ایک جھوٹ ہے۔ میں اسی کے بارے میں جولفظ پسند کرتا ہوں وہ امکان ہے، جو کافی حد تک اس طرح ہے جس طرح میں رہتا ہوں۔ یہ میز اصلی لگتی ہے، یہ پھلوں کی ٹوکری میری دادی کی ہے لیکن ایک پاگل عورت کسی بھی وقت دروازے سے اندر داخل ہو سکتی ہے۔‘‘
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔