’رودالی‘

اتوار 16 اپریل 2023
author image

صنوبر ناظر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آج بھی کچھ معاشروں میں گریہ وزاری اور بین کرنا بھی پیشے کا درجہ رکھتا ہے۔ ایسی بین کرنے والی عورتوں کو ’رودالی‘ کہا جاتا ہے۔

رودالی میت والے گھروں میں جا کر روتی دھوتی ہیں، یہ اس کام کی باقاعدہ تربیت لیتی ہیں تاکہ اپنے پیشے سے انصاف کر سکیں۔ تجربہ کار رودالیوں کی مانگ زیادہ ہوتی ہے اور معاوضہ  بھی اچھا ادا کیا جاتا ہے۔

کیا آپ کو بھی محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ریاستی اداروں کا کردار بھی ایک ’رودالی‘ کا سا ہے۔ پے در پے سانحات نے ان اداروں کو ایک تجربہ کار اور کامل دسترس رکھنے والی  ’رودالی‘ کے سانچے میں ڈھال دیا ہے۔

ہر سال کی طرح آج پھر دنیا کے نامی گرامی سائنسدان اپنے تجربات اور تحقیقات کی بنا پر ہمیں ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی پیشگی اطلاع بہم پہنچا رہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث قدرتی آفات پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔

ہمارے خطے میں سیلاب اور زلزلے کی تباہ کاریاں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔2005ء  کا زلزلہ تو یاد ہوگا، اُس وقت جب کہ ملکِ خداداد کے دارالحکومت اسلام آباد تک میں قدرتی آفات سے نمٹنے اور انسانی جانوں کو بچانے کے لیے مشینری ناپید تھی زلزلے سے تباہ ہونے والے دور دراز علاقوں کا حال کیا ہوا تھا سب نے دیکھا تھا۔

چلیے وہ زلزلہ تو بھولی بسری داستاں ہوئی مرنے والے مر گئے اب دل کے پھپھولے بھلا دوبارہ کیوں پھوڑیں۔ اس ملک میں سانحات کا کوئی کال پڑا ہے جو پچھلوں کو روئیں؟ اس ملک پر تو سانحات برسات کی طرح نازل ہوتے ہیں۔ اگر قدرتی آفات کچھ وقفہ کر جائیں تو ہمارے کرتا دھرتا ادارے اپنے ’حُسن تدبیر‘ سے ملک کو عشروں پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔

اگلے جنم بھی موہے بٹیا ہی دیجیو: صنوبر ناظر

پچھلے سال آنے والے سیلاب نے ہزاروں انسانوں ، لاکھوں مویشیوں اور اثاثہ جات کو ایسے نگل لیا جیسے کبھی اُن کا وجود ہی نہیں تھا۔کھڑی تیار فصلیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، کتنی عورتوں کی کوکھ اجڑ گئی۔ ریوڑ کے ریوڑ خوفزدہ آنکھوں  میں ہزاروں شکوے لیے بہتے چلے گئے۔

حد نگاہ تک پھیلے سیلاب میں تیرتی نامعلوم لاشوں کو لوگ بے بسی سے دیکھتے کہ کہیں وہ ان کا اپنا تو نہیں۔ ہزاروں حاملہ خواتین نے اس صورتحال میں دُہرا درد سہا۔

سیلاب کی تباہ کاریوں اور نقصانات پر ہر طرف ہاہاکار مچی، ماضی کے زلزلے کی طرح اس بار بھی ہر ادارے نے متاثرین کے نام پر حسبِ توفیق دنیا سے مدد اور چندہ اکٹھا کرنے کا شعار اپنایا۔ ریاستی اداروں کے سربراہان ہیلی کاپٹر سے متاثرہ علاقوں کا جائزہ لیتے، اس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کرتے، نقصان کا تخمینہ لگاتے اور پھر عالمی اداروں اور دنیا کے امیر ممالک کے آگے اس سانحے کی بولی لگانے کی تیاریوں میں جُت جاتے۔

سانحہ جتنا اندوہناک اور دردناک ہوتا ہے اسے کیش کروانا اتنا ہی آسان ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں سے لے کر  ترقی یافتہ ممالک تک، امیر ایشیائی ملک سے لے کر  دشمن پڑوسی ملک تک  سب نے امداد کی پیش کش کے انبار لگا دیے۔

فوراً سے پیشتر قدرتی آفات سے بچاؤ کا ادارہ حرکت میں آگیا۔  2005ء کے زلزلے میں متاثرین کا بھلا ہوا ہو یا نہیں، لیکن اس ادارے اور اس سے وابستہ لوگوں کی زندگیاں ضرور سنور گئیں تھیں۔ اب یہ سنہرا موقع پھر سے ان کے دروازے پر دستک دے رہا تھا تو دیر کس بات کی؟

سیلاب متاثرین کی امداد کے نام پر مختلف ممالک کی جانب سے غذائی اجناس، خیمے، ادویات، اور روز مرہ کی ضروریات سے بھرے جہاز ہر دوسرے ہفتے پاک سر زمین پر اترتے رہے، لیکن سیلاب متاثرین کی حالت زار میں کوئی فرق دیکھنے میں نہیں آیا، وہ آج بھی برے حالات کا شکار ہیں۔ بلند و بانگ دعوؤں کے باوجود  کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ نہ انہیں چھت میسر ہوئی نا ہی کاشتکاری کے لیے زمین،  نہ مویشی ہیں نا کوئی روزگار کا وسیلہ، بے سر و سامانی اب بھی برقرار ہے۔

ویسے بھی ان کی کُل زندگی کی جمع پونجی سوائے چند چیزوں کے اور تھی بھی کیا؟ کیڑے مکوڑے ہی تو ہیں سب، یہ سارے مر کیوں نہ گئے؟ اموات بڑھتیں تو گریہ و زاری بھی خود بخود بڑھ جاتی نتیجتاً  امداد میں اضافہ ہونا لازمی امر تھا۔

کہا جارہا ہے کہ پاکستان میں رواں برس پچھلے سال کی نسبت زیادہ طوفانی بارشوں کا امکان ہے، یعنی ایک بار پھر ہمارے سروں پر سیلاب کے سیاہ بادل منڈلا رہے ہیں۔

تو کیا ہماری ریاست اور اس کے ادارے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں؟ بجٹ میں قدرتی آفات کی روک تھام کے لیے کوئی فنڈ مختص کیا گیا ہے؟ آبادیوں ، فصلوں اور مال مویشی کو بچانے کے لیے اقدامات کئے گئے ہیں؟  کیا نئے بند باندھے گئے؟کیا پرانے  پشتے مضبوط کیے  گئے ہیں؟ ندی نالوں اور دریاؤں پر نئے پل بنائے گئے ہیں ؟ یا پرانے پلوں کی مرمت کا کام کیا گیا ہے؟

پاکستانی سماج میں شادی کا سوال

ان سارے سوالات کا ایک بھی جواب حوصلہ افزاء نہیں۔ ریاستی ادارے ان سانحات سے بچاؤ کی کوئی تیاری نہیں کرپائے ہیں۔

تو چلیں ہم ایک اور تیاری اور منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ ہم جن کاموں میں ہر فن مولا ہیں ان کی نئے سرے سے تیاری کرتے ہیں۔ ہم آنے والے سانحہ پر گریہ وزاری اور بین کرنے کی تیاری کرتے ہیں۔ ہم چندہ اور امداد مانگنے اور سمیٹنے کے نئے طریقہ کار کی تیاری کرتے ہیں۔

آئیں ہم ایسے ٹیلی وژن پروگرام مرتب کرتے ہیں جن میں ہم مہنگے اور قیمتی ملبوسات پہن کر سروں کو دوپٹوں سے ڈھانپ کر قدرتی آفات کی تباہیوں پر آنسو بہائیں گے۔ ہم ملاؤں کو ایسے سانحات کے پیچھے چھپے عزائم اور بے راہ روی پر فتوے صادر کرنے کی دعوت دینے کی تیاری کرتے ہیں۔

آئیں ہم امداد کی مد میں آنے والی اشیاء کو اپنے گھروں کی زینت بنانے کی تیاری کرتے ہیں۔ آئیں ہم ایک فہرست بنانے کی تیاری کریں کہ آئندہ سانحات پر کس ملک سے کتنی توقع رکھی جاسکتی ہے۔

آئیں ہم ایک تجربہ کار  ’رودالی‘ بننے کی تیاری کریں کیونکہ وقت بہت کم ہے اور تیاریاں بہت زیادہ۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp