سیاستدان اور معیاری تعلیم کا خواب؟

ہفتہ 4 جنوری 2025
author image

احمد ولید

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پنجاب حکومت ہر ضلع میں ایک رکن پنجاب اسمبلی کو ڈسٹرکٹ ایجوکیشن ایمبیسڈر تعینات کر رہی ہے جس کا کام اپنے علاقے میں تعلیمی بہتری کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا۔ تمام سرکاری افسران کو ان تعلیمی سفیروں کے ساتھ بھرپور تعاون کی ہدایت بھی کردی ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ اس اقدام سے تعلیمی امور میں بہتری آئے گی۔

اس سے ایک واقعہ یاد آگیا۔ چند سال قبل گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے سربراہ نے انکشاف کیا کہ کالج میں داخلوں کے دوران تعلیمی سرٹیفیکیٹ کی تصدیق کے عمل میں ایک بچے کا سرٹیفیکیٹ جعلی نکلا اور کالج انتظامیہ نے اس کا داخلہ منسوخ کر دیا۔ اگلے روز بچے کے والد کالج پہنچ گئے اور درخواست کی کہ وہ فلاں ضلع سے رکن پنجاب اسمبلی ہیں اور مہربانی کرکے ان کے بچے کو داخلہ دے دیں۔

سربراہ نے انہیں بتایا کہ ایسا کسی صورت ممکن نہیں کہ امیدوار کی تعلیمی اسناد جعلی ثابت ہو جائیں اور اسے کالج میں داخلہ مل جائے۔ ایم پی اے صاحب فرمانے لگے کہ انہوں نے بیٹے سے کہا بھی تھا کہ کسی ‘اچھی جگہ’ سے سند بنوانا مگر پتا نہیں کہاں سے لے کر آیا ہے۔ انہیں علم نہیں تھا اس کی تصدیق نہیں ہوسکے گی۔

سربراہ کا کہنا تھا کہ وہ صاحب چلے گئے مگر کچھ دن بعد دوبارہ ان کے دفتر میں آئے اور ایک تعلیمی سند ان کی میز پر رکھ کر بولے کہ انہوں نے مزید پیسے خرچ کرکے نئی سند حاصل کرلی ہے اور اب آپ چاہیں تو اس کی تصدیق بھی کروا سکتے ہیں۔ اب تو بیٹے کو داخلہ دے دیں۔ کالج کے سربراہ سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور ایم پی اے کو سمجھایا کہ داخلہ ایسے نہیں ہوتا۔

ایسے عوامی نمائندے کیسے تعلیم کے سفیر ہو سکتے ہیں۔ پنجاب کے ہر ضلع میں ان عوامی نمائندوں کا اپنے علاقوں میں تعلیمی اداروں پر اثر و رسوخ پہلے سے موجود ہے۔ داخلے وغیرہ کروانا اور اساتذہ کی ٹرانسفر پوسٹنگ کی سفارش کرنا۔ اب وہی عوامی نمائندے تعلیمی سفیر کے طور اپنا ‘اثر و رسوخ’ استعمال کریں گے۔

اسی پنجاب میں ایک دور میں تمام قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کو سرکاری نوکریوں میں کوٹہ فراہم کیا گیا۔ ایک بڑی تعداد میں پولیس، تعلیم سمیت مختلف محکموں میں بھرتیاں انہی عوامی نمائندوں کی سفارش پر کی گئیں۔ بڑی تعداد میں لوگوں نے جعلی ڈگریاں بنوا کر، رشوت دے کر نوکریاں حاصل کیں۔ اور عوامی نمائندوں نے خوب جیبیں گرم کیں۔

محکمہ تعلیم میں بھرتی کیے گئے یہی اساتذہ ‘گھوسٹ ٹیچر’ نکلے۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف کے دور میں انہی گھوسٹ اساتذہ اور گھوسٹ سکولوں کی نشاندہی کے لیے پاک فوج کی خدمات حاصل کی گئیں جس پر عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے کروڑوں روپے خرچ کیے گئے۔ پولیس، کسٹم، واپڈا جیسے محکموں میں نوکریاں حاصل کرنے کے بعد سرکاری ملازمین بھی پیچھے نہ رہے۔ اور یہی حکمران محکموں کی تباہی کے رونے روتے ہیں۔

ادھر پنجاب حکومت صوبے کے 13 ہزار سرکاری سکول نجی تعاون سے چلانے کے منصوبے پر عمل کرنے کا ارداہ رکھتی جس کے پہلے مرحلے میں قریباً 6 ہزار سکول آؤٹ سورس کیے جا رہے ہیں۔ اساتذہ کی تنظیمیں اس منصوبے سے متفق نہیں ہیں۔ ان کہنا ہے کہ صوبے بھر میں ایک لاکھ 24 ہزار اساتذہ کی آسامیاں خالی ہیں۔ جہاں استاد ہی نہیں تو ایسے سکول کیسے چلیں گے۔

ایک عرصے سے حکومت عوام کو تعلیم مہیا کرنے کے اپنے آئینی فریضے سے جان چھڑانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ 50 فیصد سے زائد بچے نجی سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت تعلیم کو مکمل طور پر نجی شعبے کے رحم و کرم پر چھوڑنا چاہتی ہے۔ آسمان کو چھوتی مہنگائی کے اس دور میں والدین کے لیے بچوں کی تعلیم کا بوجھ اٹھانا انتہائی مشکل ہوتا جا رہا ہے اور حکومت کو اس کا بالکل احساس نہیں ہے۔

ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے اعداد وشمار کے مطابق ان 13 ہزار سکولوں میں 500 سے زائد ایسے ہیں جن میں کوئی بچہ موجود نہیں، اڑھائی ہزار میں صرف ایک استاد ہے اور تین ہزار کے قریب ایسے ہیں جہاں اساتذہ کی تعداد دو ہے بچے 50 ہیں۔ صوبے میں آبادی کی شرع بڑھتی جا رہی ہے اور سرکاری سکول کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس وقت پنجاب میں سرکاری سکولوں کی تعداد 42 ہزار ہے۔

سرکاری سکولوں کے معیار کا یہ حال ہے کہ لاہور کے سینٹرل ماڈل سکول اور پائلٹ ہائی سکول جیسے اداروں میں طلبا کی تعداد پوری کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ اب ایسے سرکاری سکول بھی والدین کی ترجیح نہیں رہے جس کی بنیادی وجہ یہاں جدید تعلیم کا فقدان ہے۔

تعلیم کے سفیر ارکان پنجاب اسمبلی جن میں سے بیشتر خود معیاری تعلیم سے ناآشنا ہیں کیسے سرکاری سکولوں کے ماحول یا تعلیم میں بہتری لانے میں مددگار ثابت ہو سکیں گے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp