“کرکٹ بڑی ظالم کھیل ہے، ایک پل میں ہیرو تو اگلے لمحے میں زیرو بنا دیتی ہے”۔ سابق پاکستانی کپتان سرفراز احمد کے یہ سنہری الفاظ سچے لگتے ہیں، کیونکہ کچھ ایسا ہی بھارتی کرکٹ ٹیم کے ساتھ ہو رہا ہے۔
کون یقین کرے گا کہ ابھی 6 ماہ پہلے جب بھارتی ٹیم نے ٹی 20 کا عالمی کپ جیتا تو کوہلی کیا، شرما کیا ہر کھلاڑی کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جارہے تھے۔ کھلاڑی دیوتا بنے ہوئے تھے، جن کی ایک ایک ادا پر فدا ہونے کے لیے ہربھارتی تیار تھے۔
باور یہی کرایا جارہا تھا کہ بس یہی ٹیم ہے جس کا مقابل دور دور تک کوئی نہیں، وہ وشپنت جن کی فائنل میں جنوبی افریقی بلے بازوں کا تیز رفتار بیٹنگ کا ٹیمپو توڑنے کے لیے گلاوز کی تبدیلی کو ذہانت اور شاطرانہ چال قرار دیا جارہا تھا، اب یہ عالم ہے کہ سنیل گاواسکر بھی گلا پھاڑ پھاڑ کر انہیں “احمق” کا خطاب 3بار دے چکے ہیں۔
6 ماہ پہلی والی سرخرو ٹیم پر وہ بھی تنقید کررہے ہیں جن کی کرکٹ چند ٹیسٹ میچز تک محدود رہی۔ وجہ صرف یہ ہے کہ آسٹریلیا نے بارڈر گواسکر ٹرافی میں 3 ایک سے شکست دے کر بھارت کے ورلڈ ٹیسٹ چمپین شپ کے فائنل کھیلنے کے خواب کو ریزہ ریزہ کردیا۔
جو کل کے ہیرو تھے وہی کوہلی، شرما، وشپنت، راہول ولن بنے چکے ہیں۔ درحقیقت بھارتی کرکٹ ٹیم کے لیے دورہ آسٹریلیا کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں رہا۔ پہلے اپنے ہی میدانوں میں نیوزی لینڈ نے اسپن بالنگ کے جال میں ایسا پھنسایا کہ 3صفر کی ٹیسٹ شکست ملی۔ توقع تھی کہ آسٹریلیا میں بہترین کھیل دکھایا جائے گا تو یہ داغ مٹ جائے گا، اور بھارتی ٹیم ورلڈ ٹیسٹ چمپن کا فائنل بھی کھیل لے گی، لیکن اس بار آسٹریلیا کے ارادے ہی کچھ اور تھے، جس نے پہلے ٹیسٹ کے علاوہ مہمان ٹیم کو کسی بھی مرحلے پہ حاوی نہ ہونے دیا۔
بہرحال اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ سیریزبمراہ بمقابلہ آسٹریلیا تھی تو غلط نہ ہوگا۔ بمرا کی قدم اکھاڑتی گیندوں پر 32 میزبان کھلاڑیوں کو میدان چھوڑنا پڑا۔ اگر بمرا کا ہم پلہ کوئی اور بھارتی بالر ہوتا تو سیریز کا نتیجہ کچھ اور ہوتا۔ اس سریز میں بمرا نے اپنی 200 وکٹیں بھی مکمل کیں اور سب سے کم اوسط کے ساتھ 200 وکٹیں مکمل کرنے والے بالر بنے۔
آسٹریلوی میڈیا، کوہلی اور روہیت شرما
آسٹریلوی میڈیا کی ہمیشہ سے روایت رہی ہے کہ وہ مہمان ٹیم کے اہم کھلاڑیوں کو ہدف بنا کر ان پر ایسا دباؤ قائم کرتی ہے کہ وہ میدان کے باہر کے تنازعات میں ہی الجھے رہتے ہیں۔
کوہلی جو اس دورے سے پہلے بہترفارم کی تلاش میں تھے، غیر ضروری طور پر آسٹریلوی میڈیا سے اُس وقت الجھے جب انہوں نے کوہلی کی فیملی کے ساتھ تصاویریا ویڈیوز بنانے کی کوشش کی۔ بس پھر کوہلی یک دم ولن بن بیٹھے۔ آسٹریلوی میڈیا نے بھی کوہلی کو دباؤ میں لینے کے لیے “مسخرہ” کا خطاب دیا۔
ذہنی طور پر منشتر کوہلی کی ناکام بیٹنگ کا ہی اثر ہے کہ ماسوائے پہلے ٹیسٹ کی دوسری اننگ کی سنچری کے، کوہلی کی بیٹنگ کی کہانی 7، 11، 3، 36، 5، 17 اور 6 رنز سے آگے نہ بڑھ سکی۔ یعنی انہوں نے 9 اننگز میں صرف 190 رنز ہی بنائے۔
8 بار وہ وکٹوں کے پیچھے آوٹ ہوئے، اسی لیے کرکٹ تبصرہ نگاروں کے مطابق ان کی بیٹنگ تکینک اب پہلے جیسی نہیں رہی۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ پریکٹس کریں، لیکن کوہلی اس کے بجائے کچھ اور اڑان بھرتے رہے۔
آخری ٹیسٹ میں کوہلی بلاجواز پھر تماشائیوں سے الجھنے میں مصروف رہے، جب انہوں نے اپنی ٹراؤزر کی جیبوں کو خالی کرکے تماشائیوں سے اشارے بازی شروع کردی۔
بہرحال ناقص اور غیر معیاری بلے بازی کی وجہ سے اب بھارت میں یہ مطالبہ زور پکڑ گیا ہے کہ کوہلی کے لیے وقت آگیا ہے وہ کرکٹ کو خود الوداع کہیں یا پھر سلیکٹرز انہیں ڈراپ کردیں۔
کچھ ایسا ہی مطالبہ کپتان روہیت شرما سے بھی کیا جارہا ہے، جنہوں نے آخری 9 اننگز میں صفر، 8، 18، 11، 3، 6، 10، 3 اور 9 رنز جوڑے۔ یہی وجہ ہے کہ فائنل ٹیسٹ میں اب انہیں ڈراپ کیا گیا یا وہ خود بیٹھ گئے ہیں۔
یہ سب کچھ ہوا ایسا کہ اس کا دباؤ ٹیم پر بری طرح پڑا۔ روہیت شرما بار بار یہی گردان کر رہے ہیں کہ قیادت چھوڑ سکتے ہیں، لیکن ٹیسٹ کرکٹ کو نہیں۔ اب کوئی تصور کرسکتا تھا کہ یہ وقت بھی آجائے گا کہ روہیت اور کوہلی کے خلاف پورا بھارت یک زباں ہو کر یہ پکار کررہا ہو کہ “نو مور”۔
تنازعات میں گھری بھارتی ٹیم
یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سیریز کے آغازسے بھارتی ٹیم تنازعات میں ہی گھری رہی۔ دوسرے ٹیسٹ میں شکست ہوئی تو یہ بری خبر ملی کہ اسپنر اشون نے کرکٹ سے جدائی کر لی۔ وجہ یہی بیان کی گئی کہ انہیں آسٹریلیا کے دورے میں ہونے کے باوجود موقع نہیں دیا گیا۔
تجزیہ کاروں کا یہی کہنا تھا کہ روہیت شرما بطور کپتان انہیں مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں اور اشون پر سندر واشنگٹن کو ترجیح دی گئی۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط بھی نہیں ہوگا کہ 19 برس کے آسٹریلوی بلے باز سیم کانسٹاس نے پوری بھارتی ٹیم کو ناکوں چنے خوب چبائے، بلکہ وہ ان کے اعصاب پر چھائے رہے۔
میلبورن کے چوتھے ٹیسٹ میں ڈیبو کرنے والے اس کم عمر بلے باز نے پہلے بیٹنگ اور پھر فیلڈنگ میں تواتر کے ساتھ بھارتی بلے بازوں کو تنگ کیا۔
کوہلی کا فیلڈنگ کے دوران سیم کانسٹاس سے غیر ضروری طور پر کندھا مارنا اور معذرت کے بجائے سخت جملوں کے تبادلے نے باقی سیریز کو اور زیادہ ناخوش گوار بنا دیا۔
اسی کا اثر ہے کہ سڈنی ٹیسٹ میں بیٹنگ کرتے ہوئے سیم کانسٹاس، بمرا سے بلاضرورت الجھے، جس کے بعد جو میدان پر صورت حال تھی وہ کسی فلم سے کم نہیں تھی۔
اگلی ہی گیند پر عثمان خواجہ آؤٹ ہوگئے اور پوری بھارتی ٹیم کانسٹاس کی طرف دوڑی۔ بس مارنا ہی باقی رہ گیا تھا کیونکہ انداز تو یہی تھا کہ نگاہوں اور سخت جارحانہ جملوں سےکچا چبا ڈالیں گے۔
اسی طرح اس ٹیسٹ کی دوسری اننگ میں بھارتی بلے باز جیسوال کے آؤٹ ہونے پر بھارتی کمنٹیٹرز بالخصوص سنیل گاواسکر نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ ٹی وی ایمپائر نے غلط آؤٹ دیا ہے، اس پر حیرت ہی ہوتی ہے۔
ٹیکنالوجی کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ بھارتی کھلاڑی اورتجزیہ کار اس یقینی آؤٹ پر تو چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا رہے ہیں۔ لیکن ٹی 20 ورلڈ کپ کے فائنل میں سوریا کمار یادیو کے مشکوک کیچ پکڑنے پر لب کشائی سے باز رہتے ہیں۔
اسی طرح برطانوی خاتون کمنٹیٹر ایسا گوہا نے جسپریت بمرا سے متعلق اپنے الفاظ پر معذرت کی۔ آسٹریلیا کے خلاف تیسرے ٹیسٹ میچ کی کمنٹری کرتے ہوئے انھوں نے بمرا کو موسٹ ‘ویلیوایبل پرائمیٹ’ یعنی انتہائی قیمتی بندر کہا تھا۔
اسی طرح ٹریوس ہیڈ اور محمد سراج کے تنازعے نے بھی کئی تلخیوں کو جنم دیا، ٹریوس ہیڈ نے بولڈ ہونے پر “ویل بولڈ” کہا، لیکن جذباتی سراج کچھ اور سمجھے اور بار بار ٹریوس ہیڈ کے مختلف اننگز میں آؤٹ ہونے پر نازیبا اشارے کرتے رہے۔
خیر یہ وتیرہ تو پوری بھارتی ٹیم کا رہا ہے، بہرحال ٹریوس ہیڈ نے اپنی تمام تر توجہ بیٹنگ پر رکھی، جبھی تو 9 اننگز میں سب سے زیادہ 448 رنز جوڑے۔ اب کہنے والے کہتے ہیں کہ ٹریوس ہیڈ کو جب سے بابر اعظم نے بلا تحفے میں دیا ہے، وہ رنزکے انبار زیادہ ہی لگاتے جارہے ہیں، اور ان کی بیٹنگ کے قہر سے خاص طور پر بھارتی نہیں بچ پاتے۔
پے در پے ناکامی کی بنا پر ہیڈ کوچ گھمبیر کھلاڑیوں پر برسے تو ڈریسنگ روم کی یہ ڈانٹ ڈپٹ باہرآئی، ان کے لیک کرنے کا الزام بھی چند کھلاڑیوں پر لگتا رہا۔
گوتم گھمبیر کا مستقبل ؟
ہیڈ کوچ گوتم گھمبیر کے متعلق یہی کہا جاتا ہے کہ بھارتی حکمران بی جے پی سے قربت کی بنا پرانہیں یہ عہدہ ملا ہے، لیکن ان کی نگرانی میں بھارتی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔
سری لنکا سے دو صفر سے ون ڈے سیریز ہارے پھر اپنے ہی میدان میں نیوزی لینڈ سے ٹیسٹ میچز میں وائٹ واش ہوا اور اب آسٹریلیا سے عبرت ناک شکست اور ورلڈ ٹیسٹ چمپن شپ سے باہر ہونا۔ یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ گوتم کی کوچنگ میں ہی بھارتی ٹیم ہوم گراونڈ پر ٹیسٹ میچ میں صرف 46 رنز پر ڈھیر ہوئی تھی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق گوتم طاقت ور سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے کوچ ہیں۔ کپتان بدلا جاسکتا ہے، لیکن کوچ نہیں۔
خود ساختہ تجزیہ کار اور بھارتی ٹیم
یہ بھی المیے سے کم نہیں کہ بھارتی کرکٹ ٹیم کو ذرا سی کامیابی پر ساتویں آسمان پر پہنچانے والے پرستار نہیں، بلکہ بھارتی میڈیا ہے۔ جن کے ذہنوں میں یہ بیٹھا ہوا ہے کہ اگر میدان سے کوئی ٹیم جیت کر آئے گی تو وہ صرف بھارت ہی ہوگی۔
اپنی اس گمنڈ اور خبط کو وہ بھارتی پرستاروں میں منتقل کرتے رہتے ہیں۔ کوئی کھلاڑی ننھی منی سی پرفارمنس دکھا دے تو اس سے بہتر تو دنیا میں کوئی کھلاڑی ہے ہی نہیں۔ اب ان سب لفاظی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کھلاڑی اگر نہ چلے تو یہی تجزیہ کار اور پرستار ان کے بخیے ادھیڑ دیتے ہیں۔
ستم تو یہ ہے کہ پڑوسیوں کے “خراب سن ڈے” کا طعنہ دینے والے عرفان پٹھان اب کوہلی کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ کرکٹ چھوڑ دیں، بلکہ وہ تو اب مطالبہ کر رہے ہیں کہ بھارتی ٹیم سے سپر اسٹار کلچر ختم ہونا چاہیے۔
اب عرفان پٹھان کو کون بتائے کہ یہ سپراسٹار کلچر ہی تو ہے جس نے اوسط درجے کے بالر عرفان پٹھان کو اس قدر فائدہ دیا ہے کہ وہ ناصرف کمنٹری کرتے ہیں، بلکہ دیس بدیس گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔
عرفان پٹھان یا وکرانت گپتا جیسے تجزیہ کاروں کے لیے یہ سبق ہے کہ وہ کھلاڑیوں کو غیر ضروری طور پر بلند و بالا میناروں پر نہ بٹھائیں۔ کھلاڑیوں کو کھلاڑی ہی رہنے دیں، دیوتا بنا کر پیش نہ کریں۔ اس تلخ حقیقت کو تسلیم کریں کہ ٹیسٹ چمپن شپ کا فائنل بھارت نہیں، بلکہ جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کھیلیں گے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔