ازبکستان میں تنخواہیں کم یا سرے سے نہ ملنے کے حوالے سے پاکستانیوں کی شکایات پر حکومت پاکستان کی جانب سے وہاں روزگار کی غرض سے جانے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن نے مذکورہ پابندی اور پاکستانیوں کے ازبکستان سمیت دیگر سابق سویت ریاستوں میں روزگار کے مواقع کے حوالے سے روشنی ڈالی ہے۔
سویت ریاستوں کے ساتھ معاہدے وقت کی ضرورت
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن کے نائب صدر محمد عدنان پراچہ نے بتایا کہ ہر ملک کی طرح ازبکستان سمیت دیگر رشین اسٹیٹس میں بھی افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وہ یورپی ملک جہاں ملازمتیں بھی بیشمار اور ویزا لینا بھی آسان
ان کا کہنا تھا کہ جب تک ہمارا کسی بھی ملک کے ساتھ معاہدہ نہیں ہوگا تب تک وہاں کام کرنے والے پاکستانیوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا رہے گا۔
ازبکستان میں رہنے والے پاکستانیوں کے مسائل حکومت کیوں حل نہیں کرسکتی؟
محمد عدنان پراچہ کا کہنا ہے جہاں تک ازبکستان کی بات ہے تو وہاں سے شکایتیں موصول ہو رہی تھیں کہ وہاں پاکستانیوں کو تنخواہیں نہیں دی جا رہی یا کم دی جا رہی ہیں لیکن جب تک پاکستان کا ازبکستان کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوتا یہ مسئلہ کیسے حل کیا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی ڈائریکٹ ویزے کے تحت ازبکستان جاتے ہیں کسی اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹر کے توسط سے نہیں جاتے اب جب تک حکومتی سطح پر اگریمنٹ نہیں ہوں گے تب تک اوورسیز پروموٹرز وہاں جا کر اپنے لوگوں کے لیے نوکریاں نہیں تلاش کرسکتے۔
مزید پڑھیے: جرمنی 2 لاکھ نوکریاں دینے کو تیار، فیلڈز کونسی اور تنخواہ کتنی ہوگی؟
عدنان پراچہ نے کہا کہ حکومت اس مسئلے کو حل کرے کیوں کہ یورپ میں سالانہ 13 لاکھ افرادی قوت کی ضرورت ہے اور اسی طرح رشین اسٹیٹس میں بھی 80 ہزار سالانہ افراد کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان اسکل ڈیولپمنٹ پر تو فوکس کر رہے ہیں جو اچھی بات ہے لیکن جن کے پاس اسکلز ہیں ان کے لیے کوئی پلیٹ فارم فراہم نہیں کیا جا رہا۔
’حکومت اگر معاہدے کرلے تو غیرقانونی راستے بند ہو جائیں گے‘
عدنان پراچہ کے مطابق ازبکستان اور دیگر رشین اسٹیٹس کے ساتھ اگر حکومت معاہدے کرلے تو اوور سیز پروموٹرز کے لیے ان ممالک کی طرف جانے کا راستہ کھل جائے گا۔
مزید پڑھیں: کیا بیرونِ ملک مقیم پاکستانی، قومی تشخص خراب کر رہے ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ اگر قانونی راستے کھل جائیں گے تو اس سے غیر قانونی راستے بند ہو جائیں گے جیسے کہ لوگ غیر قانونی طور پر بیرون ملک سفر کرتے ہیں۔
’پاکستان کی افرادی قوت ملکی معیشت کو سہارا دے سکتی ہے‘
عدنان پراچہ کے مطابق پاکستان اس وقت ترسیلات زر کے حوالے سے دنیا میں پہلے 10 ممالک میں شامل ہے اور حکومت نے سنہ 2025 میں 35 ارب ڈالر کا ہدف مقرر کیا ہے جبکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم بآسانی اسے 50 ارب ڈالر تک لے جا سکتے ہیں اور یہ پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کے کام آسکتا ہے۔