محمد سہیل کی بیوی ہے یا بیوہ؟

ہفتہ 22 اپریل 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اتنا تو بتا دیں کہ وہ زندہ ہے یا مر گیا، تاکہ سولی پر لٹکی انتظار کی اس لاش کو دفنایا جاسکے جس نے 2 خاندانوں کو ایک دائرے میں بند کر رکھا ہے۔

چارسدہ کے ایک گاؤں ترنگزئی کی چھوٹی سی گلی میں ایک ایسا گھر بھی ہے جہاں 6 سال 3 ماہ سے ایک ماں اپنے گمشدہ بیٹے سے ملنے کی آس میں زندگی کے دن پورے کررہی ہے۔

23 جنوری 2017 سے لاپتا ہونے والے محمد سہیل کی ماں حلیمہ بی بی کا ساتواں رمضان بھی اسی امید میں گزر گیا کہ شاید یہ عید اس کے لیے بیٹے کی ملن کی خوشخبری لے کر آئے، لیکن ایسا نہیں ہوسکا اور آج بھی حلیمہ بی بی کا گھر عید کی مسرتوں سے کوسوں دُور ہے۔

حلیمہ بی بی نے 8 بچوں کو جنم دیا جن میں 5 بیٹے اور 3 بیٹیاں ہیں لیکن ان 8 بچوں میں 2 بیٹیاں اور 2 بیٹے گونگے ہیں۔ تینوں صحت مند بیٹوں میں سے ایک لاپتا اور دوسرا سعودی عرب میں مزدوری کرتا ہے، جبکہ سب سے چھوٹا بیٹا چارسدہ میں دہاڑی دار مزدور ہے۔

کچے پکے گھر کے صحن کے ایک اطراف بنے 4 کمرے اور ان کے آگے برآمدے میں بچھی چارپائیوں پر گھر کے مکین موجود تھے لیکن اداسی کی لہر نے سب کے چہرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان میں 4 افراد اپنی اداسی کا سبب بیان کرنے سے معذور تھے لیکن جو بول سکتے تھے ان کی زبانیں جیسے گنگ ہوگئی تھیں۔

گھر کا کوئی فرد مرجائے تو وقت اس کی جدائی کے زخم کو آہستہ آہستہ مندمل کردیتا ہے لیکن جہاں کوئی لاپتا ہوجائے وہاں خوف کی چادر میں لپٹی ایک آس دن کا چین اور رات کا سکون چھین لیتی ہے۔ ایسے میں عید کا دن صرف ایک معمول کا روز بن کر رہ جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ  ترنگزئی کے اس گھر میں نظر آرہا تھا۔

اس گھر سے کچھ فاصلے پر رحیم خان کا گھر تھا جہاں ایک 23 سالہ نئی نویلی دلہن اپنی کلائیوں میں کھنکتی چوڑیوں اور مہندی بھرے ہاتھوں کو حسرت سے دیکھ رہی تھی۔ اس دلہن کا نام رباب ہے جو ’محمد سہیل‘ کی بیوی ہے یا بیوہ؟ اس سوال کو تلاشتے 6 برس سے زائد کا عرصہ بیت گیا ہے لیکن رباب کو نہ سہیل ملا نہ ہی اس سوال کا جواب۔

چارسدہ کے تھانے سے پشاور ہائیکورٹ اور پھر اسلام آباد کے انصاف دلانے والے کئی اداروں کے بڑے بڑے دروازوں پر کتنی ہی دستکیں دیں لیکن دوسری طرف سوائے خاموشی کے اور کچھ نہ ملا۔ آج پھر ایک عید ہے لیکن نہ تو رباب کے ہاتھوں میں مہندی ہے نہ کلائیوں میں چوڑیاں، ایک دن کی دلہن آج تک اسی سوال کا جواب کھوجتی پھر رہی ہے کہ اسے بتایا جائے کہ اس کی حیثیت کیا ہے۔

محمد سہیل کون تھا؟

سہیل چارسدہ کے علاقے ترنگزئی کے ایک مدرسے کا طالب علم تھا۔ میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد سہیل نے ایک مقامی مدرسے میں داخلہ لیا اور ساتھ ہی پرائیویٹ تعلیم بھی حاصل کرتا رہا۔ مدرسے میں 5 درجے تک کی تعلیم کے حصول کے بعد وہ مزدوری کرنے سعودی عرب چلا گیا۔ ڈھائی سال بعد گھر والوں نے سہیل کی شادی اس کی چچا زاد سے طے کردی اور وہ شادی کی غرض سے واپس وطن آیا لیکن اس کے ولیمے کے دن 23 جنوری 2017 کو سہ پہر 4 بجے اچانک حساس اداروں کے افراد نے گھر پر دھاوا بولا اور سہیل کو اپنے ساتھ لے گئے۔

سہیل کی ماں حلیمہ بی بی کے مطابق سہیل نے کبھی ان سے یا دیگر گھر والوں سے کوئی ایسی بات نہیں کی تھی جس سے لگے کہ وہ جہادی سرگرمیوں کا حصہ رہا ہے لیکن ایک بار اوپر کے علاقوں سے 2 لاشیں آئیں جن کے جنازے میں شرکت کے لیے سہیل بھی گیا۔ واپسی پر اس نے کہا کہ اللہ کی راہ میں شہادت کا بڑا اجر ہے لیکن میں نے اسے سمجھایا کہ اب جہاد کا زمانہ نہیں اس لیے اس طرح کی باتیں مت کرو جس کے بعد اس نے پھر کبھی اس طرح کی بات نہیں کی۔

سہیل کے کیس کی کیا پوزیشن ہے؟

سہیل کا بڑا بھائی شہزاد سعودی عرب میں مزدوری کرتا ہے۔ اس نے ٹیلیفون پر ہوئی گفتگو میں بتایا کہ پشاور ہائیکورٹ میں ہمارے کیس بند کیے جانے پر انہوں نے اسلام آباد میں مسنگ پرسنز پر کام کرنے والے ایک ادارے کو سہیل کا کیس دیا ہے اور ادارے نے یقین دلایا ہے کہ 2 ماہ میں اس کا کیس لگ جائے گا۔ جبکہ دوسری طرف محمد سہیل کے وکیل سیف اللہ داؤد زئی کے مطابق کیس کے بند کرنے کی وجہ یہ تھی کہ پشاور ہائیکورٹ میں حساس اداروں کے افراد اور متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او نے پیش ہوکر بیان دیا تھا کہ ان کے پاس سہیل نام کا کوئی لڑکا نہیں ہے جبکہ وزارتِ داخلہ کی طرف سے بھی سہیل کی موجودگی سے انکار آیا تھا۔

بھائی کی تلاش کریں یا جرگے بھگتیں؟

سہیل کا خاندان دوہری مشکلات کا شکار ہوگیا۔ بھائی کی گمشدگی کے بعد شہزاد سعودی عرب آگیا تاکہ مزدوری کرکے اپنے گھر والوں کی کفالت کرسکے کیونکہ گاؤں میں موجود چھوٹا بھائی دیہاڑی پر مزدوری ک کے چند روپے ہی کما سکتا ہے جس سے بیمار والد کا علاج اور باقی بہن بھائیوں کا خرچہ پورا کرنا ممکن نہیں تھا۔ شہزاد نے بتایا کہ نکاح نامے کے مطابق سہیل نے ہر ماہ اپنی بیوی کو 10 ہزار روپے خرچہ دینا تھا جو کہ اب اسے ادا کرنا پڑ رہا ہے۔

دوسری طرف 2021 میں سہیل کے زندہ یا مردہ ہونے سے متعلق جواب کھوجتے کھوجتے تنگ آجانے والے رباب کے والد نے علاقے کے مفتیوں اور عمائدین کا ایک جرگہ بلایا، جس میں مفتیوں نے تو یہی فیصلہ دیا کہ نکاح برقرار ہے لیکن اگر لڑکی خلع لینا چاہے تو عدالت جاسکتی ہے، جس پر علاقہ عمائدین نے 2 سال کا وقت دیا جس میں 9 ماہ باقی رہ گئے ہیں۔

ملنے والی لاش کی کیا حقیقت تھی؟

شہزاد نے بتایا کہ رواں سال فروری میں بنوں کے علاقے سے ایک نوجوان کی لاش ملی جس کی تصویر اس نے سوشل میڈیا پر دیکھی۔ میرے گھر والے جب وہاں گئے تو انہیں وہ سہیل کا ہم شکل لگا اور وہ اس کی لاش گھر لے آئے۔ اگرچہ وہ لمحہ قیامت سے کم نہیں تھا لیکن اس سوال کا جواب ضرور تھا جو 6 سال 3 ماہ سے ہم ہر ایک سے پوچھتے پھر رہے تھے۔

شہزاد کے مطابق گھر والوں نے اس کے جنازے کی تیاری کرلی اور قبر بھی کھو دی جاچکی تھی لیکن اچانک پنجاب سے ایک ٹیلیفون کال آئی کہ وہ لاش ان کے بھائی کی ہے۔ پھر وہ لوگ آئے اور اپنے ساتھ جو تصویر لائے اس میں مشابہت سہیل سے زیادہ قریب تھی۔ علاقہ عمائدین اور پولیس نے بھی ہمارے گھر والوں کو بتایا کہ یہ لاش سہیل کی نہیں ہے اور یوں وہ اپنی لاش لے گئے اور ہم پھر اسی نہج پر آگئے جہاں پہلے تھے لیکن دل میں اب بھی ایک خلش ہے کہ کاش اس وقت ڈی این اے ہوجاتا تو تسلی ہوجاتی۔

ڈی این اے کیوں نہیں کیا گیا؟

ڈی این اے سے متعلق سوال پر شہزاد کا کہنا تھا کہ لاش لیتے وقت ہم نے ڈاکٹر سے کہا بھی کہ ڈی این اے کرلیں تاکہ پوری تسلی ہوجائے لیکن ڈاکٹر نے بتایا کہ اوپر سے اس کی اجازت نہیں ہے۔ جب اس کی وضاحت قانون دان سے طلب کی گئی تو ایڈووکیٹ سیف اللہ داؤد زئی نے کہا کہ ایسے کیسز میں ڈی این اے کے لیے باقاعدہ فورم یعنی متعلقہ عدالت کو درخواست دینی پڑتی ہے، لیکن سہیل کی فیملی صرف ڈاکٹر اور پولیس کو زبانی طور پرہی کہتی رہی، نہ تو ان کی کسی نے رہنمائی کی اور نہ ہی انہیں اس بارے میں کچھ معلوم تھا یوں ڈی این اے نہیں ہوسکا۔

کوئی اتنا تو بتا دے کہ وہ زندہ ہے یا مردہ؟

رباب سے بات کرنا اتنا آسان نہیں تھا کیونکہ وہ زیادہ بات کرنا پسند نہیں کرتی تھی، لیکن پھر بھی یہ سوال اہم تھا کہ وہ کیا چاہتی ہے تو اس نے بہت آہستہ سے کہا کہ صرف اس سوال کا جواب چاہتی ہوں کہ وہ زندہ ہے یا نہیں؟

حلیمہ بی بی، رباب اور شہزاد ہر ایک کا صرف یہی کہنا تھا کہ ان گزرے 6 سال میں زندگی ختم ہوکر رہ گئی ہے اگر سہیل کسی جرم میں ملوث تھا تو اس کو سزا دیں لیکن اتنا تو بتا دیں کہ وہ زندہ ہے یا مر گیا، تاکہ سولی پر لٹکی انتظار کی اس لاش کو دفنایا جاسکے جس نے 2 خاندانوں کو ایک دائرے میں بند کر رکھا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp