اے پی ایس سانحہ: شہید بچوں کے والدین کی عید کیسی ہوتی ہے؟

اتوار 23 اپریل 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سیکنڈ منٹوں، منٹ گھنٹوں، گھنٹے دنوں، دن مہینوں اور مہینے برسوں میں بدل گئے لیکن جو نہیں بدلا، وہ ہے پشاور کے آرمی پبلک اسکول کے بچوں کی جدائی کا غم۔ جس سے والدین کی ہر میٹھی عید بھی پھیکی ہوجاتی ہے اور وہ ابھی تک اس غم سے نکل نہیں پارہے ہیں۔

16 دسمبر 2014 کو پشاور کینٹ میں واقع آرمی پبلک اسکول میں دہشتگردوں نے حملہ کیا تھا جس میں 144 بچوں سمیت 150 افراد شہید ہوگئے تھے۔ سیکیورٹی فورسز نے آپریشن کے دوران 6 دہشتگردوں کو ہلاک کیا تھا اور کالعدم تحریک طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

اے پی ایس کے شہید بچوں کے والدین کہتے ہیں کہ آرمی پبلک اسکول حملے کے بعد ان کی زندگیاں بدل گئیں، ان کے لیے تہواروں اور دیگر خوشیوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہی۔ ہرموقع، بالخصوص خوشی کے موقع پر ہمیں بچوں کی یاد ستانے لگتی ہے۔

شاہانہ اجون پشاور کے علاقے تہکال کی رہائشی ہیں۔ انہوں نے اپنے بڑے بیٹے اسفند کو اے پی ایس حملے میں کھو دیا تھا۔ انہوں نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’خوشی کیا ہوتی ہے، یہ دسمبر 2016 کے بعد میں بھول گئی ہوں۔ ایک میں ہی نہیں تمام والدین بھول گئے ہیں‘۔ شاہانہ شہید بیٹے کو یاد کرکے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور غم سے نڈھال ہوگئیں۔

شاہانہ اجون، اے پی ایس کے شہید طالب علم اسفند کی والدہ: تصویر، وی نیوز

شاہانہ قدرے توقف کے بعد، سسکیاں لیتے ہوئے بولیں: ’اب تو ہم روتے بھی نہیں ہیں، شروع کے برسوں میں ہمارے آنسو رکتے نہیں تھے، اب آنسو تو رک گئے لیکن غم کم نہیں ہو رہا۔ اسفند ہمارا بڑا بیٹا تھا، میرے اور بھی بچے ہیں لیکن اس کی بات الگ تھی، وہ ہماری خوشی تھا، اس کے بغیر ہم ادھورے ہوگئے ہیں‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’آج عید ہے لیکن ہمارے  گھر میں خاموشی ہے۔ اسفند جب ہوتا تھا تو ہر وقت ہلا گلا ہوتا تھا، دوستوں کو لے کر آتا تھا لیکن آج کچھ بھی نہیں ہے۔ ہماری خوشیاں اس کے ساتھ ہی چلی گئی ہیں‘۔

شاہانہ نے بتایا کہ ’ان کی عید صبح قبرستان سے شروع ہوتی ہے، ہم اسفند کی قبر پر جاتے ہیں اور کافی وقت وہاں گزر کر واپس آتے ہیں۔ پھر اسفند کے دوست آتے ہیں ملنے، انہیں دیکھ کر غم پھر تازہ ہوجاتا ہے۔ دل میں خیال آتا ہے کہ اسفند زندہ ہوتا، وہ بھی اتنا بڑا ہوتا۔ ہماری زندگی کی سوئی 16 دسمبر 2014 پر رکی ہوئی ہے، ہم اس دن سے ابھی تک نکل ہی نہیں سکے‘۔

صرف شاہانہ ہی نہیں، دیگر 144 شہید بچوں کے والدین بھی ایسی ہی کیفیات سے دوچار ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ انہیں انصاف ملے۔

شاہانہ کہتی ہیں کہ ’ہم نے بچوں کو کھو دیا لیکن ذمہ داروں کا تعین ہونا چاہیے اور انصاف ملنا چاہیے۔ ہم نے ہر فورم پر آواز اٹھائی، احتجاج کیا، مظاہرے کیے اور کرتے رہیں گے جب تک انصاف نہیں ملتا‘۔

شہید طالبِ علم کی والدہ دہشتگردوں کے حملے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے جذباتی ہوگئیں اور کہنے لگیں کہ ’اس وقت کے چیف جسٹس جسٹس ثاقب نثار کیس کی سماعت کے لیے پشاور آئے تھے اور انہوں نے شہید بچوں کے والدین کی درخواست پر ازخود نوٹس لیا اور سپریم کورٹ کے حکم پر جوڈیشل انکوائری بھی ہوئی۔ جوڈیشل انکوائری کے بعد اب ذمہ داروں کو سزا دینا باقی ہے۔ سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کو ہدایت کی اور اب کیسز ہائیکورٹ میں ہیں۔ وہ پُرامید ہیں کہ ایک دن ذمہ داروں کو سزا ضرور ہوگی اور انہیں انصاف ملے گا، جس دن ایسا ہوگیا شاید ہم کچھ پُرسکون ہوجائیں‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp