سپریم کورٹ: آئینی بینچ نے وزارت دفاع سے سویلینز کے اب تک ہونے والے ملٹری ٹرائلز کی تفصیلات طلب کرلیں

جمعرات 16 جنوری 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے وزارت دفاع سے سویلینز کے اب تک کیے گئے ملٹری ٹرائلز کی تفصیلات طلب کرلی ہیں۔

جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔ جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسثس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی بینچ کا حصہ تھے۔

یہ بھی پڑھیں: اے پی ایس حملے میں گٹھ جوڑ موجود تھا تو فوجی عدالت میں ٹرائل کیوں نہیں ہوا؟ جسٹس جمال مندوخیل

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سیکشن 2 (1) ڈی ون اگر درست قرار پاتا ہے تو نتیجہ کیا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ قانون کے سیکشنز درست پائے جائیں تو ٹرائل کے خلاف درخواستیں نا قابل سماعت ہوتی ہیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری ٹرائل میں پورا پروسیجر فالو کیا جاتا ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ عدالت نے آپ سے ملٹری ٹرائل والے کیسز کا ریکارڈ مانگا تھا، عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ ٹرائل میں شہادتوں پر کیسے فیصلہ ہوا، عدالت کو یہ ریکارڈ دینے سے انکار کردیا گیا، حکومتی وکیل کو یہ جواب نہیں دینا چاہیے تھا۔

’عدالت کو ایک ملٹری ٹرائل کا ریکارڈ جائزے کے لیے دکھا دینگے‘

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ عدالت کو ایک کیس کا ریکارڈ جائزہ کے لیے دکھا دیں گے۔ جسٹس محمد علی مظہر بولے کہ عدالت نے پروسیجر دیکھنا ہے کہ کیا فیئر ٹرائل کے ملٹری کورٹ میں تقاضے پورے ہوئے، ہائیکورٹس اور نہ ہی سپریم کورٹ میرٹس کا جائزہ لے سکتی ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ عدالت نے ٹرائل میں پیش شواہد کو ڈسکس نہیں کرنا، عدالت محض شواہد کا جائزہ لینا چاہتی ہے، نیچرل جسٹس کے تحت کسی کو سنے بغیر سزا نہیں ہوسکتی۔

خواجہ حارث نے کہا کہ اگر قانون کے سیکشنز درست قرار پائے تو درخواستیں نا قابل سماعت ہوگی، عدالت بنیادی حقوق کے نقطہ پر سزا کا جائزہ نہیں لے سکتی۔ خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ آرٹیکل 8(3) اور 8(5) کی موجودگی میں ٹرائل کے خلاف درخواستیں نا قابل سماعت تھیں، 5 رکنی بینچ نے قابل سماعت ہونے کے نقطہ کا جائزہ درست نہیں لیا، عدالت ٹرائل کے ریکارڈ کا میرٹ پر جائزہ بھی نہیں لے سکتی۔

یہ بھی پڑھیں: غیرمسلح لوگوں کا کور کمانڈر ہاؤس میں داخل ہونا سیکیورٹی کی ناکامی ہے، جسٹس حسن اظہر رضوی

انہوں نے دلائل جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ ایف بی علی کیس میں جرم ہوا تو ملزمان سروس سے ریٹائرڈ ہوچکے تھے، 1962 اور 1973 کے آئین میں درج بنیادی حقوق میں کیا فرق ہے، زندگی کا حق اور فیئر ٹرائل شروع سے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ فیئر ٹرائل کا آرٹیکل 10 اے نہ بھی ہو تب بھی پروسیجر تو فالو کرنا ہوگا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا آرٹیکل 8(3) میں بنیادی حقوق واپس لے لیے گئے ہیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ یہ آرٹیکل 1973 سے آئین میں شامل ہے، ایف بی علی کیس میں ملزمان کے فیئر ٹرائل کا جائزہ بھی لیا گیا تھا، جہاں آرٹیکل 8 ذیلی سیکشن 3 کا اطلاق ہوگیا بنیادی حقوق ختم ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالتوں کا کیس: صرف دیکھنا ہے کہ کون سے مقدمات کہاں سنے جاسکتے ہیں، آئینی بینچ

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ ہے کہ کیا سویلین کے ملٹری ٹرائل والے قانون میں ترمیم ہوسکتی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر بولے کہ فیئر ٹرائل کا آرٹیکل 2010 میں آیا، فوجداری ضابطہ 1898 کا ہے جس میں ٹرائل کا پورا طریقہ کار دیا گیا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ فئیر ٹرائل کے آرٹیکل 10 اے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ آرٹیکل 10 اے سے پہلے بھی فیئر ٹرائل کے مختلف آرٹیکلز موجود تھے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ آرمی ایکٹ کا بنانے کا مقصد کیا ہے، اس ایکٹ کا مقصد آرمڈ فورسز میں ڈسپلن قائم کرنا ہے یا کریمینل سرگرمیوں کا چیک کرنا۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ آرمی ایکٹ کا مقصد ہے کہ آرمڈ فورسز کی سرگرمیوں میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کریمینل سرگرمیوں کی الگ سے قانون سازی ہوتی تو یہ مسائل نہ ہوتے۔ خواجہ حارث بولے کہ قانون میں بہتری کا عمل ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے۔

’لگتا ہے قانون میں شامل ’کسی بھی شخص‘ کے الفاظ کا درست تعین نہیں ہوا‘

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ آرمی ایکٹ آرمڈز فورسز کے افسران اور جوانوں کو ڈیل کرتا ہے، 1967 میں ترمیم کرکے 2 ون ڈی ون سیکشن شامل ہوا، اس ترمیم سے قانون میں ’کوئی بھی شخص‘ کے الفاظ شامل کردیے گئے، ان الفاظ کی قانون میں شمولیت سے ریٹائرڈ افسران بھی ملٹری ٹرائل کے دائرے میں آگئے، اگر یہ 2 ون ڈی ون کالعدم برقرار رہتا ہے تو پھر کسی ریٹائرڈ افسر کا ملٹری ٹرائل نہیں ہوسکے گا، سیکشن کالعدم ہونے سے ایف بی علی بھی بری ہو جائے گا اور سیکشن کالعدم برقرار رہنے سے کسی ریٹائرڈ اہلکار کا ملٹری ٹرائل ہورہا ہو تو وہ بھی ختم ہو جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالتوں کا کیس: آئین واضح ہے ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کرسکتا، جسٹس جمال مندوخیل

جسٹس نعیم اختر افغان کا کہنا تھا کہ آئین میں 10 اے آنے کے بعد بھی آج فیئر ٹرائل پر عدالتوں میں بات ہوتی ہے، قانون میں ترمیم سے پہلے ریٹائرڈ افسران ملٹری ٹرائل میں آئے، اب سویلین کو ملٹری ٹرائل میں شامل کر لیا گیا، لگتا ہے قانون میں شامل ’کسی بھی شخص‘ کے الفاظ کا درست تعین نہیں ہوا، قانون میں شاید یہ سقم رہ گیا ہے اور سویلین کے ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم کرنا پڑی۔

خواجہ حارث نے کہا کہ آئینی ترمیم کسی اور وجہ سے کی گئی، جس پر عدالت نے وزارت دفاع سے سویلینز کے اب تک ہونے والے ملٹری ٹرائل کی تفصیلات مانگ لیں۔ جسٹس امین الدین نے وزارت دفاع کے وکیل سے کہا کہ کلبھوشن یادیو کے علاوہ اب تک کتنے سویلینز کا ٹرائل ہوا، اس کا ڈیٹا کے ساتھ جواب دیدیں، سویلینز کے ملٹری کورٹ ٹرائل کی کلاسیفیکیشن کو کئی عدالتی فیصلوں میں تسلیم کیا گیا ہے۔

بعدازاں، آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔

’آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں ترمیم کا اطلاق 9 مئی کے واقعات پر نہیں ہوسکتا‘

سماعت کے اختتام پر جسٹس امین الدین نے خواجہ حارث سے پوچھا کہ کیا آپ کل دلائل مکمل کرلیں گے، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ کوشش کروں گا کل مکمل کرلوں۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں ترمیم اگست 2023 میں ہوئی تھی، آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں ترمیم کا اطلاق 9 مئی کے واقعات پر نہیں ہوسکتا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ اس بات سے متفق ہوں کہ اطلاق ماضی سے نہیں ہوسکتا۔

یہ بھی پڑھیں: آئینی بینچ نے 9 مئی کے مخصوص ملزمان کے ملٹری ٹرائل پر سوالات اٹھا دیے

جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ جسٹس عائشہ ملک کے نوٹ میں لکھا ہے کہ کسی مجسٹریٹ نے فوج کو ملزمان کی حوالگی کی وجوہات پر مبنی حکم نامہ نہیں لکھا، اگر کوئی حکم نامہ ہے تو ریکارڈ پر لے آئیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ حکم نامے سپریم کورٹ فیصلے کا حصہ ہیں، کل ان پر روشنی ڈالوں گا۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ ایف آئی آرز میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات نہیں تھیں، 28 ملزمان کو سزائیں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات 3 اور 7 کے تحت ہوئیں، ترمیم سے پہلے والا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کیا تھا اس کا جائزہ لیں گے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ ایف آئی آرز میں دفعات تو بعد میں بھی شامل کی جاسکتی ہیں، جس پر جسٹس نعیم اختر افغان بولے کہ ملزمان کو تفتیش کی سطح پر ہی فوج کے حوالے کردیا گیا تھا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ فوج میں ایف آئی آر میں دفعات شامل کرنے کا طریقہ کار بھی بتائیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp