حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مابین مذاکرات کا تیسرا دور پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں ہوا۔ جس میں پی ٹی آئی نے اپنے مطالبات تحریری طور پر مذاکراتی کمیٹی کے سامنے پیش کردیے ہیں۔ اجلاس کے اختتام پر اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ آج بھی حکومت اور اپوزیشن میں خوشگوار میٹنگ ہوئی، مشترکہ اعلامیہ عرفان صدیقی پڑھ کر سنائیں گے۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے بتایا کہ اپوزیشن لیڈر نے اپنی ڈیمانڈز پڑھ کر سنائیں، مطالبات پر تفصیل سے بات چیت ہوئی۔ دونوں اطراف نے راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی۔ پی ٹی آئی نے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کا مطالبہ کیا ہے، حکومتی کمیٹی نے عمران خان سے ملاقات کروانے کی کوشش کی یقین دہانی کرائی ہے۔ حکومتی کمیٹی اپوزیشن کے مذاکرات پر تحریری مؤقف 7 روز میں پیش کرے گی۔ مذاکرات ٹھیک سمت میں بڑھ رہے ہیں۔
تحریک انصاف کے تحریری مطالبات 3 صفحات پر مشتمل اور اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کے لیٹر ہیڈ پر درج کیے گئے ہیں۔ جن میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف وفاقی حکومت سے 2 کمیشن آف انکوائریز تشکیل دینے کا مطالبہ کرتی ہے۔ پہلا کمیشن 9 مئی واقعات اور بانی پی ٹی آئی کی گرفتاری کی قانونی حیثیت کی تحقیقات کرے، دوسرا کمیشن 24 سے 27 نومبر تک کے واقعات کی تحقیقات کرے۔
خبریں چل رہی تھیں کہ شاید میں اپنا کردار درست طریقے سے ادا نہیں کر رہا۔ میری رائے ہے کہ سینیٹر عرفان صدیقی اور حامد رضا ایک ساتھ میڈیا برفنگ دیں، اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کا مذاکراتی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب@PTIofficial @pmln_org @MediaCellPPP pic.twitter.com/bpNsjgzVx1
— WE News (@WENewsPk) January 16, 2025
اسلام آباد میں مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کی تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے، 24 سے 27 نومبر تک زخمی و جاں بحق ہونے والوں کی تعداد بھی بتائی جائے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں 9 مئی اور نومبر 2024 کے سیاسی قیدیوں کے قانونی عمل میں شفاف معاونت کرے۔
تنبیہ کی گئی ہے کہ جوڈیشل کمیشن تشکیل نہ دیے گئے تو مذاکرات جاری نہیں رہیں گے۔ مطالبات پر اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور، علامہ ناصر عباس، اسد قیصر، سلمان اکرم اور حامد رضا کے دستخط موجود ہیں۔
Opposition Negotiations Committee Demand by Fahim Patel on Scribd
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی صدارت میں مذاکرات کا تیسرا دور
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی صدارت میں مذاکرات کے تیسرے دور کا ان کیمرہ اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ مذاکرات میں حکومت کی جانب سے 10 رکنی جبکہ اپوزیشن جماعتوں کا 6 رکنی وفد شریک ہوا۔
حکومتی ارکان میں سینیٹر عرفان صدیقی،اسحاق ڈار، رانا ثنا اللہ خان، خالد حسین مگسی، محمد اعجاز الحق ، فاروق ستار، عبدالعلیم خان ، چوہدری سالک حسین، سید نوید قمر، اور راجا پرویز اشرف شامل ہیں۔
مذاکراتی کمیٹی کا عمل ایک دن میں بھی ہوسکتا ہے۔ مذاکرات مشروط ہو جائیں تو کامیاب نہیں ہوتے۔ اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈر جاری کرکے سینیٹ پیش نہ کرنا افسوسناک ہے، مذاکراتی کمیٹی کے رکن اعجاز الحق کی گفتگو pic.twitter.com/1h4pE0KEL1
— WE News (@WENewsPk) January 16, 2025
اپوزیشن کی جانب سے قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور، اسد قیصر، صاحب زادہ محمد حامد خان، سینیٹر ناصر عباس اور سلمان اکرم راجا شامل ہیں۔ پہلے 2 مذاکراتی ادوار اسپیکر قومی اسمبلی کی صدارت میں ہو چکے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے تحریری مطالبات کا مکمل متن
تحریری مطالبات میں اسپیکر قومی اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں نے مشکلات اور قربانیوں کا طویل سفر طے کیا ہے۔ ہمارے قائد عمران خان اور ہزاروں حمایتیوں کو بلاجواز قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ پاکستانی عوام کے ووٹ کو پامال کیا گیا، ان کی آوازوں اور جسموں کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ اسلام آباد کی گلیوں کو ہمارے شہیدوں کے خون نے مقدس بنایا ہے۔ ہم اب بھی پاکستان کے محروم عوام کی آواز کے طور پر کھڑے ہیں۔ یہ وہ آواز ہے جسے اقتدار کے فریب میں مبتلا افراد نے دبانے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے اسلام آباد میں قائم حکومت کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا ہے تاکہ عوام کے حقوق کی جنگ کو آگے بڑھایا جا سکے۔ تحریک انصاف کے چارٹر آف ڈیمانڈز کو آئین کی بحالی، قانون کی حکمرانی، عوامی مینڈیٹ کا احترام اور آزاد و شفاف انتخابات کے حوالے سے وسیع مذاکرات کے لیے پیشگی شرط کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
پی ٹی آئی آج یقیناً تحریری مطالبات دے دے گی، حکومت اتنی جلدی جواب نہیں دے سکتی. مذاکرات اسی لیے ہوتے ہیں کہ کوئی راستہ نکالا جائے، ہم 31 سے پہلے تحریری جواب دیں گے، سینیٹر عرفان صدیقی کی گفتگو @pmln_org @PTIofficial pic.twitter.com/W8zTRfSSvA
— WE News (@WENewsPk) January 16, 2025
الف) پاکستان تحریک انصاف وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ 2017 کے کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت 2 تحقیقاتی کمیشن قائم کیے جائیں۔ ان دونوں کمیشنز میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس یا 3 حاضر سروس جج شامل ہوں، جنہیں تحریک انصاف اور حکومت کے مابین متفقہ طور پر 7 دن کے اندر نامزد کیا جائے۔ ان کمیشنز کی کارروائی عوام اور میڈیا کے لیے کھلی ہونی چاہیے۔
پہلا کمیشن درج ذیل امور پر تفصیلی تحقیقات کرے:
1) 9 مئی 2023 کو پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے حالات کی قانونی حیثیت؛
2) گرفتاری کے طریقہ کار کی قانونی حیثیت اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے میں رینجرز اور پولیس کے داخلے کے ذمہ دار افراد؛
3) عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پیش آنے والے واقعات؛ خاص طور پر ان حالات کی تحقیقات جن میں افراد کے گروپز حساس مقامات تک پہنچے اور جہاں املاک کو نقصان پہنچنے کا دعویٰ کیا گیا؛ ان مقامات کی سی سی ٹی وی ریکارڈنگز کا جائزہ؛ اگر سی سی ٹی وی فوٹیج دستیاب نہیں تو اس کی عدم دستیابی کی وجوہات؛
پارٹی رہنماؤں نے آرمی چیف سے ملاقات کی تھی، ملاقات میں بیرسٹر گوہر بھی موجود تھے، وزیر اعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈا پور کی تصدیق@PTIofficial @AliAminKhanPTI pic.twitter.com/IkAZuBFewI
— WE News (@WENewsPk) January 16, 2025
4) 9 مئی کے واقعات کے سلسلے میں گرفتار کیے گئے افراد کو کس طریقے سے حراست میں لیا گیا اور انہیں کس حالت میں رکھا گیا؟ نیز ان کی رہائی کے حالات کیا تھے؟ کیا ان افراد کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی، بشمول تشدد؟ گرفتار ہونے والے افراد کی فہرستیں کیسے تیار کی گئیں؟
5) کیا 9 مئی 2023 کے حوالے سے کسی ایک فرد کے خلاف متعدد ایف آئی آرز درج کی گئیں اور قانون کے عمل کا غلط استعمال کرتے ہوئے مسلسل گرفتاریاں کی گئیں؟
6) میڈیا کی سنسرشپ اور اس واقعے سے متعلق رپورٹنگ پر پابندیوں کے واقعات کا جائزہ لیا جائے، بشمول صحافیوں کو ہراساں کرنے کے معاملات۔
7) حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ کی بندش کے نفاذ کی قانونی حیثیت اور اس کے اثرات کا جائزہ لیا جائے، اور اس سے پہلے، دوران اور بعد کے حالات میں ذمہ داری کا تعین کیا جائے۔
دوسرا کمیشن درج ذیل معاملات پر تفصیلی تحقیقات کرے:
1) 24 سے 27 نومبر 2024 کو اسلام آباد میں پیش آنے والے واقعات۔ خاص طور پر درج ذیل امور کی جانچ اور تحقیقات کی جائیں:
(الف) کیا اسلام آباد میں مظاہرین پر براہ راست گولیاں چلائی گئیں یا دیگر جسمانی تشدد کیا گیا؟ اگر ایسا ہوا تو مظاہرین پر گولیاں چلانے اور تشدد کا حکم کس نے دیا؟ کیا طاقت کا استعمال حد سے زیادہ تھا؟ اگر ہاں، تو اس کے ذمہ دار کون تھے؟
(ب) 24 سے 27 نومبر 2024 کے بعد شہدا اور زخمیوں کی تعداد اور لاپتہ ہونے والے افراد کی تفصیلات کیا ہیں؟
(ج) 24 سے 27 نومبر 2024 کے دوران اسلام آباد کے مختلف اسپتالوں اور طبی مراکز میں سی سی ٹی وی ریکارڈنگ کی حالت کیا تھی؟
ہم نے 2 کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہم این آر او نہیں مانگ رہے، حکومت چاہے تو کمیشن بنانے کا نوٹیفیکیشن کل ہی کر سکتی ہے، سلمان اکرم راجہ @salmanAraja @PTIofficial pic.twitter.com/kiPnY7BgmD
— WE News (@WENewsPk) January 16, 2025
(د) کیا اسپتالوں اور دیگر طبی مراکز کے ریکارڈ میں رد و بدل کیا گیا؟ اگر ہاں، تو یہ کس کے حکم پر اور کن ہدایات کے تحت کیا گیا؟ کیا اسپتالوں کو اموات اور زخمیوں کی معلومات جاری کرنے سے روکا گیا؟
(ہ) بلیو ایریا، اسلام آباد میں چائنا چوک سے ڈی چوک تک مختلف مقامات پر ریکارڈ کی گئی سی سی ٹی وی فوٹیج کی حالت کا جائزہ لیا جائے۔
(و) 24 سے 27 نومبر کے واقعات کے حوالے سے ایف آئی آر درج کرانے اور دیگر قانونی کارروائی کے لیے درخواست دینے والوں کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
(ز) میڈیا کی سنسرشپ اور اس واقعے سے متعلق رپورٹنگ پر پابندیوں کے واقعات کا جائزہ لیا جائے، بشمول صحافیوں کو ہراساں کرنے کے معاملات۔
(ح) حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ کی بندش کے نفاذ کی قانونی حیثیت اور اس کے اثرات کا جائزہ لیا جائے، اور اس سے پہلے، دوران اور بعد کے حالات میں ذمہ داری کا تعین کیا جائے۔
آج مطالبات تحریری طور پر دے دینگے، پھر دیکھتے ہیں حکومت کیا سنجیدگی دکھاتی ہے، ہم نے تو حکومت کو موقع دیا ہے، فارم 47 پر موقف وہی ہے جو پہلے تھا، اِس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، اسد قیصر @PTIofficial pic.twitter.com/ygMYvxEOxo
— WE News (@WENewsPk) January 16, 2025
ب) پاکستان تحریک انصاف وفاقی حکومت، پنجاب، سندھ، اور بلوچستان کی حکومتوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ قانون کے مطابق تمام سیاسی قیدیوں کی ضمانت یا ان کی سزا کے معطل کرنے کے احکامات کی حمایت کریں۔
پاکستان تحریک انصاف ان تمام سیاسی قیدیوں کی ضمانت یا ان کی سزا معطل کرنے کے احکامات کے لیے وفاقی حکومت، پنجاب، سندھ، اور بلوچستان کی حکومتوں سے مطالبہ کرتی ہے جنہیں 9 مئی 2023 کے کسی بھی واقعے، 24 سے 27 نومبر 2024 کے کسی واقعے، یا کسی اور سیاسی سرگرمی کے سلسلے میں درج کی گئی ایک یا ایک سے زائد ایف آئی آرز کے تحت گرفتار کیا گیا ہو، یا جنہیں سزا دی گئی ہو اور جن کی اپیلیں یا نظرثانی درخواستیں اس وقت کسی عدالت میں زیر سماعت ہوں۔
اس چارٹر میں تجویز کردہ دونوں کمیشنز کا قیام سنجیدگی کے عزم کی لازمی علامت ہے۔ اگر ہمارے مطالبے کے مطابق ان کمیشنز کو اصولی طور پر تسلیم نہ کیا گیا اور فوری طور پر قائم نہ کیا گیا تو ہم مذاکرات جاری رکھنے سے قاصر رہیں گے۔
پورے پاکستان کی نظریں مذاکرات پر ہیں، اسپیکر ایاز صادق
کمیٹی اجلاس میں گفتگو سے اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ مذاکراتی کمیٹیوں کے اجلاس میں تاخیر کچھ غلط فہمی کی وجہ سے ہوئی۔کچھ بیانات ایسے آئے جس سے یہ تاثر دیا گیا کہ شاید میں اپنا کردار صحیح انداز میں ادا نہیں کر رہا۔ میرا کام فیسلیٹیٹ کرنا ہے کسی کو اعتراض ہے کہ میں یہ چیئرمین شپ چھوڑنے کو تیار ہوں۔ مذاکرات پر پورے پاکستان کی نظر بھی ہے، خوش اسلوبی سے نیک نیتی سے اس کام کو سرانجام دینا ہے۔
ہمارے مطالبات واضح ہیں عدالتوں میں انٹیلیجنس ایجنسیوں کا کردار ختم ہونا چاہیے اور عمران سمیت دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کو رہا کیا جائے، ’اووو‘ کا احتجاج آغاز ہے بات اس سے آگے جائے گی، مذاکرات کے تیسرے دور سے قبل عمر ایوب کی میڈیا سے گفتگو@PTIofficial pic.twitter.com/JcMbQ8AV1D
— WE News (@WENewsPk) January 16, 2025
اگر پی ٹی آئی نے تحریری مطالبات دیے تو ضرور غور کریں گے، عرفان صدیقی
حکومتی کمیٹی کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ مذاکرات آئین قانون اور روایات کی بنیاد پر ہوں گے۔ نتائج پہلے سے ہرگز طے شدہ نہیں ہیں۔ حکومت کی کمیٹی میں 7 جماعتیں ہیں۔ تحریری مطالبات آنے پر تحریری جواب دیں گے، مطالبات آنے پر فوری جواب دینا ممکن نہیں۔
پی ٹی آئی کے 20 لوگوں کی ٹرمپ کی حلف برداری کا دعوت نامہ موصول، لیکن ہم نہیں جائیں گے، لوگ جائیں گے،سلمان اکرم راجہ کا انکشاف@PTIofficial pic.twitter.com/VyB6NbIEyD
— WE News (@WENewsPk) January 16, 2025
پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں مذاکراتی کمیٹی کے تیسرے اجلاس میں شرکت سے قبل عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ مذاکرات راستہ نکالنے کے لیے ہوتے ہیں اسی لیے کوشاں ہیں۔ اپوزیشن کو 31 جنوری سے پہلے جواب دے دیں گے۔ مذاکرات میں بھی کوئی معجزہ ہوسکتا ہے۔ باہر جہاں بھی مذاکرت ہو رہے ہوں، ہوتے رہیں ہمیں تو ہمارے ساتھ ہونے والے مذاکرات سے سروکار ہے۔
وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی آرمی چیف اور بیرسٹر گوہر کی ملاقات کی تصدیق
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور مذاکرات کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے تو میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی اور چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کی ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف نے پارٹی رہنماؤں سے ملاقات کی تھی، اس میں بیرسٹر گوہر بھی تھے۔
علی امین گنڈا پور نے مزید کہا کہ آرمی چیف سے میری ملاقات سیکیورٹی امور سے متعلق ہوئی تھی۔
صحافی: سر آپ ٹرمپ کی دعوت پر امریکہ جا رہے ہیں؟
وزیر اعلیٰ کے پی : ٹرمپ نے کسی کو دعوت نہیں دی اگر کسی کو دوت نامہ ملا ہے تو آفیشلی دیکھا دے@PTIofficial @AliAminKhanPTI pic.twitter.com/YQNKAlMRmk— WE News (@WENewsPk) January 16, 2025
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ کھلے مذاکرات ہو رہے ہیں تو بیک ڈور کی ضرورت نہیں۔ ان کا کہنا تھا امریکی صدر کی حلف برداری کی تقریب کے لیے بلاول بھٹو کو کوئی دعوت نامہ نہیں آیا، وائٹ ہاوس نے آفیشلی کسی کو دعوت نامہ نہیں دیا، اگر آفیشل دعوت نامہ دکھا دیں تو میں مان لوں گا۔ یہ 25 ہزار ڈالر کی ٹکٹ خرید کر جا رہے ہیں۔