اب عید کے خوشگوار مناظر دیکھنے کو کم ملتے ہیں، سہیل احمد عزیزی

ہفتہ 22 اپریل 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان کے معروف مزاح  کار، اسٹیج اور ٹیلی ویژن کے اداکار سہیل احمد المعروف بہ ’عزیزی‘ کی شہرت اس وقت بامِ عروج پر پہنچی جب انہوں نے لاہور میں مزاحیہ ڈرامے کیے، تب سے اب تک بامِ عروج پر ہی ہیں۔

ان کا بنیادی تعلق گوجرانوالہ سے ہے۔ جب جنگ ستمبر 1965 شروع ہوئی تو وہ 2 برس کے تھے۔ جوان ہوئے تو لاہور آگئے۔ گزشتہ 42 برس سے لاہور ہی میں مقیم ہیں تاہم اپنے فن کے سبب ساری دنیا میں جی رہے ہیں۔

لوگوں کے چہروں پر خوشیاں بکھیرنے والے سہیل احمد عزیزی اپنی عید اپنے بچوں، قریبی رشتہ داروں اور محلہ داروں کے ساتھ مناتے ہیں اور عید کی تمام روایات کو پورا کرتے ہیں۔ عید کی انہی خوشیوں کے درمیان سہیل احمد سے ایک طویل گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ جس میں ان کی حیات اور خیالات کے بارے میں خوب جاننے کی کوشش کی۔

 بچپن میں عید کیسے گزرتی تھی؟

وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل احمد نے بتایا کہ ’بچپن کی عید بہت مختلف ہوتی تھی اور بچے اکٹھے کھیلا کرتے تھے، بزرگ محفلیں سجا کر بیٹھتے تھے اور خواتین ایک دوسرے کے گھروں میں آتی جاتی تھیں تو وہ ماحول بہت خوشگوار لگتا تھا لیکن اب حالات بہت حد تک بدل گئے ہیں۔ اب ایسے مناظر دیکھنے میں کم ملتے ہیں۔ اب زندگی بھی بے حد تیز ہوگئی ہے، خود غرضی اور نفسا نفسی حاوی ہوگئی ہے۔ مجھے لاہور آئے 42 سال گزر گئے ہیں، اب بھی شاید گاؤں دیہاتوں میں عیدیں ایسے ہی منائی جاتی ہوں گی‘۔

اسٹیج کا پہلا دن

سہیل احمد عزیزی نے اپنا پہلا تھیٹر پلے گوجرانوالہ میں کیا اور ان کا پہلا اسٹیج ڈرامہ معروف اسٹیج آرٹسٹ مستانہ کے ساتھ تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’پہلا دن ہی عجیب کیفیات کا مجموعہ تھا اور پہلے دن کی کیفیت ایسی تھی کہ اسٹیج پر جانے کا خوف بھی تھا اورمیں حواس باختہ بھی تھا اور ایسے ہی حالات لاہور میں دیکھے۔ جب لاہور میں ڈرامہ کیا تو پہلی انٹری امان اللہ خان کے ساتھ تھی، وہاں بھی ایسی ہی کیفیت تھی۔ لیکن اس کے بعد کام ملتا گیا اور کام میں روانی آتی گئی، یونہی زندگی کی گاڑی چل پڑی اور پھر کام میں مزہ بھی آنے لگا۔ اس وقت تھیٹر دیکھنے بہت سلجھے ہوئے لوگ آتے تھے اور بہت بڑی شخصیات ہال میں ڈرامہ دیکھنے کے لیے موجود ہوتی تھیں‘۔

میری زندگی کی پہلی پروڈکشن

سہیل احمد نے بتایا کہ ’شرطیہ مٹھے کا آئیڈیا ببو برال کا تھا، اسکرپٹ میں نے لکھا تھا اور پروڈکشن بھی میری تھی جبکہ ڈائریکشن ایم جے رانا نے دی۔ تھیٹر کی دنیا میں شرطیہ مٹھے نے ریکارڈ قائم کیا اور وہ عوام میں بے حد مقبول ہوا۔ پہلے ڈراموں کی ریکارڈنگ نہیں ہوتی تھی، اس لیے لوگوں کو پرانے ڈرامے یاد نہیں ہیں لیکن ہمارے دور میں ٹیکنالوجی نے قدم رکھ دیا تھا جس کی وجہ سے لائیو تھیٹر اسٹیج سے نکل کر کیسٹ میں اور پھر پوری دنیا میں مقبول ہوگیا۔ بابا ڈانگ پہلا ڈرامہ تھا جو ویڈیو کیسٹ کے ذریعے ہندوستان تک پہنچا اور بے حد مقبول ہوا۔ اس لیے ریکارڈنگ کا رواج آنے کے بعد والے ڈرامے لوگوں کو یاد ہیں‘۔

’اسٹیج پر کام کرنے پر والدین کا رویہ سخت تھا‘

سہیل احمد کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے اسٹیج پر کام شروع کیا تو والد صاحب کا ردِعمل خاصا سخت تھا۔ شوق کوئی بھی ہو، اسے پورا کرنے کے لیے انسان سخت سے سخت وقت دیکھتا ہے۔ 42 سال پہلے اسٹیج اور گانے بجانے کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔ ’میرے والدین نے میرا کوئی ڈرامہ نہیں دیکھا کیونکہ جب میں نے کام شروع کیا تھا، تب وہ اس عمر میں تھے جہاں معیوب سمجھے جانے والی چیزوں کو تسلیم کرنا مشکل ہوتا ہے تاہم شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا۔ اس لیے والدین کے سخت رویے کے باوجود اپنے شوق کو پورا کیا اور پھر اللہ نے عزت بھی بہت عطا کی‘۔

’جب مجھے ریکھا کے ساتھ فلم کی پیشکش ہوئی‘

90 کی دہائی میں میرا ڈرامہ بابا ڈانگ جب انڈیا گیا تو مجھے ریکھا کے ساتھ فلم کی پیشکش ہوئی تھی لیکن مصروفیات کے باعث میں اس فلم میں کام نہیں کرسکا تھا۔ 42 سال کے کیریئر میں آج بھی ہر کام سیکھنے کی غرض سے کرتا ہوں، ہر نئی چیز کو شوق سے کرتا ہوں۔ میں اپنے کام میں بہت مصروف تھا جس کی وجہ سے اس وقت انڈین فلموں میں کام نہیں کرسکا‘۔

سہیل احمد سے سہیل احمد عزیزی تک کا سفر

’میں کسی ایک کریکٹر کے ساتھ جڑے رہنا پسند نہیں کرتا، نت نئے کردار ادا کرتا رہتا ہوں۔ ساڑھے 14 برسوں میں اب تک جو کردار ادا کیے، بہت مقبول ہوئے۔ پروگرام حسبِ حال کے اس وقت کے میزبان آفتاب اقبال اپنے کالمز میں ’عزیزی‘ کے کردار کا ذکر کرتے تھے۔ عزیزی کے کردار پر پروگرام میں پہلے عام سی گفتگو ہوتی تھی، پھر’عزیزی‘ کا چہرہ بنتا گیا اور اس طرح ’عزیزی‘ مقبول ہوگیا۔

’50 سے زائد سیاسی اور 150 کے قریب سماجی کردار کیے‘

سہیل احمد نے بتایا کہ انہوں نے 50 سے زائد سیاسی اور 150 کے قریب سماجی کردار کیے اور ہر سیاسی، سماجی کردار کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ کیریکٹر کرنے کے بعد اللہ کے فضل و کرم سے تمام سیاستدانوں نے رابطے کیے اور اپنے پیار کا اظہار کیا۔ سابق وزیرِاعظم چوہدری شجاعت حسین نے رابطہ کرکے اپنے کردار کو سراہا اور کہا کہ کسی دن ملنے آئیں اور ہمارے ساتھ کھانا کھائیں۔ تقریباً تمام وزرائے اعظم اور صدور کے ساتھ بیٹھ کر محبتیں سمیٹیں۔

سہیل احمد نے مزید بتایا کہ ’بڑے بڑے سیاستدان، جرنیل اور ان کے گھر والے میرا تھیٹر دیکھنے آتے تھے۔ اس میں سابق صدر رفیق تارڑ، سابق وزیرِاعظم میاں محمد نواز شریف کی فیملی، وزرا، بیوروکریٹس، پولیس افسران، ڈاکٹرز، پروفیسرز سب تھیٹر دیکھنے آتے تھے۔ بڑے بڑے جرنیل بھی چھپ کر سول کپڑوں میں آکر تھیٹر دیکھتے تھے۔ اس دور میں تھیٹر بہت سلجھا ہوا تھا اور ہر اسٹوری میں اصلاحی پہلو ضرور ہوتا تھا‘۔

’مجھے لائیو جگت نہیں کرنا آتی۔ میں نے دوسرے کامیڈینز کو دیکھ کرجگت کرنا سیکھی ہے۔ جگت امان اللہ خان، ببو برال اور مستانہ کی ایجاد تھی۔ میں آج بھی لائیو جگت نہیں کرسکتا۔‘

’باقی گلاں چھڈو، اے دسو اے سوٹ کتھوں سوائیاں اے‘

سہیل احمد کا کہنا تھا کہ ’سابق وفاقی  وزیر فردوس عاشق اعوان میرے لیے بہت محترم ہیں۔ جب میں نے ان کا کیریکٹر کیا تو انہوں نے فون کرکے تحسین کی اور کہنے لگیں: کردار آپ نے خوب نبھایا ہے لیکن ’باقی گلاں چھڈو، اے دسو سوٹ کتھوں سوائیاں اے‘۔ میں ہر کردار کو بخوبی نبھانے کی کوشش کرتا ہوں‘۔

’نجی زندگی میں انسان بننے کی کوشش کرتا ہوں جو کہ بہت مشکل کام ہے۔ جتنے بھی کردار کیے سب ہی مشکل تھے لیکن نجی زندگی میں انسان کا رول کرنا چاہ رہا ہوتا ہوں لیکن وہ بے حد مشکل ہے۔‘

’فلم اسٹار میرا نے چیک میں سے آدھا حصہ مانگ لیا‘

’اللہ کا بڑا فضل ہے کہ میں جو کام کرتا ہوں بھول جاتا ہوں اس لیے میرے کام میں ورائٹی زیادہ ہے۔ فلم اسٹار میرا کے کیریکٹر کو بہت پذیرائی ملی۔ ایک روز میرا ملی تو کہنے لگیں کہ سہیل صاحب! میری نقل کرکے آپ نے کافی پیسے کمائے ہیں، آپ کے چیک میں آدھا حصہ میرا ہے۔ فلم اسٹار میرا بہت اچھی دوست ہیں، مجھے لگتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر ایسی انگریزی بولتی ہیں تاکہ وہ عوام میں مقبول رہ سکیں۔‘

لاہور اور گوجرانوالہ کی بیٹھکیں

’ہم پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں اپنے دوستوں طاہر سرور میر اور حامد میر کے ساتھ محفلیں سجایا کرتے تھے۔ پھر لکشمی چوک میں ادبی بیٹھکیں لگتی تھیں۔ بڑے بڑے لکھاری وہاں آکر بیٹھتے تھے۔ حامد میر نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ سہیل احمد کے پاس رہنے کی جگہ نہیں تھی تو یہ ہمارے پاس رہتے تھے. اصل میں میرا بھائی پنجاب یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھا، ہم ان کے پاس جایا کرتے تھے، ہاسٹلز میں محفلیں سجا کرتی تھیں تو رات دیر تک بیٹھتے تھے اور وہیں سو جایا کرتے تھے۔

’اگر حامد میر کو لگتا ہے کہ ہمارے پاس جگہ نہیں تھی تو پھر ایسا ہی ہوگا۔ حالانکہ لاہور آنے کے فوراً بعد میں اور مستانہ نے ایک کمرہ لے لیا تھا۔ اسی طرح گوجرانوالہ کے ایک ہوٹل کے نیچے بیٹھا کرتے تھے۔ یہ تمام بیٹھکیں بہت خوبصورت یادیں سمیٹے ہوئے ہیں۔‘

’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ کا تجربہ بہت اچھا رہا

اداکار کا کہنا تھا کہ ’جب پنجاب نہیں جاؤں گی‘ کا اسکرپٹ لے کر ہمایوں سعید اور ندیم بیگ میرے پاس آئے تو اسکرپٹ پڑھ کر میں آمادہ ہوگیا کہ یہ فلم میں ضرور کروں گا۔ خلیل الرحمان قمر نے اسکرپٹ ہی اتنا خوبصورت لکھا تھا کہ میں انکار نہیں کرسکا۔ ندیم بیگ، ہمایوں سعید اور مہوش حیات کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ بہت عمدہ رہا‘۔

’چنے بیچنے والا چنے چھوڑ کر کُکڑ کا پتیلہ لگا لے گا تو نہ چنے بکیں گے نا ککڑ‘

سہیل احمد کا کہنا تھا کہ انہیں سیاست میں آنے کا کوئی شوق نہیں، یہ سیاستدانوں کا کام ہے، انہیں کرنے دیں کیونکہ اگر چنے بیچنے والا پتیلہ اٹھا کے کُکڑ کا پتیلہ رکھ لے گا تو چنے بکیں گے نہ ککڑ۔ ’میں کیوں سیاست میں آؤں؟ اپنے شعبے  کو زیادہ اہم اور معتبرسمجھتا ہوں کیونکہ اس میں محبتیں زیادہ ہیں۔ اداکار اور سیاستدان کو آغاز میں پیسے کا کوئی شوق نہیں ہوتا، ان کے ذہن میں صرف 2 چیزیں ہوتی ہیں، ایک شوق اور دوسری شہرت۔ پھر آہستہ آہستہ پیسے ملنے لگتے ہیں تو مزید شوق پیدا ہوجاتا ہے۔ میں نے محبتوں کے ساتھ  پیسہ کمایا ہے، لالچ نہیں کیا اور نہ ہی میں لالچی ہوں۔ الحمد للہ! پیسے ملتے ہیں اور اس سے بڑھ کر لوگوں کی بے پناہ محبتیں ملتی ہیں۔ اللہ نے مجھے جتنا نوازا ہے، میں اس کا بہت شکر گزار ہوں‘۔

’زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ قرار دینے والوں کو شرم آنی چاہیے‘

سہیلی احمد عزیزی نے کہا کہ سیاستدان اچھے ہیں لیکن سب ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھاتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں۔ گالیاں دینا اب رواج بن چکا ہے۔ آپ نے آصف علی زرداری کا 11 سال تک ٹرائل کیا، انہیں مسٹر ٹین پرسنٹ مشہور کردیا مگر ایک بھی کیس میں آپ انہیں ٹین پرسنٹ ثابت نہیں کرسکے تو آپ کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔ اگر آپ اس میں سے کچھ نہیں نکال سکے تو آپ نے کیوں مشہور کیا ہوا ہے کہ وہ سینما میں ٹکٹیں بلیک کرتا تھا؟ آپ کو سوچنا چاہیے کہ وہ اپنے باپ کا اکلوتا بیٹا تھا جس کے اس وقت کراچی میں 2 سینما تھے، جب لوگ قطاروں میں کھڑے ہوکر ٹکٹ لیتے تھے تب وہ سینما کا مالک تھا۔ حاکم علی زرداری کا بیٹا کیسے ٹکٹیں بلیک کرسکتا ہے؟ یہ سب کہنے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ ہم کس کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں۔ جس نے یہ ساری باتیں پھیلائی ہیں اسے ڈھونڈ کر جوتے مارنے چاہئیں۔

نواز شریف نے سیاست سے پیسہ کمایا؟

’ہم آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ نواز شریف نے سیاست میں آکر پیسہ کمایا لیکن ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اتفاق فاؤنڈری تو 1958 میں لگی تھی اور یہ سیاست میں 80 کی دہائی میں آئے تھے۔ انڈسٹری 1958 میں لگی تھی، پیسہ ان کے پاس پہلے سے تھا۔ پھر عمران خان آپ کا ہیرو ہے۔ اس نے آپ کے ملک کا نام بہت روشن کیا ہے۔ اس نے محنت کی ہے۔‘

کپل شرما کی کامیڈی کو پوری دنیا میں پسند کیا جا رہا ہے

کپل شرما بہت عمدہ کامیڈی کر رہا ہے۔ اس کے شو کا اہم پہلو یہ ہے کہ اس کے شو میں بہت بڑے بڑے لوگ آتے ہیں۔ جتنا بڑا آدمی سامنے ہوگا تو کامیڈین کے لیے آسان ہوتا ہے، اسے اور عوام کو ہنسانا۔ ایک تو اس کے پروگرام میں لوگ بہت بڑے آتے ہیں اور سونے پر سہاگہ یہ کہ وہ خود بھی بہت بڑا کامیڈین ہے اور اسے پوری دنیا میں بے حد پسند کیا جا رہا ہے۔ ہم نے بھی سوچا کہ کپل شرما شو جیسا شو ڈیزائن کریں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں مہمان بہت کم ہیں، نتیجتاً مواد زیادہ نہ ہونے کے باعث ایسا پراجیکٹ شروع نہیں ہوسکا۔

کپل شرما پاکستان آئیں گے

سہیل احمد نے بتایا کہ ’میری کپل شرما سے بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ ہم آپس میں پراجیکٹس پر تبادلہ خیال کرتے رہتے ہیں۔ کپل شرما بھی ہمارے اداکاروں اور کامیڈینز کے مداح ہیں اور وہ ہمارے کام کی داد دیتے رہتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ کپل شرما اور دیگر فنکار بہت عاجز لوگ ہیں اور اللہ عاجزی کا صلہ دیتا ہے۔ جو عزت اور شہرت انہیں ملی ہے، وہ عاجزی ہی کا نتیجہ ہے۔ ان لوگوں میں تکبر کا پہلو نہیں ہے۔

’ہمارے ملک میں مزاح کی کھیتی میں بہت تناور درخت موجود ہیں، ابھی دونوں طرف مصروفیات زیادہ ہیں جس کی وجہ سے مل کر کسی پراجیکٹ پر کام نہیں ہو رہا ہے اور دونوں ممالک کی جانب سے ویزا میں بھی سختی دیکھنے میں ملتی ہے، جیسے ہی نرمی ہوگی کپل شرما کو پاکستان آنے کی دعوت دیں گے اور وہ ضرور آئیں گے۔‘

منور ظریف کی کوئی نقل نہ کرسکا

کامیڈی کے سرتاج ظریف مرحوم اور منور ظریف سے متعلق سہیل احمد نے کہا کہ وہ بہت بڑے آرٹسٹ تھے، انڈیا نے پوری کوشش کرلی کہ ان کی نقل کی جائے لیکن ناکام رہے۔ ہندوستان کے سپر اسٹار دھرمیندر نے خود کہا کہ میں منور ظریف کا بہت بڑا مداح ہوں۔ انہوں نے ان کی نقل کرتے ہوئے فلمیں بنائیں لیکن فلاپ ہوگئیں۔

انہوں نے کہا کہ ننھا، علی اعجاز، زلفی رنگیلا، خالد عباس ڈار، جمیل فخری، کمال احمد رضوی، عرفان کھوسٹ، امان اللہ خان، عمر شریف جیسے کامیڈینز کی مثال نہیں ملتی۔ یہ تمام کامیڈین اپنے اپنے وقت کے سرتاج رہے ہیں۔ ’میں، مستانہ اور ببو برال تو بہت بعد میں آئے ہیں۔ ان تمام کامیڈینز کو دیکھ کر ہم خوفزدہ ہوجاتے تھے کہ یہ بہت بڑے لوگ ہیں۔ عمر شریف بھی ایک بہت بڑا نام تھے جن سے ہندوستان بھی بہت متاثر ہوا۔ معین اختر کو میں کامیڈین نہیں سمجھتا کیونکہ وہ جتنی بڑی شخصیت تھے، ان جیسے ہیرے کم پیدا ہوتے ہیں‘۔

’کوئی انگریز ٹکر جائے تو لگتا ہے میری انگریزی بنانے والی مشین خراب ہے‘

’میں اردو اور پنجابی پر عبور رکھتا ہوں لیکن انگریزی بولتے وقت لگتا ہے کہ میری مشین خراب ہے۔ میں ٹھیک سے انگریزی بول سکتا ہوں نہ سمجھ سکتا ہوں۔ ہمارا انگریزی کا لہجہ انگریزوں کے لہجے سے الگ ہے تو وہ سمجھ لیتا ہوں لیکن اگر انگریز مل جائے تو بس پھر سمجھ سے باہر ہوجاتا ہے کہ بات کرنی کیسے ہے؟‘

’پہلی 100 سیٹیں اداکاروں اور ادیبوں کے لیے مختص کرتا تھا‘

’جو ڈرامہ میں ڈائریکٹ کرتا یا لکھتا تھا، میں اس میں پروڈیوسر سے طے کرتا تھا کہ پہلے شو کی اگلی 100 سیٹیں میری ہوں گی۔ میں پہلی 100 سیٹیں اداکاروں اور ادیبوں کے لیے مختص کرتا تھا۔ اشفاق احمد، بانو قدسیہ، منّو بھائی، عطا الحق قاسمی، امجد اسلام امجد، سب کو بلا کر تھیٹر دکھاتا تھا۔ فلم کی دنیا کے ستاروں محمد علی، یوسف خان اور یہاں تک کہ شہنشاہ غزل مہدی حسن صاحب کو بھی تھیٹر کی دعوت دی۔ انہوں نے دعوت قبول کی اور تھیٹر دیکھنے کے لیے تشریف لائے۔‘

پرفارمنگ آرٹ میں اثرانگیز چیز تھیٹر ہے

’تھیٹر کی وجہ سے معاشرے کی اصلاح ہوتی ہے۔ تھیٹر کی تاریخ کہتی ہے کہ برِصغیر کے ہندوؤں نے اپنی مذہبی رسومات سکھانے کے لیے تھیٹر شروع کیا اور یہ روایت آج بھی قائم ہے۔ ہم تھیٹر کے ذریعے بہت کچھ سکھا سکتے ہیں لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے ہر چیز کو مذاق میں اڑا دیا۔ پرفارمنگ آرٹ میں جو اثرانگیز چیز ہے، وہ تھیٹر ہے، اس کا مقصد صرف لوگوں کو تفریح کے مواقع فراہم کرنا نہیں ہے بلکہ اصلاح کرنا بھی ہے۔‘

’سلطان راہی کا دکھ‘

’میں نے سلطان راہی کے ساتھ 4 فلمیں کی ہیں۔ انہوں نے کیریئر کا آغاز تھیٹر سے کیا تھا۔ وہ اکثر میرے پاس بیٹھ کر دکھی ہوتے تھے کہ یہ کیسی فلمیں بن رہی ہیں اور فلم بنانے والے مجھ سے یہ کیسا کام کروا رہے ہیں۔ ان فلموں میں بدمعاشی اور قتل وغارت دکھا کر انہیں ہیرو بنا دیا گیا۔ ’وحشی جٹ ہو‘ یا ’مولا جٹ‘ تمام فلموں میں بدمعاشوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا۔ ہماری فلم انڈسٹری نے بدمعاشی اور خون خرابے کو فروغ دیا اور پھر تمام فلمیں انہی موضوعات پر بنتی رہیں۔ فلموں میں ایسے ڈائیلاگز اور ایسی شاعری بڑے پردے پر دکھائی گئی کہ سر شرم سے جھک گئے۔ سینسر بورڈ نے بھی بہت عجیب و غریب شاعری پاس کی جس کی وجہ سے ایسا مواد دکھایا گیا جو انتہائی نامناسب تھا۔‘

’میں گھر میں انتہائی سنجیدہ رہتا ہوں‘

سہیل احمد نے بتایا کہ وہ ٹیلی ویژن پر جتنی مزاحیہ طبیعت کے نظر آتے ہیں، اصل زندگی میں سنجیدہ مزاج انسان ہیں، اور گھر میں بھی سنجیدہ رہتے ہیں۔ عید کے کھانوں کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اپنے کھانے کی میز کو اللہ کی نعمتوں سے ضرور سجائیں لیکن اپنے غریب بہن بھائیوں کا خیال ضرور رکھیں۔ جو کھانا ہم کھاتے ہیں اس کی تشہیر مت کریں کیونکہ ایسا کھانا سب کی پہنچ میں نہیں ہوتا۔ ’میرے گھر میں عام کھانا بنتا ہے اورعید پر کھانے کی میز پر اضافی صرف سویاں ہی ہوتی ہیں‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp