ایسے طیارے کے اغوا کی داستان جس نے پاکستان کو ہلاکر رکھ دیا

بدھ 19 اپریل 2023
author image

عقیل عباس جعفری

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

2 مارچ 1981 کو پی آئی اے کا ایک بوئنگ طیارہ، پی کے 326 کراچی سے پشاور جارہا تھا جس میں عملے سمیت 148 افراد سوار تھے۔ دورانِ پرواز ایک مسلح شخص کاک پٹ میں داخل ہوا۔ اس نے اعلان کیا کہ طیارہ ہائی جیک ہوچکا ہے اور اب میرے کنٹرول میں ہے اگر کسی نے کوئی خطرناک حرکت کی تو میں اسے گولی مار دوں گا۔

اس نے کپتان کو حکم دیا کہ وہ طیارے کو دمشق لے چلے۔ پائلٹ نے خود کو منظم اور پُرسکون رکھا اور جواب دیا کہ طیارے میں اتنا ایندھن نہیں ہے کہ اسے دمشق لے جایا جاسکے۔ مسلح شخص نے کہا کہ پھر طیارے کو طرابلس لے چلو۔ کپتان نے کہا کہ طرابلس تو دمشق سے بھی زیادہ فاصلے پر ہے۔ اب مسلح شخص نے حکم دیا کہ طیارے کو کابل لے جایا جائے۔ کپتان اس کا حکم ماننے پر مجبور ہوگیا اور شام 4 بجکر 57 منٹ پر یہ طیارہ کابل ایئرپورٹ پر اتر گیا۔

یہ اس بھیانک ڈرامے کا آغاز تھا جو اگلے 324 گھنٹے تک جاری رہا۔ اس کربناک عرصے میں اغوا شدہ طیارے کے مسافر ہی نہیں پورا ملک شدید اضطراب، کشمکش اور گومگو کی کیفیت میں مبتلا رہا۔

اغوا کنندگان کی ٹیم 3 افراد سلام اللہ ٹیپو عرف عالمگیر، ناصر جمال عرف سراج اور ارشد علی خان عرف خالد پر مشتمل تھی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ان کا تعلق الذوالفقار تنظیم سے ہے جو میر مرتضیٰ بھٹو کی پیپلز لبریشن آرمی کی ایک ذیلی تنظیم ہے۔

کابل پہنچتے ہی مسلح شخص نے جس کی شناخت بعد میں سلام اللہ ٹیپو کے نام سے ہوئی، میر مرتضیٰ بھٹو سے رابطہ کیا۔ میر مرتضیٰ بھٹو کے لیے یہ واقعہ حیرت انگیز تھا، وہ گومگو میں پڑگیا۔ وہ یہ یقین بھی نہیں کر پارہا تھا کہ جس شخص نے اس سے رابطہ کیا ہے وہ ٹیپو ہی ہے یا کوئی اور۔ بہرحال اس نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب الذوالفقار کا نام ذرائع ابلاغ میں نمایاں ہوا۔ اب دنیا کو پتا چلا کہ اس نام کی کوئی تنظیم بھی وجود رکھتی ہے ورنہ اس سے پہلے یہ تنظیم محض کاغذوں تک محدود تھی۔

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے کچھ عرصے بعد جنرل ضیاالحق کی حکومت کے خلاف ایک زیرِ زمین تحریک کا آغاز ہوا۔ اس تنظیم کے سرپرست ذوالفقار علی بھٹو کے بیٹے میر مرتضیٰ بھٹو اور میر شاہنواز بھٹو تھے۔ انہوں نے تنظیم کا نام پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) رکھا اور کابل میں تنظیم کا ہیڈ کوارٹر قائم کیا۔ مرتضیٰ بھٹو نے اس تنظیم کو منظم کرنے کا کام سنبھالا اور شاہنواز بھٹو فوجی آپریشنوں کے نگراں مقرر ہوئے۔

5 جنوری 1981 کو بھٹو کی سالگرہ کے موقع پر اس تنظیم کا نام بدل کر الذوالفقار آرگنائزیشن (اے زیڈ او) رکھ دیا گیا۔ اس موقع پر تنظیم کا ایک مونوگرام بھی تیار ہوا جس پر آزادی، جرأت، اعزاز (Freedom, Courage, Honour) اور کامیابی تک جدوجہد (Struggle Unitl Victory) کے الفاظ تحریر تھے۔

الذوالفقار تنظیمی ڈھانچے کے اعتبار سے سوویت خطوط پر کھڑی کی گئی تھی۔ مرتضیٰ بھٹو پولٹ بیورو کا سیکرٹری جنرل بنا اور شاہنواز بھٹو پیپلز آرمی کا چیف مقرر ہوا۔ 1982 میں الذوالفقار کی سینٹرل کمیٹی توڑ دی گئی اور تنظیم کو کے جی بی اور خاد کے براہِ راست کنٹرول میں دے دیا گیا۔ جو بالترتیب سوویت اور افغان انٹیلی جنس ایجنسیاں تھیں۔

1982 کے اواخر میں تنظیم کا ہیڈکوارٹر کابل سے دہلی منتقل کردیا گیا اور پھر وہاں مستقل استعمال کیا جاتا رہا۔ دیکھتے ہی دیکھتے بھارت، لیبیا اور افغانستان میں الذوالفقار کے بہت سے تربیتی کیمپ قائم ہوگئے۔ ایک وقت ایسا تھا کہ افغانستان میں ایسے 20، بھارت میں 35 اور لیبیا میں 8 تربیتی کیمپ قائم ہوگئے تھے۔ زیرِ تربیت افراد کو جن تخریبی سرگرمیوں کی تربیت دی جاتی تھی ان میں چھوٹے ہتھیاروں، راکٹ لانچروں، دستی بموں، ٹائم بموں اور مختلف قسم کے بارودوں کا استعمال شامل تھا۔ تربیت کے بعد ان افراد کو 3، 3 اور 5، 5 افراد پر مشتمل ٹیموں میں تقسیم کردیا جاتا تھا اور اپنے تفویض کردہ تخریبی فرائض انجام دینے کے بعد یہ ٹیمیں واپس بھارت اور افغانستان چلی جاتی تھیں۔

پی آئی اے کا طیارہ اغوا کرنے والے افراد کا ابتدائی مطالبہ یہ تھا کہ ان کے ان 5 ساتھیوں کو رہا کیا جائے جو 26 فروری 1981 کوجامعہ کراچی میں ہونے والے طلبہ تصادم کے دوران اسلامی جمعیت طلبہ کے رہنما حافظ محمد اسلم کے قتل کے الزام میں پولیس کی تحویل میں ہیں۔

حکومتِ پاکستان نے اغوا کنندگان کا مطالبہ ماننے سے انکار کردیا۔ حکومت کے انکار سے اغوا کنندگان جو پہلے خواتین، بچوں اور بیمار مسافروں کو رہا کرچکے تھے مشتعل ہوگئے۔ 6 مارچ 1981 کو ان اغوا کنندگان نے طیارے پر سوار سابق وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کے اے ڈی سی اور ضیاالحق حکومت کی وزارتِ خارجہ کے ایک اہم افسر طارق رحیم کو قتل کرکے ان کی لاش طیارے سے باہر پھینک دی۔ اغوا کنندگان کا خیال تھا کہ طارق رحیم نے جولائی 1977 میں وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کی معزولی میں اہم کردار ادا کیا تھا حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔

مرتضیٰ بھٹو کے سابق ساتھی اور پیپلزپارٹی کے اساسی رکن راجہ انور نے اپنی کتاب ’دہشت گرد شہزادہ‘ میں لکھا ہے کہ ’1974ء میں جب بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کرنے کے بعد صوبہ سرحد کا دورہ کیا تو ان کے ایک جلسے میں بم دھماکا ہوا ایسے میں یہ ان کے اے ڈی سی طارق رحیم تھے جنہوں نے وزیرِاعظم کی ڈھال بن کر ان کی جان بچائی۔ طارق رحیم کی اس بہادری کا خود بھٹو صاحب نے بھی اعتراف کیا۔ راجہ انور کے مطابق بھٹو اپنی معزولی کے بعد بھی طارق رحیم کے اس احسان کا بدلہ چکانا نہیں بھولے اور جب ان کی معزولی کے بعد جنرل ضیاالحق نے ان سے مری میں ملاقات کی اور چلتے وقت ان سے کہا کہ اگر وہ انہیں کوئی کام بتائیں تو انہیں کرنے میں خوشی ہوگی تو بھٹو نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ میرے ملٹری اسٹاف کو ان کی پسندیدہ جگہوں پر بھجوا دیں۔ جنرل ضیا نے اس درخواست کی بجا آوری میں ہی طارق رحیم کو وزارتِ خارجہ میں بھجوایا تھا جہاں وہ تہران کے پاکستانی سفارتخانے میں بطور فرسٹ سیکرٹری تعینات ہوئے۔

’22 فروری 1981 کو اپنے والد میجر جنرل (ر) کے اے رحیم کی ناگہانی موت کے باعث وہ کراچی آئے ہوئے تھے اور اب اپنے سُسر کی عیادت کے لیے پشاور جارہے تھے کہ ان کا طیارہ اغوا کرلیا گیا اور اغوا کنندگان نے محض ایک فوجی ہونے اور سابق وزیرِاعظم کے اے ڈی سی ہونے کے ’جرم‘ میں انہیں قتل کردیا‘۔

اغوا کنندگان نے یہ بھی اعلان کیا کہ جب تک اس کے مطالبات پوری طرح تسلیم نہیں کئے جاتے وہ ہر 24 گھنٹے بعد ایک مسافر کو ہلاک کرتے رہیں گے، تاہم طارق رحیم کے قتل کے بعد کابل انتظامیہ پر، جو اغوا کنندگان کی ہر طرح مدد کررہی تھی، سفارتی دبائو بڑھنے لگا۔ چنانچہ 8 مارچ کو اغوا کنندگان طیارے میں ایندھن بھروا کر دمشق پرواز کرگئے۔

دمشق پہنچ کر اغوا کنندگان نے اپنے رویے میں مزید سختی پیدا کرلی اور اب انہوں نے اپنی فہرست میں پاکستان پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے ان 54 افراد کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل کرلیا جو پاکستان کی مختلف جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے تھے۔

جوں جوں وقت گزرتا گیا پاکستان میں عوام کی تشویش میں اضافہ ہونے لگا جس کے باعث حکومت نے اغوا کنندگان کا مطالبہ مانتے ہوئے مطلوبہ 54 افراد رہا کرکے شام کے شہر حلب پہنچا دیے۔ اغوا کنندگان نے اپنے مطلوبہ افراد رہا ہونے کے بعد یرغمالیوں کو رہا کردیا اور یوں 15 مارچ 1981 کو فضائی قزاقی کی یہ طویل اور ہولناک واردات اپنے انجام کو پہنچ گئی۔

شروع شروع میں الذوالفقار تنظیم اس اغوا سے بری الذمہ ہونے کا دعویٰ کرتی رہی مگر 19 اپریل 1981 کو میر مرتضیٰ بھٹو نے بی بی سی کے نامہ نگار مارک ٹیلی کو انٹرویو دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ ان کی تنظیم اس طیارے کے اغوا میں ملوث ہے۔ چند روز بعد تینوں اغوا کنندگان اور رہائی پانے والے 25 افراد کابل پہنچ گئے جنہیں افغان حکومت نے پناہ دے دی۔

طیارے کے اغوا کا ایم آر ڈی کی تحریک پر بہت منفی اثر مرتب ہوا۔

ایم آر ڈی (Movement for the Restotarion of Democracy) کا قیام طیارے کے اغوا سے کوئی ایک ماہ قبل 6 فروری 1981 کو لاہور میں عمل میں آیا تھا۔ یہ 9 سیاسی جماعتوں کا اتحاد تھا جس میں پاکستان پیپلزپارٹی، آزاد جموں و کشمیر مسلم کانفرنس، جمعیت علمائے اسلام، کونسل مسلم لیگ، پاکستان جمہوری پارٹی، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی، قومی محاذ آزادی، پاکستان مزدور کسان پارٹی اور تحریک استقلال شامل تھیں۔

پی آئی اے کے بوئنگ طیارے پی کے 326 کی کابل آمد

اس اتحاد نے ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی بھی اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ صدرِ پاکستان جنرل محمد ضیاالحق انتخابات منعقد کروانے کے وعدے میں مخلص نہیں ہیں اور وہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ہر ہتھکنڈے کو جائز سمجھتے ہیں اور یہ کہ پاکستان پیپلزپارٹی تن تنہا، جنرل ضیاالحق کا مقابلہ نہیں کرسکتی، چنانچہ انہوں نے اس نئے سیاسی اتحاد کے قیام پر رضامندی ظاہر کردی۔ 18 مارچ 1981 کو جنرل ضیاالحق نے الزام لگایا کہ پی آئی اے طیارے کا اغوا پیپلزپارٹی نے کروایا ہے اور اس الزام کے نتیجے میں سردار عبدالقیوم نے ایم آر ڈی کی تمام سرگرمیاں معطل کرنے کا اعلان کردیا۔

24 مارچ 1981 کو جنرل ضیاالحق نے عبوری آئین (پی سی او) کا حکم جاری کردیا جس کے تحت 1977 کے بعد سے فوجی حکومت کی طرف سے کیے گئے تمام اقدامات کو قانون کے مطابق قرار دے دیا گیا۔

اس حکم کے تحت 1973ء کے آئین کے ڈھانچے ہی کو گرا دیا گیا اور محض ان دفعات کو برقرار رکھا گیا جن سے صدر کے اختیارات کو تقویت ملتی تھی۔ اس حکم کے تحت انتخابات صوبائی اسمبلیوں، پارلیمنٹ اور بنیادی انسانی حقوق کے متعلق آئین کی دفعات کو خارج کردیا گیا اور یہ اختیارات صدر نے خود سنبھال لیے کہ وہ جب چاہیں جس طرح چاہیں، آئین میں ترمیم کرسکتے ہیں۔

اس حکم نے عدلیہ کی آزادی کو بھی سلب کرلیا کیونکہ اس کے تحت مارشل لا حکومت کے کسی اقدام یا کسی فعل کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا تھا نہ ہی مارشل لا کی عدالتوں یا کسی ٹریبونل سے دی جانے والی سزا کو چیلنج کیا جاسکتا تھا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب سپریم کورٹ فوجی حکومت کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت شروع کرنے والی تھی۔ مگر یہ سماعت شروع ہونا تو کجا، اس حکم نے سپریم کورٹ کے ان سابقہ فیصلوں کو بھی کالعدم قرار دے دیا جو مارشل لا کی حکومت اور فوجی ٹریبونلوں کے تمام فیصلوں کی قانونی حیثیت کے بارے میں صادر کیے گئے تھے۔

یوں طیارے کے اغوا سے پاکستان پیپلزپارٹی نے شاید اتنا فائدہ نہیں اٹھایا جتنا فائدہ جنرل ضیاالحق کو ہوا۔

فوجی حکومت نے بہت جلد ان افراد کا پتا چلا لیا جنہوں نے مبیّنہ طور پر پی آئی اے کے طیارے پر اسلحہ پہنچایا تھا۔ ان میں سرِفہرست نام ناصر بلوچ کا تھا۔ اس وقت فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا جس نے اسے 5 نومبر 1984 کو موت کی سزا سنادی۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے اس سزا کے خلاف ایک بین الاقوامی تحریک چلائی اور متعدد شواہد کی مدد سے ثابت کیا کہ ناصر بلوچ اس جرم میں ملوث نہیں ہے، لیکن فوجی حکومت نے ان شواہد پر ذرا بھی توجہ نہیں دی اور 4 مارچ 1985 کو ناصر بلوچ کو تختہ دار پرلٹکا دیا گیا۔

ناصر بلوچ کی سزائے موت پر عملدرآمد سے 8 ماہ قبل 11 جولائی 1984 کو کابل انتظامیہ کے حکم پر سلام اللہ ٹیپو عرف عالمگیر کو کابل کی پل چرخی جیل میں فائرنگ اسکواڈ نے موت سے ہم کنار کردیا۔

سلام اللہ ٹیپو

سلام اللہ ٹیپو کو موت کی یہ سزا طیارہ اغوا کرنے کے جرم میں دی گئی تھی مگر دراصل اس سزا کا فوری محرک پرویز شنواری نامی نوجوان کا قتل تھا جو ان 54 قیدیوں میں شامل تھا جسے 1981 میں پی آئی اے کے اغوا شدہ طیارے اور اس کے مسافروں کے بدلے میں رہا کرکے دمشق بھیجا گیا تھا۔

پرویز شنواری کا جرم یہ تھا کہ اس نے دہلی میں ٹیپو کو وہ اسلحہ نہیں پہنچایا تھا جس کی مدد سے وہ جنرل ضیاالحق کو دہلی میں فروری 1983 میں اس وقت قتل کرنا چاہتا تھا جب وہ وہاں کے دورے پر تھے۔ پرویز شنواری کے اس جرم پر ٹیپو نے اسے قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔ 15 جون 1983 کو اس نے اپنے اس فیصلے پر عملدرآمد کردیا۔ سلام اللہ ٹیپو، پرویز شنواری سے پہلے مزید 3 افراد کو قتل کرچکا تھا جن میں اسلامی جمعیت طلبہ کے رہنما حافظ محمد اسلم، اغوا شدہ طیارے میں موجود فوجی افسر طارق رحیم اور الذوالفقار کا ایک کارکن مزدور یار آفریدی شامل تھا۔

6 ستمبر 1983 کو افغان حکومت نے پرویز شنواری کے قتل کے الزام میں ٹیپو کو گرفتار کرلیا۔ ٹیپو نے بتایا کہ اس نے یہ قتل مرتضیٰ بھٹو کی ایما پر کیا ہے اور اس قتل میں ناصر جمال نے اس کی معاونت کی ہے، مگر ناصر جمال پر یہ الزام ثابت نہیں ہوسکا اور عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ پرویز شنواری کے قتل کا تن تنہا ذمے دار سلام اللہ ٹیپو ہے۔ افغان حکام نے مرتضیٰ بھٹو سے اجازت لی کہ ٹیپو کو سزائے موت دے دی جائے، یوں 11 جولائی 1984 کو سلام اللہ ٹیپو کی کہانی بھی اپنے انجام کو پہنچ گئی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp