سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے کراچی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامک فنانسنگ کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹا جاسکتا ہے اور ماحولیات کا تحفظ ممکن ہے۔
سکوک اسلامی بانڈز کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے وسائل پیدا کرنے پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ یہ بانڈز مسلم ممالک میں اداروں اور سرمایہ کاروں کو کلائنیٹ فنانس میں حصہ ڈالنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ سکوک کی ماحولیات، گورننس اور سماجی اصولوں سے ہم آہنگی دنیا بھر سے ذمہ دار سرمایہ کاروں کو اپنی طرف کھینچتی ہے جس سے سماجی انصاف اور اس کے ذریعےکمیونٹیز کے فلاح و بہبود کو فروغ ملتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے رسمی گھنٹہ بجا کر سکوک بانڈ کا اجراء کر دیا
انہوں نے کہا کہ گلوبل ساؤتھ کی آبادی موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہورہی ہے، سکوک کے ذریعے موسمیاتی خطرات سے دوچار کمیونیٹیز کو ان تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے فنڈ فراہم کیا جاسکتا ہے کیوں کہ یہ اسلام کے ’مقاصد الشریعہ‘ سے موافقت رکھتا ہے جو زندگی، جائیداد اور ماحول کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلم دنیا میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ ملیشیا میں ’گرین سکوک‘ کے ذریعے 58 ملین ڈالرز کا فنڈ پیدا کیا گیا جو وہاں نظام شمسی سے ماحول دوست بجلی پیدا کرنے لیے استعمال ہوا۔ انڈونیشیا میں ’گرین سکوک‘ کے ذریعے ماحول دوست توانائی، ٹرانسپورٹ اور ویسٹ منیجمنٹ کے لیے فنڈز پیدا کیے گئے۔
یہ بھی پڑھیے:پاکستان کی کلائمٹ سائنس پر گرفت نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں بھی ماحولیات کے لیے سکوک جاری کیے گئے۔ ان ممالک کی طرح ہم بھی اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں، عالمی فنڈ حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے جبکہ ہم سکوک کے ذریعے اپنے ملک میں آسانی سے وسائل پیدا کرسکتے ہیں۔
انہوں نے اسلامی مالیاتی نظام کے ذریعے کلائمٹ چینج کا مقابلہ کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم سکوک، وقف، تکافل اور زکوۃ کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی اور ماحول کے تحفظ کے لیے وسائل پیدا کرسکتے ہیں جس طرح دوسر ے اسلامی ممالک کررہے ہیں۔ جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ کلائمیٹ سائنس میں ہماری استعداد کار کی کمی ہے جسے بڑھانے کی ضرورت ہے۔