ہم عصرموسیقاروں کے مقابلے ماسٹرعبداللہ کو ان کے جداگانہ انداز نے امتیازی شہرت دی۔ سب جانتے ہیں کہ کسی بھی فلم میں موسیقی کو اہم مقام حاصل ہوتا ہے اور برسوں سے چلتی یہ روایت آج بھی جاری ہے۔ پاکستان فلم انڈسٹری میں جداگانہ انداز، مستند اور قابلِ احترام شخصیت کے مالک ماسٹر عبداللہ کو فنِ موسیقی میں بے مثال شہرت ملی۔
فنِ موسیقی میں ماسٹرعبداللہ کا کردار
ماسٹر عبد اللہ 1930 کو لاہور میں پیدا ہوئے، ماسٹرعبداللہ نے خالص راگ راگنیوں کے رچاؤ سے بھری دھن میں انور کمال پاشا کی فلم سورج مکھی سے فلمی دنیا میں قدم رکھا۔ او میرے گورے گورے راجہ گانے کی دھن نے انہیں فلمی دنیا میں شہرت اور مقام دیا۔
دھنوں کی جادوگری
ماسٹر عبداللہ کی شریف نیئر کی مشہور پنجابی فلم لاڈو میں کی گئی موسیقی کو نئی جہد دی۔ اقبال کشمیری کی اکثر فلموں کی موسیقی بھی ماسٹر عبداللہ نے ترتیب دی۔ ان فلموں میں خاص طور پر بابل، ٹیکسی ڈرائیور اور ضدی شامل ہیں۔
ماسٹر عبداللہ کی دیگر قابل ذکر فلموں میں دنیا پیسے دی، امام دین گوہاویہ، رنگی، وارث، ہرفن مولا، دل ناں دا، کش مکش، بدلہ اور نظام شامل ہیں۔
گانا تیرے نال نال وے میں رہنڑا اور پنجابی فلم ملنگی کا گانا ماہی وے سانوں بھل نہ جانویں تو آج تک شائقین کے دلوں میں گھر کیے ہوئے ہے۔ ملنگی کے ایک گانے میں رنگیلا، منور ظریف، زلفی اور ماسٹر عبداللہ نے بھی حصہ لیا تھا۔
1968 میں ہی انہوں نے فلم کمانڈرکی موسیقی ترتیب دی، جس میں رونا لیلیٰ کا گایا ہوا یہ گیت بہت مقبول ہوا جان من اتنا بتا دو محبت ہے کیا، 1968 میں انہوں نے فلم زندگی کی موسیقی دی، اردو فلم واہ بھئی واہ کے گانے، جانے والی چیز کا غم کیا کریں نے تو مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے تھے۔
ماسٹر عبداللہ کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں فلم دلیر خان، لاڈو، میدان، کمانڈو، وارث، شہنشاہ، بدمعاش، بدل گیا انسان، اک سی چور، رنگی، کشمکش، رستم، ہیرا پتّھر، دل ماں دا، قسمت ٹیکسی ڈرائیور، بابل، نظام، شریف ہرفن مولا اور ضدّی کے نام سرِفہرست ہیں۔
فنی عظمت
فن موسقی ہم عصر لوگوں میں ماسٹر عبداللہ کی موسیقی سب سے جدا تھی۔ ان کی یہی انفرادیت ان کی سب سے بڑی خوبی بن گئی۔ اصول پسند، سچے اور کام میں کھڑے ماسٹر عبداللہ نے30 سالہ فلمی کریئرمیں 51 فلموں میں میوزک کمپوز کیا تھا، جن میں 10 اردو اور 41 پنجابی فلمیں تھیں۔
موسیقی کا ایک منفرد انداز اور کامیابیاں
فلم انڈسٹری کو کئی بے مثال دھنیں دینے والے موسیقار ماسٹر عبداللہ نے اپنے کمالِ فن سے اس وقت کے مشہور گلوکاروں کو بھی متاثر کیا، انہیں یہ اعزاز ہوا کے ان کی دھنوں پر شہنشاہِ غزل مہدی حسن، میڈم نور جہاں، مالا، تصور خانم اور دیگر بڑے گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔
آخری لمحات کا سفر
فلمی صنعت نےان کی خدمات پرنگار ایوارڈ سمیت متعدد اعزازات سے بھی نوازا، لیکن باکمال موسیقار کے آخری ایام میں کوئی ساتھ دینے والا نہ رہا، غربت اور دمے کے مرض نے انہیں لاچار کردیا۔
31 جنوری 1994 کو انڈسٹری کے افق پر چمکتے ستارے نے وفات پائی اورانہیں لاہور کے سبزہ زار کے قبرستان میں آہوں اور سسکیوں کے ساتھ سپرد خاک کردیا گیا۔ لیکن ان کی دھنیں آج بھی اسی طرح سنی جاتی ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔