حالات زدہ میاں بیوی کا ایک مکالمہ

جمعرات 20 اپریل 2023
author image

عثمان جامعی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ہمارے ملک میں عید سے متعلق کچھ امور طے شدہ ہیں جیسے سویاں بنیں گی، سسرال جانا ہوگا، چاند رات کو بیگمات کی کوئی بھولے سے رہ جانے والی خریداری کے لیے ایک بار پھر بازار میں خوار ہونا اور تیوری پر بَل ڈالے اور سینے میں بلبلاتے الفاظ نکالے بغیر بِل چکانا ہوگا، ہم جیسے مسلمانوں کو نمازِعید کے دوران کن انکھیوں سے ساتھ کھڑے نمازی کے ہاتھ کھولنے اور باندھنے پر نظر رکھنا ہوگی اور پشاور کے صرف عیدین پر طلوع ہونے والے ایک مولانا کا رویت ہلال کمیٹی کے رد میں اعلان سننا ہوگا۔

یہ سب تو یوں ہی ہوگا لیکن اس بار عید جن حالات میں آرہی ہے وہ خاصے مختلف ہیں۔ ایک تو غُرَّہ شوال کی ساری خوشی غُرا غُرا کر حملے کرتی مہنگائی نے غتربود کردی ہے، پھر سال بھر سے جاری سیاسی کشمکش، تیزی سے ہوتے اتار چڑھاﺅ اور حکومت اور عدلیہ کے مناقشے کے اثرات نے لوگوں کی نفسیات کو بھی متاثر کیا ہے اور ان کی سوچ، محاورے اور لفظیات تک تبدیل کردی ہے۔ تخیل کی آنکھ سے دیکھنے پر ہمیں اس عید پر اکثر گھروں میں اس طرح کی گفتگو ہوتی نظر آتی ہے:

‘سُنیں جی! عید پر شلوار قمیص کے ساتھ یہ بھی پہنیے گا ٹانگ پر۔’

‘ارے یہ تو پلاستر ہے!’

‘ہاں نا، دولہا بھائی سے خاص طور پر بنوایا اور منگوایا ہے آپ کے لیے۔ میں نے کہا دولہا بھائی! یہ چھوٹا سا کام بھی نہیں کرسکتے تو آپ کی جناح اسپتال کی نوکری کس کام کی۔’

‘مگر میں پلاستر کیوں باندھوں؟ کئی مہینے پہلے ٹانگ پر جو زخم لگا تھا وہ بھی ٹھیک ہوگیا ہے۔’

‘تو کیا ہوا خان بھی تو پہنتا ہے۔ اللہ کتنا اسمارٹ لگتا ہے پلاستر چڑھا کے۔’

‘اُف مجھے معاف رکھو۔’

‘میری تو کوئی بات سنتے ہی نہیں۔ وہ کتنی خوش نصیب بیویاں ہیں جن کے شوہر سارے فیصلے ان کے کہنے پر کرتے ہیں۔ کاش مجھے بھی ایسا ہی شوہر عطا ہوتا۔’

‘خدا کی بندی۔’

‘بندی نہیں میں بات کر رہی ہوں بندیا۔’

‘اچھا بابا ٹھیک ہے، چڑھا لوں گا پلاستر۔’

‘اللہ آپ کتنے اچھے ہیں میرے کپتان۔’

‘آئے ہائے، لیکن پہلے تو تم مجھے پیار سے میرے سلطان کہتی تھیں۔’

‘وہ والا ڈراما ختم ہوگیا نا، اچھا بتائیں عید پر میٹھے میں کیا بناؤں؟’

‘جو بھی بناﺅ بس پچھلی عید کی طرح مت بنانا۔ میٹھے میں جانے کیا کڑوا آگیا تھا سب تھوتھو کر رہے تھے۔’

‘دیکھیں جی غصہ نہ دلائیں۔ میں میٹھا بناتی ہوں آئین نہیں کہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو کردیا جائے، جو بھی ہو سب ہپ ہپ کرکے کھانا ہوگا۔’

‘اچھا اچھا ٹھیک ہے۔ سنو! مارکیٹ میں ایران سے بہت عمدہ امپورٹڈ کھجوریں آئی ہوئی ہیں لے آؤں؟ ان کا شیرخورمہ بنا لینا۔’

‘خبردار بالکل نہیں۔ امپورٹڈ ہرگز نہیں، ورنہ شیرخورمہ خراب ہوجائے گا۔’

‘اچھا چیخنے کی کیا ضرورت ہے۔’

‘کیوں نہ چیخوں امپورٹڈ کا نام لے کر سارا موڈ خراب کردیا۔ یہ کرتی ہوں بڑے بھیا کے نکاح کے چھوہارے بہت سے رکھے ہیں، ان کا شیرخورمہ بنالیتی ہوں۔’

‘ہاں بالکل۔ بچت بھی ہوگی اور تمہاری بھابھی کی بھی پہلی شادی تھی اس لیے ان چھوہاروں کا شیرخورمہ کھاتے ہوئے عدت پوری ہونے نہ ہونے کا خیال بھی پریشان نہیں کرے گا۔’

‘کیا مطلب؟’

‘ارے ارے بیلن نیچے رکھ دو جان، ایسے ہی کہا تھا۔’

‘اوہ یاد آیا عیدی کے لفافے بنا لیں اور سوچ لیں کون کون اپنے بچوں کے ساتھ آئے گا؟’

‘شبن بھائی فُل کورٹ کے ساتھ آئیں گے، نصیبن خالہ کی اپنی 2 بہوؤں سے لڑائی ہے وہ بس 3 رکنی بینچ لائیں گی اور بابو چچا کے نہ بیوی نہ بچے وہ سنگل بینچ ہیں۔’

‘میں شبن بھائی کی بیگم کو فون کرکے انہیں ان کی نند کے خلاف بھڑکاتی ہوں، ان کی آپس میں لڑائی ہوجائے گی فُل بینچ ٹوٹ جائے گا، ہماری بچت ہوجائی گی کیسا!’

‘ارے واہ کتنی ذہین ہو تم، تمہارا نام جمیلہ کے بجائے عظمیٰ یا عالیہ ہونا چاہیے تھا۔’

‘کتنا بھی مکھن لگانا ہو لگالیں، لیکن ایک بات صاف بتا دیتی ہوں میں اس بار آپ کی امّی، بہنوں اور کسی رشتے دار کے گھر نہیں جاؤں گی۔’

‘کیوں بھئی؟ میرے گھر والے اور عزیز کیا جنازہ ہیں کہ نہیں جاؤ گی۔’

‘برہم کیوں ہورہے ہیں۔ دراصل مجھے لگتا ہے آپ کے گھر والے مجھے قتل کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔’

‘میں بھی تو سنوں کون کر رہا ہے یہ سازش۔’

‘تو سنیے۔ ساس صاحبہ یہ منصوبہ بنائے بیٹھی ہیں کہ مجھے بہانے سے باورچی خانے میں بھیجیں گی وہاں مجھ سے پھٹ پڑنے کو تیار چولہا جلوائیں گی جو پھٹ جائے گا۔ بڑی نند نے سوچ رکھا ہے میری چائے میں زہر ملا دیں گی، چھوٹی نند نے سازش رچی ہے کہ کہے گی بھابھی چلیں چھت پر عید کا چاند دیکھیں اور مجھے سیڑھیوں سے دھکا دے دے گی اور آپ کی خالہ نے خاص طور پر ایک چُھپکلی پالی ہے جو وہ مجھ پر گرا دیں گی تاکہ میں دہشت سے مرجاؤں۔’

‘اور یہ سب تمہیں کس نے بتایا؟’

‘آپ کی چھوٹی پھپھو کے بڑے بیٹے نے۔ یوں سمجھیں کہ وہ آپ کے خاندان کا اعتزاز احسن ہے۔ پارٹی میں آپ کی ہے لیکن حمایت میری کرتا ہے۔ کس سوچ میں گُم ہوگئے؟’

‘سوچ رہا ہوں اگر تمہارا شک واقعی درست ہے اور یہ سازش کامیاب ہوگئی تو میرا اور بچوں کا خیال کون رکھے گا، ہمارے پاس تو متبادل کے طور پر کوئی پروین الٰہی بھی نہیں۔’

‘اللہ نہ کرے آپ کے منہ میں خاک۔’

‘چلو پھر اس معاملے پر خاک ڈالو۔ میں یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوں کہ میرے پاس نوٹ ختم ہوچکے ہیں۔’

‘پریشانی کیسی نوٹ نہیں ہیں تو کسی سے اختلافی نوٹ لکھوا کر کام چلائیں۔’

‘بھئی میں پیسوں کی بات کر رہا ہوں۔ عیدی اور عید پر مہمان داری اور آنے جانے کے خرچے کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے، ساری تنخواہ شاپنگ میں ختم ہوچکی ہے۔’

‘کسی سے قرض لے لیں۔’

‘نہ جانے کتنوں کا قرض ڈکار چکا ہوں، اب جس سے قرض مانگو وہ ضمانت مانگتا ہے۔’

‘میں تو کہتی ہوں پی ٹی آئی میں شامل ہوجائیں، پھر جتنی چاہیں ضمانتیں لے لیں۔’

‘ارے یہ وہ ضمانت نہیں جو چاہنے کی بنیاد پر ملتی ہے۔’

‘ہائے، کاش عید کی مدت بڑھ سکتی۔ یوں ہوتا کہ جب عید کے اخراجات کے پیسے ہوں گے تب عید کرلیں گے۔’

‘عید حکومت کو نہیں کرانا ہوتی، ہمیں کرنا ہوتی ہے، اس لیے مدت میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔’

‘تو کیا ہم خود اس مدت میں اضافہ کرسکتے ہیں؟’

‘اگر کیا تو محلے کی کمیٹی والی خالہ کو رویت ہلال کمیٹی کا فون آجائے گا کہ بی بی! کمیٹی ڈال کر انہیں عید منانے کے پیسے بطور قرض دو۔ یاد آیا، ابھی تک میں جوتے بھی نہیں لے سکا ہوں۔’

‘جوتے میں نے لے لیے، یہ دیکھیں سرپرائز۔’

‘یہ تو جوگرز ہیں میں عید پر شلوار قمیص کے ساتھ جوگرز پہنوں گا؟’

‘تو کیا ہوا! اس میں کیا حرج ہے، میں نے تو اس لیے خریدے کہ جوگرز پہن کر بھاگنا آسان ہوتا ہے۔’

‘ابے تو میں کیوں بھاگوں گا میرا دماغ خراب ہے؟’

‘کیا پتا عید تک آپ کے سیاسی خیالات تبدیل ہوجائیں، اور جوں ہی آواز آئے زمان پارک پہنچو، آپ سب کام چھوڑ چھاڑ کر پہنچ جائیں، اگر وہاں بھاگنے والے حالات پیدا ہوگئے تو؟’

‘بے وقوفی والی باتیں مت کرو، شلوارقمیص کے ساتھ جوگرز نہیں پہنے جاتے، یہی دستور ہے۔’

‘تو دستور کی نئی تشریح کرالیجیے، کوئی اس طرح کی تشریح کہ شلوار کے ساتھ جوگرز پہننا غلط ہے لیکن جوگرز کے ساتھ شلوار پہنی جاسکتی ہے۔’

‘میں کسی کا لاڈلا نہیں جو میرے لیے دستور کی نئی تشریح کردے۔ اگر شلوار کے ساتھ جوگرز پہنے تو اور تو اور ہمارے بچے بھی میرا مذاق اڑائیں گے۔ ارے ہاں اچانک خیال آیا۔۔۔ مجھے لگتا ہے بچے آج کل مجھے نظر انداز کررہے ہیں۔’

‘دراصل پہلے انہوں نے سُنا سپاہ سالار قوم کا باپ ہوتا ہے، پھر انہیں پتا چلا منصفِ اعلٰی قوم کا باپ ہے، اس لیے وہ آپ کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہوگئے ہیں۔ مجھ سے پوچھ رہے تھے ’امی! یہ صاحب جو ہمارے گھر میں رہتے ہیں ہمارے مستقل ابو ہیں نا، مسلسل یہی رہیں گے یا؟’

‘ہونہہ تو تم نے کیا جواب دیا؟’

‘میں نے کہا ہاں بیٹا! یہ تمہارے مستقل ابو ہیں، تو کہنے لگے ’کیا آپ نے انہیں ایکسٹینشن دے دی ہے۔‘ میں نے کہا توبہ کرو، انہوں نے مجھے لو میرج کے ذریعے سلیکٹ تھوڑی کیا تھا، ہماری ارینج میرج تھی۔ وہ ہمیشہ یوں ہی میرے شوہر اور تمہارے ابو رہیں گے جس طرح سیاسی جماعت کا سربراہ تاحیات ہوتا ہے۔’

‘تب تو انہیں مان لینا چاہیے تھا لیکن وہ اب بھی مجھ سے اُکھڑے اُکھڑے ہیں۔’

‘انہیں یقین نہیں آیا، کہنے لگے چھوڑیں امّی سب یہی کہتے ہیں کہ ہم ایک پیج پر ہیں لیکن پھر۔۔۔۔۔’

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp