شہرِ کراچی کے وسط میں بزرگوں کی ایک الگ دنیا آباد ہے۔ ایک وقت تھا جب گھر میں بزرگوں کو باعثِ رحمت و برکت سمجھا جاتا تھا اور بزرگوں کی خدمت کرنا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ معاشرے میں یہ اعزاز کی بات سمجھی جاتی تھی کہ کس نے اپنے بزرگ ماں باپ کی کتنی خدمت کی۔
پھر وقت بدلا، شاید انسان نے ترقی کی اور اتنی کی کہ زندگی کے ضروری عوامل جن سے اس معاشرے کی رگوں میں خون دوڑتا تھا، انہیں اب غیر ضروری سمجھا جانے لگا۔ بین الاقوامی سطح پر ترقی کی یہ معراج برسوں پہلے طے کی جاچکی تھی لیکن پاکستان میں خاندانی نظام جن مضبوط خطوط پر استوار تھا، انہی کے سبب یہاں یہ معاملہ بہت دیر سے پہنچا۔
جی میں بات کر رہا ہوں اولڈ ایج ہومز کی اور آج عید کے روز آپ کو کراچی کے ایسے ہی ایک اولڈ ایج ہوم کی سیر کراتے ہیں جہاں انسان موجود ہیں لیکن اپنوں کو دیکھنے کے لیے ان کی آنکھیں ترس جاتی ہیں، کسی کو اولاد، کسی کو بہن بھائیوں نے یہاں چھوڑ دیا کیونکہ اب انہیں بوجھ سمجھا جانے لگا۔
جن ہاتھوں میں بچے پلے بڑھے، جنہوں نے لکھنا اور بولنا سکھایا اور اس قابل بنایا کہ یہ بچے بڑے ہوکر نہ صرف اس معاشرے کے باعزت شہری بن سکیں بلکہ ان بزرگوں کا بھی سہارا بن سکیں۔ افسوس کہ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ عید جو اپنوں کے ساتھ گزاری جاتی ہے، یہاں تو اپنوں نے ان بزرگوں کو پرایا کرکے چھوڑ دیا ہے۔
مزارِ قائد کے بالکل سامنے واقع ایک عمارت میں 115 ایسے بزرگ شہری آباد ہیں جنہیں کسی نہ کسی بہانے اپنوں نے بیگانہ کردیا۔ چھت کی تلاش انہیں یہاں لے آئی اور یہ یہیں کے ہوکر رہ گئے۔
ویسے تو یہاں ہر بزرگ کی اپنی الگ ہی کہانی ہے لیکن کچھ خاص ہیں۔
جاوید جو 6 سال قبل بے گھر ہوئے لیکن یہاں 6 ماہ قبل ہی آئے ہیں۔ انہوں نے اپنے بارے میں بتایا: ’میری ایک بیوی، ایک 40 سالہ بیٹا اور ایک 30 سالہ بیٹی ہے۔ میں ویل سیٹیلڈ تھا، پراپرٹی کا کام کرتا تھا لیکن ایک حادثے نے میری زندگی بدل ڈالی۔ زندگی اور موت کی کشمکش میں اپنی پوری جمع پونجی بیوی اور بچوں کے نام کردی لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
’مجھے دوبارہ زندگی ملنے پرمعمولاتِ زندگی بحال ہوئے تو گھر والوں کو لگا کہ اب یہ کچھ کما کر نہیں لا رہا اور پھر لڑائی جھگڑے شروع ہوئے۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ مجھے گھر والوں نے گھر سے نکال دیا۔ دوستوں کا سہارا لینا پڑا لیکن گزارا نہ ہونے پر بالآخر دارالسکون پہنچ گیا۔ اب مجھے اپنے بیوی بچوں سے نفرت ہے۔ میری نصیحت ہے کہ اپنے ہاتھ پیر نہ کٹواؤ۔ وہ کہتے ہیں کہ عید کے موقع پر صرف ماں باپ یاد آتے ہیں‘۔
83 سالہ لکھنوی اماں کہتی ہیں کہ ’وہ پاکستان بننے سے قبل پیدا ہوئیں، بعد ازاں پاکستان آگئیں، اچھی زندگی گزاری لیکن پھر شوہر کا انتقال ہوگیا اور زندگی یکدم بدل گئی۔ بیٹی امریکا چلی گئی، بیٹے کو بھی کوئی فکر نہ رہی۔ مجبوراً یہاں آنا پڑا۔ عید کے موقع پر اپنوں کی یاد تو بہت آتی ہے لیکن اب ہم سب نے اپنے اپنے مزاج کے حساب سے رشتے بنا لیے ہیں‘۔
ان بزرگ شہریوں کی اکثریت یہاں خوش دکھائی دیتی ہے۔ جب اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی گئی تو زیادہ تر نے اسے اپنا معمول بتایا کہ اس عمر میں ہمیں صبح 6 بجے ناشتے کی طلب ہوتی ہے جو گھروں میں ناممکن سی بات ہوگئی ہے۔
کراچی میں 12 بجے کے بعد صبح ہوتی ہے، یہاں وقت پر ناشتہ ملنے کے بعد، سب کامن روم میں اکٹھے ہوکر ٹی وی دیکھنے کے ساتھ ساتھ گپ شپ لگاتے ہیں۔ یوں پتہ ہی نہیں چلتا اور 12 بجے کھانا دے دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد عصر تک آرام کیا جاتا ہے۔ پھر جس کی جس کے ساتھ بنتی ہے وہ اس کے ساتھ مصروف ہوجاتا ہے۔
کسی کو پینٹنگ کا شوق ہے تو وہ اسے پورا کرتا ہے۔ کوئی گاتا ہے تو وہ اپنا شوق پورا کرتا ہے۔ یوں گپ شپ میں رات کے کھانے کا وقت ہوتا ہے۔ جس کے بعد کسی کو ایکسرسائز کرنا ہو تو انتظام موجود ہے۔ کوئی کیرم کھیلنے لگ جاتا ہے اور کوئی کامن روم میں ٹی وی دیکھنے میں لگ جاتا ہے، کسی کو مطالعہ کا شوق ہے تو وہ اپنے کمرے میں جاکر یہ شوق پورا کرسکتا ہے۔
دارالسکون کے تمام انتظامات دیکھنے والی سسٹر فضیلت نے وی نیوز کو بتایا کہ ’یہاں 115 بزرگ شہری رہتے ہیں۔ یہیں ہم نے علاج کے ساتھ ساتھ ورزش اور دیگر مثبت سرگرمیوں کا انتظام کر رکھا ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ ان لوگوں کو گھر کی کمی محسوس نہ ہو۔ یہاں ہم نے ہر شخص کو آزاد چھوڑا ہوا ہے، کھانے پینے اور سونے کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ مختلف ڈونرز کی مدد سے یہ سارے انتظامات کرتے چلے آرہے ہیں‘۔
عید کی خوشی میں ان کے اپنے ان بزرگوں کو یاد رکھیں نہ رکھیں لیکن مخیر حضرات ان بزرگ شہریوں کے چہروں پر خوشی لانے کے بہانے ضرور ڈھونڈتے ہیں۔ انہی کے تعاون سے ہر سال کی طرح اس بار بھی بھرپور انداز میں عید منائی گئی۔ مہندی لگی، چوڑیاں پہنائی گئیں، کھانے پیش کیے گئے، ہال میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں کوئی ناچا، کوئی گنگنایا، کسی نے شاعری کی تو کسی نے سب کو ہنسایا۔
دارالسکون میں بسنے والے ہر بزرگ کے پاس تجربات کے کئی سال ہیں، ان کے ساتھ بیٹھ کر انسان کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ یہ بزرگ وہاں نہیں ہیں، جہاں انہیں ہونا چاہیے تھا۔ کاش! یہ بھی اپنے پوتے نواسوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے اپنی زندگی کا آخری حصہ خوش گوار بنا سکتے۔