خط لکھنے والوں کے نام

اتوار 2 فروری 2025
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسلام آباد ہائیکورٹ میں 3ججز کے تبادلے سے طوفان آ گیا ہے۔ خط لکھنے والوں کو جواب کی توقع تھی مگر جواب اتنا دو ٹوک ہوگا، اس کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ اب ہزیمت اور شکست خط لکھنے والوں کے چہروں پر لکھی ہے۔ اب پشیمانی اور پریشانی ان کا مقدر ہے۔ بیس، بیس سال کی پلاننگ دھری رہ گئی ہے۔ خود کو ہی ترقی دینے کی تمنا دل میں ہی رہ گئی ہے۔ اب چائے کی ایک پیالی ہے اور اس میں بپا طوفان کے سوا کچھ بھی نہیں بچا، اب اٹل فیصلہ ہو چکا ہے۔

اس قوم کو گمراہ کرنے والے اتنے بے شمار ہیں کہ سچ کہیں اس ہجوم میں گم ہو جاتا ہے۔ لوگ اپنے اپنے سچ تراش رہے ہوتے ہیں۔ اس قبیح رسم کے پیچھے ذاتی مفاد بھی ہوتا ہے، ہوس بھی ہوتی ہے اور حرص بھی کارفرما ہوتی ہے۔

 اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کے تبادلے کے حوالے سے کہانیاں سنانے والے بے شمار  سچ بولنے والے خال خال۔  اس ماحول میں درست خبر تک رسائی کسی کسی کو ہو گی اور حقیقت سے کوئی کوئی واقف ہو گا۔ باقی عوام  یوٹیوبرز کے تھمبنیل کے رحم و کرم پر ہو گی۔ وہ جو چاہیں گے سچ بتائیں گے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں 3ججز کے تبادلے کو تنازعہ بنانے والے کون ہیں؟ بظاہر یہ وہ لوگ جو عدالتوں میں اداروں کی مداخلت کے خلاف ہیں۔ یہ نعرہ بھی یہی لگائیں گے، نظریہ بھی یہی بتائیں گے لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔ ان میں بہت سے وہ ہیں جو جمہوریت پر شب خون کے درمیان خاموش رہنے کے ہنر سے واقف ہیں۔ یاد ہے نا! شوکت عزیز صدیقی نے جب جنرل فیض کے حوالے سے سچ بولا تو یہ سب خاموش رہے۔ ان میں سے کسی نے خط نہیں لکھا تھا، ان میں سے کسی نے احتجاج نہیں کیا تھا۔ اس زمانے میں چونکہ ذاتی مفادات آڑے آ چکے تھے اس لیے سب کو چپ سادھ گئی تھی۔

 ان مٰں بڑے بڑے منصبوں پر بیٹھے وہ لوگ بھی  ہیں جو مشرف پر ایمان لائے اور جمہوریت کو داغدار کرنے کا سبب بنے۔ ایک ڈکٹیٹر کے سامنے چپ رہنے والوں جمہوریت میں کیسے کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں یہ پہلی دفعہ دیکھا ہے۔

عدالتوں کا المیہ یہ ہے کہ اب انصاف کو تحریک انصاف سے الگ کیا جا رہا ہے۔ ’ہائے رافعہ!‘  والے ججز ہوں یا رقعے بازی کرنے والے منصفین ۔ ان کا مرشد ایک سیاسی جماعت ہی رہی ہے اور یہ سب اسی کے رنگ میں رنگے ہیں۔ یہ نہ آئین کو مانتے ہیں نہ قانون ان کے لیے اہم ہے نہ پارلیمان کی ان کی نظر میں کوئی عزت ہے نہ عوامی نمائندگان کی ان کے گمان میں کچھ حیثیت ہے۔

 یہ انصاف کے ثاقب نثاری کردار ہیں۔ ان سب کا ہیرو اسی طرز کا انصاف ہے۔ جو ڈیم بھی بناتا تھا، مانیٹرنگ جج بھی لگاتا تھا۔ اسپتالوں میں سلطان راہی بن کر چھاپے بھی مارتا تھا مگر انصاف نہیں کرتا تھا۔

کوئی بات آئین سے ماورا ہو اور در انصاف سے احتجاج کی آواز بلند ہو تو اچھا لگتا ہے لیکن یہ کیا تماشا ہے کہ ایک کام آئین کے مطابق ہوا ہے۔ قانون پر عمل پیرا ہو کر کیا گیا ہے تو اس پر احتجاج کے کیا معنی؟

یاد رکھیں! اگر وکیل اور جج   آئین پر عمل پیرا ہونے پر احتجاج کریں گے تو کچھ نہیں بدلے گا۔ صرف در انصاف کی چوکھٹ مزید داغدار ہو گی۔ انصاف بہم پہنچانے میں ہمارا نمبر اور گہرائیوں میں گرجائے گا۔ ابھی دنیا ہمارے ہاں انصاف کی پامالی پر پہلے صرف طنز کرتی ہے پھر ٹھٹھے اڑائے  گی۔  جس کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی ہو آئین کا آرٹیکل 200 پڑھ لے۔ واضح ہو جائے گا کون کس کی زبان بول رہا ہے کہ آئین کیا کہتا ہے اور چند منصفین کی کیا خواہش ہے؟

ججز کا تبادلہ پہلی دفعہ نہیں ہوا۔ اس سے پہلے بھی کئی دفعہ ایسا ہو چکا ہے۔ 2ججز  جسٹس سردار محمد اسلم اور جسٹس ایم بلال خان لاہور سے اسلام آباد  ٹرانسفر ہوئے اور چیف جسٹس بنے تو کسی نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ جسٹس اقبال حمید خان کا نام بھی اس ضمن میں قابل ذکر ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ ایکٹ 2010 کے سیکشن 3کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ 12ججز پر مشتمل ہو گی اور اس میں تمام صوبوں کو شمولیت دی جائے گی۔ اس ایکٹ کو پڑھنے کے بعد کیا کسی اور دلیل کی گنجائش رہ جاتی ہے؟

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ججز کی ٹرانسفر اگر صرف صدر پاکستان نے کی ہوتی تو اس پر سیاسی عمل کا شبہ بھی ہو سکتا تھا۔ المیہ یہ ہے کہ احتجاجیوں کو اس بات کا بھی لحاظ نہیں  کہ ان تبادلوں میں پاکستان کی تمام 5ہائیکورٹس کے چیف جسٹسز سے مشاورت کی گئی اور ان کی معاونت اور منشا سے یہ تبادلے ہوئے ہیں۔

سیاسی بات لوگوں کو سمجھ آتی ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ  اب وہ وقت  ہے جب عدالتوں میں ایمان دار جج کم ملتے ہیں اور عمران دار دار جج زیادہ نظر آتے ہیں۔

ثاقب نثار کے لگائے ہوئے پودے اب خود رو جڑی بوٹیوں کی صورت عدالت میں جگہ جگہ پھیلے ہوئے ہیں۔ ان خود رو جڑی بوٹیوں پر نہ تو آئین کی کتاب کا کچھ اثر ہوتا ہے نہ قانون کی بات انہیں سمجھ آتی ہے۔ یہ ثاقب نثار کے پیرو کار ہیں اور اسی طرح کا نظام انصاف چاہتے ہیں۔

یہ کہانی تو سب سن چکے ہیں کہ عمران خان کو کیسے حکومت میں لایا گیا، کس کس نے ذہن سازی کی، کس کس نے ہاتھ تھاما، کس کس نے گود میں اٹھایا لیکن یہ کہانی آپ نے کم ہی سنی ہو گی کہ عمران خان کے زہر سے اس  ملک کو پاک کرنے کے لیے کیا کیا  جتن کیے جا رہے ہیں۔ یہ کہانی آپ نے اس لیے نہیں سنی کہ یہ کہانی ابھی تحریر ہو رہی ہے۔

اس نئی کہانی میں طاقتور لوگ اپنی غلطی کا اعتراف کر رہے ہیں، اپنی صفوں کو درست کر رہے ہیں، اپنے گھر کی صفائی کر رہے ہیں۔ یہ مشکل کام ہے لیکن یہ اس لیے کیا گیا کہ جب عمرانی زہر کو دوسرے اداروں سے نکالنے کی کوشش کی جائے تو کوئی انگلی نہ اٹھا سکے ۔

 عدلیہ میں تبادلے پارلیمان کا استحاق بن چکے ہیں، چھبیسویں آئینی ترمیم نے پارلیمان کا لوٹا ہوا حق واپس کر دیا ہے۔ اس کے خلاف جو بھی احتجاج کرے گا وہ آئین و قانون کی حکمرانی کے خلاف ہو گا۔

یاد رکھیے! صفائی کا عمل عدلیہ تک نہیں رکے گا، بلکہ فیک نیوز والے بھی اس کی  زد میں آئیں گے۔  جلد یا بدیر فیض حمید سے فون کروا کر چینلوں پر نوکریاں پانے والوں پر بھی تلوار چلے گی۔ ایک جانب سے خط لکھنے والوں کو جواب آ چکا ہے۔ رقعہ دوسری جانب سے بھی روانہ کیا جا رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp