شمالی یورپی ممالک میں شراب کے استعمال میں کمی اور لوگوں کی صحت میں بہتری آئی ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ شراب کے استعمال میں کمی کی وجہ یہ ہے کہ اس کی فروخت کو ریاستی انتظام کے تحت لے آیا گیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے دیگر ممالک کو بھی یہی طریقہ اپنانا کے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سے شراب نوشی کے طبی نقصانات پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔
یہ بھی پڑھیں: ’شراب نوشی سے کینسر میں مبتلا ہونے کاخطرہ بڑھ جاتا ہے‘
شمالی یورپ کے ممالک (فن لینڈ، آئس لینڈ، ناروے، سویڈن اور جزائر فیرو) میں شراب کی فروخت کے بیشتر حقوق ریاستی اداروں (نارڈک الکوحل مونوپلیز) کے پاس ہیں جو نچلی سطح پر شراب کی فروخت کے حوالے سے پالیسیاں بنانے اور ان پر عملدرآمد کے ذمہ دار ہیں۔ ان اداروں نے شراب کی دستیابی کو محدود کرنے، روزمرہ استعمال اور کھانے پینے کی اشیا بیچنے والی دکانوں اور نجی خوردہ فروشوں کو شراب کی فروخت سے روکنے جیسے اقدامات اور دیگر پالیسیوں کے ذریعے شراب کے استعمال کو کم کرنے میں مؤثر کردار ادا کیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او/یورپ کی حالیہ رپورٹ بعنوان ’نارڈک الکوحل مونوپلیز: شراب سے متعلق جامع پالیسی اور صحت عامہ کی اہمیت پر ان کے کردار کا ادراک‘ میں بتایا ہے کہ شمالی یورپی ممالک میں شراب نوشی کی شرح میں کمی لانے کے طریقے مؤثر ثابت ہوئے ہیں جن سے دیگر یورپی ملک بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
’منافع نہیں، صحت‘
شمالی یورپ میں شراب نوشی کی شرح نقصان دہ حد تک زیادہ ہے اور اس سے وابستہ طبی مسائل بھی اتنے ہی زیادہ ہیں۔ ’ڈبلیو ایچ او‘ کے مطابق، فی الوقت یورپی یونین شراب نوشی میں کمی لانے کے حوالے سے درست سمت میں گامزن نہیں ہے۔ ان حالات میں صحت عامہ کے حوالے سے مؤثر پالیسیوں کی ضرورت رہتی ہے جبکہ ’نارڈک الکوحل مونوپلیز‘ ایسے ہی طریقہ ہائے کار کی ایک کامیاب مثال ہے۔
اس طریقہ کار میں شراب کی فروخت میں تمام تر توجہ محض منافع کے حصول پر مرکوز نہیں ہوتی بلکہ صحت عامہ کو بھی مدنظر رکھتا جاتا ہے۔ اس ضمن میں شراب کی دستیابی کے مقامات کو محدود رکھنے کے علاوہ اس کی فروخت کے اوقات (دورانیے) میں بھی کمی لائی گئی ہے، مخصوص حد سے کم عمر کے لوگوں کو شراب کی فروخت سختی سے ممنوع ہے اور اس کی رعایتی قیمت پر فروخت اور تشہیر کو روکنے کے اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔
طبی خطرات کا تدارک
ڈبلیو ایچ او/یورپ میں شراب، منشیات اور جیلوں میں صحت کے معاملات سے متعلق علاقائی مشیر کیرینا فیریرا بورغیس کا کہنا ہے کہ جن ممالک میں شراب کی فروخت کا انتظام ریاستی اداروں کے پاس ہے وہاں اس کا فی کس استعمال دیگر ممالک کے مقابلے میں کہیں کم ہے جبکہ ان ممالک میں جگر کی بیماریوں، سرطان اور امراض قبل کی شرح کے علاوہ زخمی ہونے اور پانی میں ڈوب کر ہلاکتوں کے واقعات بھی دیگر سے کم ہوتے ہیں۔
نئی پالیسیاں اور خطرات
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عوامی سطح پر ایسے اداروں کو حاصل حمایت اور ان سے ہونے والے طبی فوائد کے باوجود شمالی یورپ کے متعدد ممالک میں نچلی سطح پر شراب کی فروخت کو مکمل طور پر نجی شعبے کے حوالے کیا جا رہا ہے جس سے متذکرہ بالا فوائد زائل ہونے کا خدشہ ہے۔
مزید پڑھیے: دنیا بھر میں ہر سال کتنے افراد شراب نوشی سے ہلاک ہوجاتے ہیں؟
مثال کے طور پر، حالیہ دنوں فن لینڈ میں ایسی پالیسی اختیار کی گئی ہے جس کے تحت بڑی مقدار میں شراب کو ریاستی انتظام کے تحت چلائی جانے والی مخصوص دکانوں سے ہٹ کر بھی فروخت کیا جا سکے گا جبکہ اس کی ہوم ڈلیوری کے حوالے سے مشاورت بھی جاری ہے۔ اسی طرح، سویڈن میں مونوپلیز کی دکانوں کو دیے گئے شراب کی آن لائن فروخت کے خصوصی حقوق کو عدالت میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔
کیرینا فیریریرا بورغیس کا کہنا ہے کہ شراب کے استعمال کا اس بات سے گہرا تعلق ہوتا ہے کہ یہ کیسے، کب اور کہاں فروخت ہو گی۔ اگر اس فروخت کو نجی شعبے کے حوالے کر دیا گیا تو پھر اس کا استعمال بھی بڑھ جائے گا۔