دنیا بھر میں اہلِ ایمان عید کا تہوار اپنی روایت کے مطابق مناتے ہیں۔ ایسے میں روایات کی امین سرزمین کوئٹہ کے باسی عید کے پُرمسرت تہوار پر نمازِ عید کی ادائیگی کے بعد مساجد میں ناشتے کا دسترخوان بچھاتے ہیں۔
اس دسترخوان پر انواع و اقسام کے پکوان ہوتے ہیں جو اہلِ علاقہ اپنے اپنے گھروں میں خصوصی طور پر تیار کرواتے ہیں اور مسجد میں لے آتے ہیں۔ پھر یہاں مل بیٹھ کر عید کی خوشیاں دستر خوان پر بانٹتے ہیں۔
کوئٹہ کے وسطی علاقوں میں وقت کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ یہ رواج ماند پڑگیا ہے البتہ شہر کے پشتون آبادی والے نواحی علاقوں میں آج بھی یہ رواج قائم ہے۔
ناشتے کے اس دسترخوان پر ہر قسم کا کھانا موجود ہوتا ہے۔ ان کھانوں میں بلوچستان کے تمام ثقافتی پکوان جیسے روش، کابلی پلاؤ، چلو کباب اور میٹھے میں شیر خورمہ اور فرنی دسترخوان کی رونق میں مزید اضافہ کردیتی ہیں جبکہ یہ پکوان اہلِ محلہ اپنے گھروں سے روایتی تھال میں خوبصورتی سے سجا کر مسجد میں لاتے ہیں۔ دسترخوان پر علاقے کے تمام نوجوان بچے اور بوڑھے مل بیٹھ کر ان لذیذ کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ناشتے کے اس دسترخوان پر ایک خصوصی تھال سجایا جاتا ہے۔ یہ تھال امام مسجد کے لیے تیار کیا جاتا ہے جس میں قندھاری نان، ایک سالن کی ڈش، چاول سے تیار ایک پکوان جبکہ میٹھے کا ہونا لازم ہے۔ اس تھال کو سب سے پہلے امام مسجد کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جہاں دعا شکر کے بعد ناشتے کا باقاعدہ آغاز کیا جاتا ہے۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے پشتون آباد کے رہائشی اسلم خان بتاتے ہیں کہ ’عید کے موقع پر وہ اپنے والد کے ہمراہ جامعہ مسجد پشتون آباد میں آیا کرتے تھے جہاں نمازِ عید کی ادائیگی کے بعد گھر سے خوبصورت تھال سجا کر مسجد لایا جاتا تھا اور تمام اہلِ علاقہ ناشتے سے لطف اندوز ہوتے تھے‘۔
اسلم خان نے بتایا کہ ’اہلِ محلہ کے ساتھ عید پر ناشتہ کرنے کا اصل مقصد ایک دوسرے کے معاشی و گھریلو مسائل سے متعلق آگاہ ہونا ہوتا ہے۔ اس محفل میں تمام لوگ جہاں ایک دوسرے کے مسائل سے آگاہ ہوتے ہیں وہاں ملکی و صوبائی سیاست، بلوچستان کی روایات سمیت دیگر امور پر بھی بات چیت ہوتی ہے‘۔
اسلم خان نے مزید بتایا کہ ’اس روایت کو زندہ رکھنے کے لیے آج بھی وہ، ان کے بھائی اور ان کی تیسری نسل عید کے اس دسترخوان کا حصہ بنتی ہے تاکہ اس رواج کو اگلی نسلوں تک منتقل کیا جاسکے‘۔
پشتون آباد کے رہائشی شبیر خان کہتے ہیں کہ ’ماضی میں ناشتے کی روایت آب و تاب سے زندہ تھی۔ عید کے موقع پر محلے کے تمام مرد یکجا ہوکر اپنے ہاتھوں سے دسترخوان سجاتے تھے۔ ناشتے کی اس ریت سے جہاں باہمی ہم آہنگی کو فروغ ملتا تھا وہیں علاقے کے بزرگ حضرات دین، معاشرت اور بھائی چارے سے متعلق نوجوان نسل کو آگاہ کرتے تھے، بعدازاں بچوں کو علاقے کے تمام بزرگوں کی جانب سے عیدی دی جاتی تھی‘۔
شبیر خان کہتے ہیں کہ ’وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ روایت دم توڑتی جارہی ہے، شہر کے وسطی علاقے میں ناشتے کے دسترخوان کا رواج مکمل طور پر ختم ہوگیا ہے تاہم نواحی علاقوں میں اب بھی یہ روایت زندہ ہے‘۔
کوئٹہ کے سینیئر صحافی زین الدین نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’نواں کلی میں بھی عید کے موقع پر مساجد میں ناشتہ کرنے کی خوبصورت روایت صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ اس میں اہلِ علاقہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ یہ رواج ہمسائیوں کو مزید یکجا کردیتا ہے اور محلہ ایک گھر کی مانند ہوجاتا ہے‘۔
کوئٹہ میں نہ صرف عید کی صبح مساجد میں اس منفرد ناشتے کی روایت قائم ہے بلکہ عید کے دن اسی انداز میں لوگ اپنی بیٹھکوں میں بھی دوپہر اور رات کے کھانے کا بھی خوب اہتمام کرتے ہیں، وہاں دوست احباب اور مختلف گھرانے باہم مل جل کر میٹھی عید کے میٹھے لمحوں کو مزید میٹھا کرتے ہیں۔