یہ تحریر ابتدائی طور پر گزشتہ برس شائع کی گئی تھی جسے آج عیدالفطر کی مناسبت سے وی نیوز کے قارئین کے لیے دوبارہ پیش کیا جارہا ہے۔
چند روز قبل میں نے کہیں پڑھا کہ عثمانی ترکوں کے زمانے میں یہ روایت تھی کہ عید الفطر کی صبح جب شوہر حضرات عیدگاہ سے گھر واپس آتے تو بیگمات فوراً انہیں قہوہ پینے کو دیتیں۔ شوہر حضرات قہوہ نوش جان کرلیتے تو اس خالی پیالی میں سونے کی انگوٹھی رکھ کر بیگم کو بطور تحفہ پیش کرتے۔
یہ رسم ’حق نمک‘ کہلاتی تھی اور اسے ماہِ رمضان کے دوران سحری وافطاری میں بیگم کی انجام دی گئی خدمات کے لیے اظہارِ تشکر سمجھا جاتا تھا۔ یہ روایت آج بھی سوڈان، لیبیا، شام اور افریقہ کے بعض علاقوں میں رائج ہے۔
دنیا کے ہر مذہب اور ہر خطے میں خوشی کے تہوار منائے جاتے ہیں۔ عیسائیت میں کرسمس، یہودیت میں سبت اور یوم کپور، ہندو مت میں دیوالی اور ہولی، سکھوں میں بیساکھی اوربہائیوں میں نوروز کے تہوار مشہور ہیں۔
اسلام کی آمد کے بعد مسلمانوں کو 2 عیدیں منانے کا تحفہ عطا ہوا۔ ان میں سے عیدالفطر جسے میٹھی عید یا چھوٹی عید کہا جاتا ہے، رمضان المبارک کے اختتام کے بعد شوال کے پہلے دن منائی جاتی ہے جبکہ عیدالاضحی جسے نمکین عید یا بڑی عید کہا جاتا ہے ذی الحج کے مہینے کی 10 تاریخ کو منائی جاتی ہے۔
عیدالفطر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تو بچوں کی عید ہے۔ انہیں نئے کپڑے اور نئے جوتے پہنائے جاتے ہیں اور ساتھ ہی انہیں کچھ رقم بطور تحفہ پیش کی جاتی ہے جسے ’عیدی‘ کہتے ہیں۔ دنیا کے ہر مسلمان ملک میں عید کا تہوار منانے کا طریقہ مختلف ہے مگر عیدی کا تصور ایک جیسا ہے۔
اسلام کے آغاز میں بچوں کو عیدی دینے کی کوئی روایت نہیں ملتی، اب یہ روایت کب اور کہاں سے شروع ہوئی اس کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں۔ وکی پیڈیا بتاتا ہے کہ عیدالفطر کے موقع پر عیدی یا تحفے تحائف دینے کی روایت کا آغاز مصر سے ہوا جہاں عید کے موقع پر خلیفہ وقت اپنی فوج کے جرنیلوں اور سپاہیوں کو تحفے تحائف دیا کرتے تھے۔ ان کی دیکھا دیکھی حکومت کے دیگر امرا نے بھی اپنے ملازمین کو تحفے تحائف دینا شروع کردیے۔ جب حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوا تو ان تحفے تحائف کی نوعیت بھی تبدیل ہوگئی اور نہ صرف فوج کے ملازمین بلکہ عوام الناس میں بھی روپے پیسے اورعید کے جوڑے بطور عیدی دیے جانے شروع ہوگئے۔
عوام کو اپنی حکومت کی جانب سے تحفے ملنا شروع ہوئے تو انہوں نے اپنے بچوں کو رقم اور لباس تقسیم کرنے شروع کردیے۔ مصر کی حکومت تو داستان پارینہ بن گئی لیکن عیدی کی روایت باقی رہ گئی۔ یہ روایت مصر سے آگے بڑھی اور اب دنیا کا شاید ہی کوئی اسلامی ملک ایسا ہوگا جہاں بچوں کو عیدی نہ دی جاتی ہو۔ بچے اپنے بڑوں سے لی ہوئی عیدی اپنی ضرورت کی چیزوں پر خرچ بھی کرتے ہیں اور اس میں سے کچھ رقم بچا بھی لیتے ہیں۔
کیا اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب میں بھی خوشی کے تہواروں پر بچوں کو تحفے تحائف دینے کی روایت موجود ہے، اس موضوع پر ہمارے مرحوم دوست اختر بلوچ نے بڑی شاندار تحقیق کی تھی۔
وہ کراچی میں آباد عیسائی، ہندو، سکھ، پارسی اور بہائی مذہب کے افراد سے ملے اور ان سے پوچھا کہ کیا ان کے مذہب میں بھی اس نوعیت کی کوئی روایت پائی جاتی ہے۔ معلوم ہوا کہ عیسائیت میں کرسمس کے موقع پر نہ صرف سانتاکلاز بچوں میں تحفے تقسیم کرتا ہے بلکہ ماں باپ بھی بچوں سے پوچھتے ہیں کہ انہیں کس چیز کی ضرورت ہے۔ بچے اپنے ماں باپ کو اپنی ضرورت بتاتے ہیں اور اگر ماں باپ اپنی حیثیت کے مطابق یہ فرمائش پوری کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں تو وہ انہیں وہ چیز فراہم کردیتے ہیں۔
ہندوئوں میں ہولی اور دیوالی میں تو تحفے تحائف یا عیدی سے ملتی جلتی کوئی رسم نہیں ملتی البتہ رکشا بندھن کے موقع پر جب کوئی لڑکی کسی لڑکے کو اپنا بھائی بناتی ہے اور اسے راکھی باندھتی ہے تو اس وقت لڑکا اپنی اس حقیقی یا منہ بولی بہن کو بطورِ محبت کچھ رقم پیش کرتا ہے۔
اختر بلوچ نے لکھا ہے کہ سکھوں کے تہواروں کے موقع پر ایسی کوئی روایت موجود نہیں، البتہ پارسی مذہب کے پیروکار اپنے تہواروں کے موقع پر بچوں کو کچھ رقم بطور تحفہ پیش کرتے ہیں۔ بہائی مذہب کے پیروکار بھی نوروز کے موقع پر بچوں کو نقد رقم دیتے ہیں اور اسے عیدی ہی کہتے ہیں۔
ہندوستان میں مسلمانوں کے بڑے تہذیبی مراکز میں دہلی اور لکھنؤ کے نام سرِفہرست ہیں۔ دہلی کی تاریخ پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ گھر کے بزرگ عید کی نماز ادا کرنے کے بعد نہ صرف بچوں کو کچھ رقم بطور عیدی عطا کرتے تھے بلکہ گھر آنے والے مہمانوں اور گلی سے گزرنے والے سودا سلف بیچنے والوں اور پھیری والوں کو بھی خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹاتے تھے۔ کسی کو روپیہ، کسی کو اٹھنی اور کسی کو چونی اور دونی غرض یہ سلسلہ دن بھر چلتا رہتا تھا۔
مہیشور دیال نے اپنی کتاب عالم میں انتخاب، دلی میں لکھا ہے کہ عید کے دن دوست احباب رشتے دار سب ایک دوسرے کے گھر جاتے اور عید مبارک کہتے ہیں۔ یہ آنا جانا رات تک لگا رہتا، شام کے وقت بڑے بھائی چھوٹی بہنوں کے یہاں اور باپ اپنی بیٹیوں کے یہاں عیدیاں دینے آتے، مبارک باد دے کر گلے ملتے اور سوئیاں کھا کر جاتے۔
شاہد احمد دہلوی نے اجڑا دیار میں بھی اس رسم کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ ایسی ہی روایتیں لکھنؤ میں بھی موجود تھیں جس کا تذکرہ منشی پریم چند کی مشہور کہانی عید گاہ میں بھی ملتا ہے جب چھوٹا بھائی عید کی نماز کے بعد لگنے والے بازار سے اپنے لیے کچھ نہیں خریدتا بلکہ اپنی بہن کو تحفے میں دینے کے لیے ایک چمٹا خرید لیتا ہے تاکہ روٹی پکاتے ہوئے اس کے ہاتھ نہ جلیں۔
پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک میں عید کے موقع پر بچوں میں تقسیم کرنے کے لیے نئے کڑک نوٹ حاصل کرنے کی روایت بھی موجود ہے۔ اب ان نوٹوں سے گفٹ پیک بھی بنائے جانے لگے ہیں جن میں ٹافی، بسکٹ اور چاکلیٹ رکھ کر بچوں کو بطور عیدی پیش کیا جاتا ہے۔ بچوں کو یہ تحفے ملتے ہیں تو ان کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔