بھارت رواں برس چین سے کس میدان میں سبقت لے جائے گا؟

بدھ 19 اپریل 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بھارت کی تیزی سے بڑھتی آبادی کے پیش نظر یہ امکان پیدا ہوگیا ہے کہ رواں سال کے وسط تک یہ نفوس کے اعتبار سے چین پر سبقت لے جاتے ہوئے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے جاری کردہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت سال 2023 کے وسط تک چین کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بننے کے لیے تیار ہے۔

مذکورہ مدت تک ہندوستان کی آبادی ایک ارب 42 کروڑ 86 لاکھ تک پہنچنے کی توقع ہے اس طرح اس کی آبادی چین کے مقابلے میں 29 لاکھ زائد ہوجائے گی۔ چین کی آبادی سال رواں کے وسط تک ایک ارب 42 کروڑ 57 لاکھ نفوس پر مشتمل ہوگی۔

گزشتہ 70 برسوں کے دوران ان دو ایشیائی ممالک کی مجموعی آبادی دنیا کی کل آبادی کا ایک تہائی ہوچکی ہے۔

چین کی شرح پیدائش میں حال ہی میں کمی آئی ہے اور گزشتہ سال اس کی آبادی سنہ 1961 کے بعد پہلی مرتبہ کم ہوئی ہے۔

بھارت میں آخری مردم شماری کب ہوئی تھی؟

اقوام متحدہ پاپولیشن فنڈ کی اسٹیٹ آف ورلڈ پاپولیشن رپورٹ میں فراہم کردہ ہندوستان کے بارے میں اس پیشن گوئی کی بنیاد اس بات پر ہے کہ سنہ 2011 سے ملک میں کوئی مردم شماری نہیں ہوئی ہے۔

کو بھارت میں ہر 10 سال بعد مردم شماری ہوتی تھی لیکن سنہ 2021 کی مردم شماری کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث منسوخ کر تے ہوئے اسے پہلے سنہ 2022 تک اور پھر سال 2024 تک ملتوی کردیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے آبادی کے تخمینے اور پروجیکشن کے چیف پیٹرک گیرلینڈ کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی آبادی کے حقیقی حجم کے بارے میں پیش کیے جانے والے اعداد و شمار جزوی و نامکمل ہوتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس ہندوستان سے آنے والے حقیقی سرکاری اعداد و شمار نہیں ہیں‘۔

اقوام متحدہ نے کہا کہ ان کے تخمینے میں چین کے دو خصوصی انتظامی علاقوں – ہانگ کانگ اور مکاؤ کی آبادی شامل نہیں ہے جن کی مجموعی آبادی 80 لاکھ سے زائد ہے جبکہ اس میں تائیوان کی آبادی بھی شامل نہیں جس کے بارے میں چین کا خیال ہے کہ وہ اس کا ہی ایک صوبہ ہے اور ایک نہ ایک دن اس سے آن ملے گا۔ دوسری جانب تائیوان اپنے آئین اور جمہوری طور پر منتخب رہنماؤں کے ساتھ خود کو چینی سرزمین سے الگ دیکھتا ہے۔

جہاں تک دنیا کی کل آبادی کا تعلق ہے یہ نومبر 2022 میں 8 ارب سے تجاوز کر چکی ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ پہلے کے مقابلے میں اتنی تیزی سے نہیں ہورہا اور دیکھا جائے تو عالمی آبادی اس مرتبہ سنہ 1950 کے بعد سب سے سست رفتار سے بڑھی ہے۔

چین کی آبادی میں کمی کی وجوہات

چین اور بھارت دونوں میں شرح پیدائش میں کمی واقع ہوئی ہے اس کا مطلب ہے کہ چین میں آبادی اگلے سال کم ہونا شروع ہو جائے گی باوجود اس کے کہ چین نے سنہ 2016 میں اپنی ایک بچہ کی پالیسی کو ترک کر دیا تھا اور جوڑوں کو دو یا دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب دی تھی۔

چین میں آبادی کمی کی طرف جانے کی وجوہات میں مہنگائی کے باعث بڑھتے اخراجات اور کام کرنے والے افراد میں خواتین کی بڑھتی تعداد شامل ہیں۔

ہندوستان میں بھی حالیہ دہائیوں میں شرح پیدائش کافی حد تک گر گئی ہے جو کہ سنہ 1950 میں فی عورت 5 اعشاریہ  7بچے تھی جبکہ اب یہ شرح کم ہوکر فی عورت 2 اعشاریہ 2  ہوگئی ہے۔

کیا زیادہ آبادی بھارت کے لیے نقصان دہ ہوگی؟

اقوام متحدہ پاپولیشن فنڈ کے ذریعے کیے گئے سروے میں ہندوستانیوں کی اکثریت نے کہا کہ ان کی آبادی اور شرح پیدائش بہت زیادہ ہے۔ تقریباً تین میں سے دو جواب دہندگان نے آبادی میں اضافے کو اقتصادی لحاظ سے تشویشناک قرار دیا تھا۔

تاہم آبادی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کی آبادی چین سے آگے نکل جانے کو تشویش اور احتیاط کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے کہ وہ بڑھتی ہوئی تعداد پر تشویش میں مبتلا ہو جائیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’اس کے بجائے اگر انفرادی حقوق کی بالادستی رکھی جائے تو پھر اسے ترقی کی علامت کے طور پر دیکھا جانا چاہیے‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp