صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 بغیر دستخط کے واپس بھیج دیا۔
صدر مملکت عارف علوی نے موقف اختیار کیا ہے کہ قانون سازی کی اہلیت اور بل کی درستگی کا معاملہ ملک کے اعلیٰ ترین عدالتی فورم کے سامنے زیر سماعت ہے۔
صدر نے کہا ہے کہ معاملہ زیرسماعت ہونے کے احترام میں بل پر مزید کوئی کارروائی مناسب نہیں۔
واضح رہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بل منظوری کے بعد صدر مملکت کو منظوری کے لیے ارسال کیا گیا تھا۔
اس سے قبل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے بل منظوری کے بعد صدر کو بھجوایا گیا تھا تو صدر نے پہلے بھی کچھ سوالات اٹھا کر واپس بھیج دیا تھا۔
آئین کے مطابق صدر کی جانب سے کوئی بھی بل واپس بھیجے جانے پر جب وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور ہو جائے تو صدر کے دستخط نہ کرنے کی صورت میں بھی وہ قانون بن جاتا ہے۔ اب یہ بل 20 اپریل کو خود ہی ایکٹ بن جائے گا۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیا ہے؟
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے تحت ازخود نوٹس لینے کا اختیار اب اعلیٰ عدلیہ کے 3 سینیئر ترین ججز کے پاس ہوگا۔ اس بل کو پہلے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کرائے جانے کے بعد دستخط کے لیے صدر کو بھیجا گیا تھا۔
بل کے تحت چیف جسٹس کا ازخود نوٹس کا اختیار محدود ہوگا۔ بینچوں کی تشکیل اور از خود نوٹس کا فیصلہ ایک کمیٹی کرے گی جس میں چیف جسٹس اور 2 سینیئر ترین ججز ہوں گے۔
نئی قانون سازی کے تحت سابق وزیراعظم نواز شریف کو از خود نوٹس پر ملی سزا پر اپیل کا حق بھی مل گیا۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، پی ٹی آئی کے سابق رہنما جہانگیر ترین اور دیگر بھی فیصلوں کو چیلنج کر سکیں گے۔