سپریم کورٹ نے ملک بھر میں بیک وقت انتخابات کے حوالے سے درخواستوں پر سماعت 27 اپریل تک ملتوی کردی۔
سماعت کے التوا کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے چیمبر میں ان سے تفصیلی مشاورت ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری قیادت کے ساتھ مشاورت ہورہی ہے اور تمام سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں تمام انتخابات ایک تاریخ کو ہوں۔
فاروق ایچ نائیک کے مطابق سپریم کورٹ نے کہا کہ جب تک اتفاق رائے نہیں ہوجاتا نئی تاریخ نہیں دے سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو بتا دیا تحریک انصاف سے رابطہ ہوچکا ہے اور عید کے دنوں میں مزید رابطے کیے جائیں گے۔
قبل ازیں سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آج کسی سیاسی رہنما نے عدالتی فیصلے کو غلط نہیں کہا۔ یقین ہے کہ کوئی رکن اسمبلی عدالتی فیصلے کے خلاف نہیں جانا چاہتا۔
اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ یاد رکھنا چاہیئے کہ زیر سماعت معاملہ پر عدالتی فیصلہ موجود ہے۔ آج کسی سیاسی لیڈر نے فیصلے کو غلط نہیں کہا۔ تمام سیاسی قائدین نے آج آئین کی پاسداری کا اعادہ کیا ہے۔ آئین پر نہیں چلیں گے تو کئی اگر مگر آئیں گے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 254 کی تشریح کبھی نہیں کی گئی۔ آرٹیکل 254 کے تحت تاریخ نہ بڑھائی جائے اس لیے اس کی تشریح نہیں کی گئی۔ الیکشن کمیشن نے غلط فیصلہ کیا جس پر عدالت نے حکم جاری کیا۔
’پنجاب میں الیکشن کی تاریخ 14 مئی ہے۔ 1970 اور 71 کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ عدالت آئین اور قانون کی پابند ہے۔ سراج الحق، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے کوشش کی ہے۔ بعد میں پی ٹی آئی نے بھی ایک ساتھ انتخابات کی بات کی ہے۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے مطابق ان کیمرہ بریفنگ دی گئی لیکن عدالت فیصلہ دے چکی تھی۔ حکومت کی شاید سیاسی ترجیح کوئی اور تھی۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات میں ہٹ دھرمی نہیں ہو سکتی۔ دو طرفہ لین دین سے مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں۔
’گزارش ہو گی کہ پارٹی سربراہان عید کے بعد نہیں آج بیٹھیں۔ جولائی میں بڑی عید ہو گی اس کے بعد الیکشن ہو سکتے ہیں۔ عید کے بعد انتخابات کی تجویز سراج الحق کی ہے۔‘
چیف جسٹس نے سیاسی قیادت کو عید کے بعد ملنے کے بجائے آج ہی ملنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک ہی نکتہ ہے اس پر مل کر بات کریں۔ سیاسی جماعتیں مشاورت کرکے بتائیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بلاول بھٹو کی مولانا فضل الرحمان کی ملاقات کو اچھی کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ توقع ہے مولانا فضل الرحمان بھی لچک دکھائیں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ عدالت اپنا 14 مئی کا فیصلہ واپس نہیں لے گی۔
’عدالتی فیصلہ سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔ فیصلہ واپس لینا مذاق نہیں ہے۔ کسی نے عدالتی فیصلہ چیلنج نہیں کیا۔ عدالتی فیصلہ ہٹانے کا طریقہ کار ہے وہ 30 دن بھی گزر چکے ہیں۔آج ظہر کے بعد پیشرفت سے آگاہ کریں۔
چیف جسٹس نے ان ریمارکس کے ساتھ کیس کی سماعت چار بجے تک ملتوی کردی ہے۔
اس سے قبل جسٹس منیب اختر نے الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل قانون کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ شیڈول تبدیل کرسکتے ہیں تو کرلیں۔
ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیے کہ سیاسی قائدین افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کریں تو برکت ہو گی۔ وزارت دفاع کی بھی یہی استدعا ہے کہ الیکشن ایک دن میں ہوں۔
درخواست گزار سردار کاشف کے وکیل شاہ خاور کا کہنا تھا کہ بیشتر سیاسی جماعتوں کی قیادت عدالت میں موجود ہے۔ مناسب ہو گا عدالت تمام قائدین کو سن لے۔ جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے الیکشن ایک ہی دن ہوں۔
چیف جسٹس نے سیاسی قائدین کی سپریم کورٹ آمد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا صف اول کی قیادت کا عدالت آنا اعزاز ہے۔ قوم میں اضطراب ہے، قیادت مسئلہ حل کرے تو سکون ہو جائے گا۔ عدالت حکم دے تو پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔
’سیاسی قائدین افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کریں تو برکت ہو گی۔ وزارت دفاع کی بھی یہی استدعا ہے کہ الیکشن ایک دن میں ہوں۔ درخواست گزار بھی یہی کہہ رہا ہے کہ ایک ساتھ الیکشن ہوں۔‘
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل نے یہ نکتہ اٹھایا لیکن سیاست کی نذر ہوگیا۔ فاروق نائیک بھی چاہتے تھے لیکن بائیکاٹ ہوگیا۔ اخبار کے مطابق پیپلز پارٹی کے قائد بھی مذاکرات کو سراہتے ہیں جب کہ ن لیگ نے بھی مذاکرات کی تجویز کو سراہا ہے۔
تحریک انصاف کا موقف
تحریک انصاف کے موقف سے عدالت کو آگاہ کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت آئین کے تحفظ پر عدالت کے ساتھ ہے۔ ملک نے آئین کے مطابق ہی آگے بڑھنا ہے۔ قوم نے آپ کا فیصلہ قبول کیا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ حکومت کا کیا نقطہ نظر ہے۔
شاہ محمود قریشی کے مطابق آئین 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کے حوالہ سے واضح ہے۔ سپریم کورٹ کے انتخابات کے حوالہ سے دیے گئے فیصلہ پر عملدرآمد میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔
’کسی کی خواہش کا نہیں آئین کا تابع ہوں۔ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں تو انتخابات ہونے چاہییں۔ تلخی کی بجائے آگے بڑھنے کیلئے آئے ہیں۔ سیاسی قوتوں نے ملکر ملک کو دلدل سے نکالنا ہے۔ آئینی اور جمہوری رستہ انتخابات ہی ہیں۔‘
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ن لیگی قیادت نے کہا کہ الیکشن چاہتے ہیں تو اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ ہمیں کہا گیا قومی اسمبلی تحلیل کر دی جائے گی۔ اپنی حکومت چھوڑنا آسان نہیں تھا۔ حکومت ختم ہونے کے بعد جو ہوا سب کے سامنے ہے۔ ن لیگ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد فیصلے سے مکر گئی۔
فاروق ایچ نائیک کے دلائل
پیپلز پارٹی کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ حکومتی سیاسی اتحاد کا مشترکہ مؤقف ہے کہ 90 دن میں انتخابات کا وقت گزر چکا ہے۔ عدالت دو مرتبہ 90دن سے تاریخ آگے بڑھا چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں پہلے ہی ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کام پر شروع کر چکی ہیں۔ بلاول بھٹو نے اسی سلسلے میں مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی ہے۔ عید کے فوراً بعد سیاسی ڈاٸیلاگ حکومتی اتحاد کے اندر مکمل کرینگے۔
’پی ٹی آٸی سے پھر مذاکرات کرینگے تاکہ ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ہو۔ ہماری کوشش ہوگی کہ ان ڈاٸیلاگ سے سیاسی اتفاق رائے پیدا کیا جاسکے۔ الیکشن جتنی جلدی مکمن ہو ایک ہی دن ہونے چاہییں۔‘
اس موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کو ایک بریفنگ دی گئی تھی جب کہ درخواست گزاربھی ایک ہی دن میں الیکشن کے خواہاں ہیں۔ یہی بات اٹارنی جنرل نے بھی کی تھی جو ریکارڈ کا حصہ نہیں بن سکی۔
فاروق نائیک کے مطابق ملک بھر میں نگران حکومتوں کے ذریعے انتخابات کا انعقاد ممکن ہے۔ سیاسی معاملات سیاسی جماعتوں کے درمیان طے ہونے چاہییں۔ سیاسی معاملے میں کسی ادارے کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
ن لیگ کا موقف
لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق نے کمرہ عدالت میں روسٹرم سنبھالتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ماحول مشکل ہے لیکن 22 کروڑ عوام کا مسئلہ ہے۔ ’میڈیا پر ہونے والے جھگڑے اتنے سنگین نہیں ہوتے جتنے لگتے ہیں۔ عدالت میں بھی اپوزیشن کے ساتھ بغلگیر ہوئے ہیں۔‘
سعد رفیق کے مطابق ان کی جماعت انتخابات پر مذاکرات کیلئے پوری طرح تیار ہیں۔ پارٹی سربراہان کا اجلاس عید کے بعد طلب کیا ہے۔ ریاستی اداروں کا وقت ضائع کرنے کی بجائے سیاست دانوں کو خود بات کرنا چاہیے۔
پیپلز پارٹی کا موقف
وفاقی وزیر قمر زمان کائرہ نے لیگی رہنما سعد رفیق کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی تلخیوں کی وجوہات سے پورا ملک آگاہ ہے۔ ایسی صورتحال میں سیاسی قوتوں کو بیٹھ کر حل نکالنا پڑا۔
قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ ۔ بطور سیاسی جماعت پہلے حکومتی اتحادیوں سے بات کا آغاز کیا۔ بولے؛ کوشش ہے کہ جلد از جلد انتخابات پر اتفاقِ رائے ہوجائے۔ عدالت اور قوم کو یقین دہانی کراتے ہیں ملک کیلئے بہتر فیصلے کریں گے۔
جماعتِ اسلامی کا موقف
امیر جماعتِ اسلامی سراج الحق نے عدالت کو بتایا کہ اللہ کا حکم ہے اجتماعی معاملات میں مذاکرات کرو۔ اللہ کا حکم ہے یکسوئی ہوجائے تو اللہ پر اعتماد کرو۔ مذاکرات کرنا آپشن نہیں اللہ کا حکم ہے۔
سراج الحق کا موقف تھا کہ آئین اتفاق رائے کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا۔ آج بھی آئین ملک کو بچا سکتا ہے۔ آئین کی حفاظت کرنا ملک کی حفاظت کے مترادف ہے۔
سراج الحق کے مطابق دنیا کا منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہے۔ 1977 میں نتائج تسلیم نہیں کیے گئے اور احتجاج شروع ہو گیا۔ 1977 میں سعودی اور امریکی سفیروں نے مذاکرات کی کوشش کی تھی تاہم مذاکرات ناکام ہوئے تو مارشل لا لگ گیا۔
سراج الحق کا کہنا تھا کہ 90 کی دہائی میں ن لیگ اور پی پی پی کی لڑائی سے مارشل لا لگا۔ ان کے مطابق آج ہمیں اسی منظر نامہ کا سامنا ہے۔ امریکہ ایران اور سعودی عرب اب پاکستان میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔
ق لیگ کا موقف
وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے عدالت کو ایک دن الیکشن کرانے کی حمایت کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ آپ فیصلہ کرینگے تو اس پر تنقید ہوسکتی ہے لیکن اگر ہم کرینگے تو سب کے لیے بہتر ہوگا۔ ’ملک میں ایک دن میں الیکشن کا انعقاد بہت سے اختلافات کو ختم کردیگا۔‘
ایم کیو ایم کا موقف
رہنما متحدہ قومی موومنٹ صابر قائم خانی کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت ملک بھر میں ایک وقت میں انتخابات اور سیاسی جماعتوں کے مابین مذاکرات کی حامی ہے۔ ملک میں انتخابات کا ایک ہی دن انعقاد بہتر ہوگا۔ مسائل کا حل بات چیت سے نکالا جائے۔
صابر قائم خانی کے مطابق ان کی جماعت نے ہمیشہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کا احترام کیا ہے۔ ’عدالت کے ساتھ کھڑے ہیں، جو سب مل کر فیصلہ کریں گے قبول ہو گا۔ عید کے بعد امید ہے کہ سب مسائل کا حل نکل آئے گا۔‘
آج کی ابتدائی سماعت
آج دوبارہ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے امیر جماعتِ اسلامی سراج الحق کی سیاسی جماعتوں کے مابین مذاکرات کی کوششوں کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کمرہ عدالت میں موجود سراج الحق کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ آپ نے بہت نیک کام شروع کیا ہے، اللہ اس میں برکت ڈالے۔’ آپ کی موجودگی اور نیک عمل شروع کرنے پر شکریہ!‘
تاخیر سے عدالت پہنچنے پر اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان نے عدالت کو بتایا کہ وقت کے حوالے سے تھوڑا ابہام ہوگیا تھا۔ جس پر چیف جسٹس نے دس منٹ کے لیے سماعت ملتوی کر دی۔
وقفہ سے قبل چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مولا کریم ہمیں حکمت دے کہ ہم صحیح فیصلے کر سکیں اور بعد میں آنے والے ہمیں اچھے لفظوں میں یاد کریں۔
سماعت سے قبل سپریم کورٹ پہنچنے پر وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ وہ سپریم کورٹ اظہار یکجہتی کے طور پرآئے ہیں۔ سیاسی لوگ ہیں جن کے اپنے کچھ تحفظات ہیں۔ مذاکرات سے کبھی پیچھے ہٹے ہیں نہ ہٹنا ہے۔
سیاسی ڈیڈلاک توڑنے اور انتخابات کے ضمن میں مذاکرات کے لیے کوشاں سراج الحق سے جب وی نیوز نے عمران خان کے ساتھ مذاکرات پر ان کو ملنے والے رد عمل کے بارے میں دریافت کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ سب پریشان ہیں۔ ’چاہتے ہیں کوئی مغلوب بھی نہ ہو، مفتوح بھی نہ ہو اور مسائل حل ہو جائیں۔‘
کیس کی سماعت کا پس منظر
درخواست کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالتِ عظمٰی کا تین رکنی بینچ کررہا ہے جس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بھی شامل ہیں۔
سپریم کورٹ نے سردار کاشف کی درخواست پر ملک کی تمام سیاسی جماعتوں سمیت الیکشن کمیشن، اٹارنی جنرل اور وفاقی حکومت کو بھی نوٹسز جاری کر رکھے ہیں۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ روز سماعت میں وزارت دفاع کی جانب سے دائر نہ صرف درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیا تھا بلکہ انتخابات کے لیے درکار فنڈز کی عدم فراہمی سے متعلق وزارت خزانہ کی کی رپورٹ بھی ناقابل قبول قرار دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو 27 اپریل تک پنجاب میں انتخابات کے لیے 21 ارب روپے جاری کرنے کا حکم بھی دے رکھا ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنی گزشتہ سماعت کے تحریری حکم نامہ میں کہا تھا کہ عدالتی احکامات کا مقصد آئین میں دی گئی پابندی پر عملدرآمد کرنا ہے۔ عدالتی حکم کی خلاف ورزی یا نافرمانی کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔