زنانہ عید

منگل 25 اپریل 2023
author image

صفیہ کوثر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اکیسویں صدی کے بعد سے دنیا دو بڑے حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے ؛ زنانہ اور مردانہ۔ اب ہم ہر چیز کو صرف مردانہ نظریے سے نہیں دیکھ سکتے، اس کا زنانہ جائزہ لینا بھی اہم ہے۔یہ ایسا موضوع ہے کہ پاکستان کے ہر فرد نے اس پر کچھ نہ کچھ سوچا ہے، شہروں میں رہنے والے کم عمر لوگ دل میں سوچتے ہیں کہ “ہاں اگر کیڑی اور کیڑے میں کوئی فرق نہیں، چڑیا اور چڑا ایک جیسے ہیں تو عورت اور مرد کو بھی ایک جیسا ہی سمجھنا چاہیے۔” جب کہ گاؤں میں رہنے والے لوگ سوچتے ہیں، ” اگر بکری اور بکرے میں بکری منافع بخش ہے تو عورت کی اہمیت مرد سے کیوں کم ہے۔” لیکن سمجھ دار بزرگ جانتے ہیں کہ بکری کی اہمیت اس کے مادہ ہونے سے نہیں بلکہ معیشت میں اس کے کردار کی وجہ سے ہے۔

پاکستانی معاشرے میں عورت کی بدلتی ہوئی اہمیت اور اس کے بدلتے ہوئے کردار پر ہم نے عید کے حوالے سے ایک نرم سی نظر ڈالی ہے جس میں ہمارے متعصب رویہ کی وجہ سے بار بار مردوں پر یہ نظر ترچھی ہو کر کسی بجلی کی طرح پڑتی ہے، لیکن سمجھ دار خواتین یہ جانتی ہیں کہ مردوں نے خواتین کی نظر کا کبھی برا نہیں مانا بھلے وہ ترچھی ہی کیوں نہ ہو۔

جدید دنیا میں ہمیشہ سے عید اور دیگر تہوار منا منا کر خوشیاں تلاش کی جاتی ہیں، کبھی ابنِ آدم نے کھانے کھائے ،کبھی آتش بازی کی لیکن پاکستان میں عید کا تہوار خالص زنانہ اور مقامی قسم کا ہو گیا ہے اور اب اس کا نام اور اس دن ناشتے میں بنایا جانے والا حلوہ ہی یہ یاد دلاتا ہے کہ اس کا تعلق کبھی نہ کبھی حجاز ِمقدس سے رہا ہے۔

لڑکیوں کی عید نئے کپڑوں اور میک اپ سے شروع ہوتی ہے، مجھے یاد ہے کہ ایک بار جب میرے عید کے کپڑے سلائی ہو کر آئے تو میرا دل رات بھر زور زور سے دھڑکتا رہا، کئی بار آنکھ کھول کر ہینگر کی طرف دیکھا جو گو کہ نظر نہ آتا تھا لیکن محسوس تو ہوتا تھا ، سچے دل سے دعا مانگی کہ رات کے آخری پہر کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے،” اے اللہ مجھے زندگی دے ، کم از کم عید تک زندہ رکھ تاکہ میں یہ کپڑے پہن سکوں اور عید منا سکوں۔”

عید کے دن کوئی نہ کوئی شخص یہ ضرور کہتا تھا کہ عید تو بچوں کی ہوتی ہے اور میں سوچتی تھی بچوں کی عید کیسے ہے جب ان کو ہر کام کے لیے بڑوں کی اجازت چاہیے اور سارے پیسے بھی بڑوں کے پاس ہوتے ہیں، عید بچے منا لیتے اگر بڑے راہ میں رکاوٹ نہ کھڑی کرتے۔

اب جب میں ماضی پر نگاہ دوڑاتی ہوں تو مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ لڑکیاں کس قدر بھرپور عید مناتی ہیں، نئے کپڑے پہننے کا جو نشہ لڑکیوں کو اس عمر میں محسوس ہوتا ہے وہ شاید کبھی کسی کو نہ ہو، میک اپ کے بعد اپنے حسن کا ایک ایسا احساس پیدا ہوتا ہے کہ غرور سے عجیب سا نخرہ اور بدتمیزی شخصیت میں در آتی ہے، جو شام کو کپڑے بدلتے ہی ہوا ہو جاتی ہے،لمبے بال کھول کر کان گویا بند ہو جاتے ہیں اور کسی کی ناپسندیدہ بات نہیں سنائی دیتی ، بھئی ہم سے تو اس زمانے میں تیار ہو کر کوئی کام نہیں کیا جاتا تھا، دل چاہتا تھا شہزادیوں کی طرح سجے ہوئے ہاتھ باندھ کر بیٹھ جائیں اور کھانا بھی کوئی اور ہی ہمیں کھلا دے اس کے مقابلے میں لڑکوں کو ان کی مائیں بار بار یہی احساس دلاتی تھیں کہ آج تو کچھ خیال کرو نئے کپڑے پہنے ہوئے ہیں، یہ کام نہ کرو نئے کپڑے پہنے ہیں، ادھر نہ بیٹھو نئے کپڑے خراب ہوں گے، کھانا کھا کر نئے کپڑوں سے ہاتھ نہ پونچھو۔۔۔ہمیں خیال آتا تھا یہ کیسے لوگ ہیں جو بار بار بھول جاتے ہیں کہ انھوں نے نئے کپڑے پہن رکھے ہیں۔

اب پاکستان میں خواتین نے اپنی خوشیوں کو چیزوں کے ساتھ ملا لیا ہے، اچھے کپڑے، قیمتی زیورات ، جوتے، ثروت مندی کی دیگر نشانیاں مثلا گھر ،ڈیزائنر آرائش، قیمتی گاڑی اور ملازمین وغیرہ گویا ان کی خوشیوں کا ثبوت ہیں۔ اشتہارات سے بھی یہی خیالات پروان چڑھتے ہیں کہ اگر آپ کو خوش رہنا ہے تو یہ والا فریزر لیں یا یہاں مکان خریدیں۔

یوں ہم نے گویا نفسیاتی علوم کا قطب مینار الٹا کر دیا ہے جس کی رو سے خواتین نفسیاتی طور پر چیزوں کے بجائے انسانوں سے لگاؤ رکھتی ہیں اور مردوں کو چیزوں سے لگاؤ ہوتا ہے، خواتین اپنی اسی نفسیات کی بنیاد پر بچے پال سکتی ہیں اور خاندان کو جوڑ کر رکھتی ہیں جب کہ مردوں کی ایسی نفسیات کی وجہ سے خاندان مادی طور پر ترقی کرتا ہے۔ہمارے ہاں مرد بھلے لڑکپن میں نئے کپڑوں کی پرواہ نہ کرتا ہو لیکن اس کو نئے کھلونوں کی پرواہ ہمیشہ رہتی ہے، چاہے وہ موبائل فون، لیپ ٹاپ یا گاڑی ہی کیوں نہ ہو۔

یہ بات سچ ہے کہ کائنات کی ہر چیز خودنمائی کے لیے وجود میں آئی ہے اس لیے عید پر مہمانوں کی آمد و رفت ہماری زندگی میں رنگ بھرتی ہے، ہم تیار ہوجائیں تو زبردستی پڑوس کے رشتہ داروں کو گھر بلا لیتے ہیں تا کہ وہ ہمیں دیکھ لیں کہ ہم تیار ہو جائیں تو خوب صورت لگ سکتے ہیں ، ان کے ہاں کچھ اچھا کھانا پک جائے تو وہ ہمیں بلا لیتے ہیں کہ ہم چکھ لیں کہ ان کے ہاں بھی مزے کی چیز پک سکتی ہے۔

جنھوں نے نیا گھر بنایا ہو وہ سب کو بلا لیتے ہیں اور جو ترقی کر رہے ہوں وہ گروپوں میں تصاویر بھیج کر ہی ثابت کر دیتے ہیں کہ سب سے آگے تو وہی ہیں، ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ بھی چوکھا آئے، اسی لیے تو وہ ترقی کر گئے۔

سنا ہے کسی زمانے میں لوگ عید پر محبت سے ایک دوسرے سے ملا کرتے تھے، گلے شکوے دور کرتے تھے، جیسا تیسا کھانا کھا لیتے تھے، بے تکلف برتن تھے، گھر کی سادہ آرائش تھی، نہ کسی کو دکھانے کے لیے کچھ ہوتا تھا نہ کوئی دیکھنے آتا تھا۔بچے کھیلتے کودتے تھے، تمیز اور شرافت کو کوئی بھی بچوں میں نہیں ڈھونڈتا تھا، بچے خوش تھے اور خوب تباہی مچاتے تھے۔ اب تو بچوں کی بھی نمائش لگتی ہے۔ اس نمائش میں مجھے بھی چند بچے پسند آئے تو تھے لیکن پھر وہ بڑے ہو گئے، آہ افسوس، پسند کا بچہ بڑا ہو جائے، اس سے زیادہ تکلیف دہ کوئی بات نہیں۔

ہمارے بچپن میں عید کا مطلب تھا ٹی وی دیکھنا، سب گھر والے عید کی خصوصی نشریات کے مطابق کام کرتے تھے، عید کے مزاحیہ مشاعرے سے پہلے کھانا تیار کر لیا جاتا تھا، عید پر دکھائی جانے والی فلم سے پہلے رشتہ داروں کے گھر میں پہنچنے کی کوشش ہوتی تھی اور رات کو بھی سب کاموں سے جیسے تیسے فارغ ہو کر ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے تھے۔

اب تو ٹی وی بھی زندگی میں نہیں رہا، خدا جانے کس امید پر عید کا انتظار کیا تھا اور اب عید پر کیا کریں گے۔ ابھی تو دن طلوع ہوا ہے کچھ کھا پی کر آزادی محسوس کریں گے، پھر دیکھتے ہیں چشم فلک کیا دکھاتی ہے۔عید پر ہم نے مردوں کو ہمیشہ صحیح طریقے سے عید مناتے دیکھا، صبح تیار ہوئے، پورے شہر کو اپنے حسن کا جلوہ دکھایا کیوں کہ انسان کے تیار ہونے کا مقصد ہی یہی ہے، واپس آ کر کھانا کھایا، تصاویر بنائیں، محبوبوں کو بھیجیں اور سو گئے۔

اگلے کھانے تک سوتے رہے، پھر شام کو سوتی ہوئی صورت کی تصاویر بنائیں اور نسبتاً زیادہ حساس محبوبوں کو بھیج کر پھر سو گئے۔عید پر مردوں کا سونا برحق ہے اس حوالے سے ثبوت کے طور پر حضرت شیخ سعدی کی دانش مندانہ حکایت دیکھیے کہ ایک بادشاہ جو سلامت روی سے عاری تھا، ہر طرح کی بدتمیزی شاہانہ شان کے ساتھ ان کی ذات کا حصہ تھی لیکن دل صوفیانہ جذبات سے امڈا پڑتا تھا، دور دراز کے ایک بزرگ کے ساتھ غائبانہ عقیدت تھی، دربار میں سے ایک وزیر نے سفر کا ارادہ کیا اور ان بزرگ سے ملنے کی اطلاع بھی خاص امید سے شاہی کانوں تک پہنچا دی جس سے شاہی دماغ میں ہل چل پیدا ہوئی، بادشاہ نے وزیر کو بلا بھیجا اور کہا کہ بزرگ ہستی سے ضرور ملیو اور میرے واسطے خاص شاہی قسم کی نصحیت حاصل کر کے لائیو۔ بہت سا زاد راہ بھی دیا۔ وزیر نے بزرگ سے حال بیان کیا اور نصیحت کا تقاضا کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اپنے بادشاہ سے کہہ دو کہ دن کا زیادہ وقت سوتے ہوئے گزارے کہ اس کا سونا بھی عبادت ہے کیوں کہ اس طرح اللہ کی مخلوق اس کے ہر طرح کے غلط فیصلوں سے محفوظ رہے گی۔

ادھر خواتین کئی دن سے کپڑے خرید کر، لیسیں میچ کرتی رہیں، پھر درزی کا سر کھا کر آخر عید سے پہلے کپڑے سلوانے میں کامیاب ہوئیں، استری کر کے الماری میں لٹکائے بھی لیکن عید کے دن کھانا پکانے، برتن دھونے اور گھر والوں کی فرمائشیں پوری کرنے کے بعدجب نہا کر نئے کپڑے پہننے لگتی ہیں تو وہ صاحب سو رہے ہوتے ہیں جن کے لیے خدا نے آرائش و زیبائش کا حکم دیا تھا۔

ثقافتی لحاظ سے معاشرے میں پائی جانے والی رسوم و رواج کا فائدہ اٹھا کر جلدی سے تیار ہو کر چند تصاویر دشمنوں کو بھیجتی ہیں اور پھر پرانے کپڑے پہن کر اور کھانا پکانے لگتی ہیں۔ میں ہمیشہ سوچتی تھی کہ شادی کے بعد عید بقر عید پر جب سب گھر والے تیار ہوا کریں گے تو “کبھی خوشی کبھی غم” کے اسٹائل میں فیملی کا گروپ فوٹو ضرور بنایا کریں گے جس میں میں تیار ہو کر اپنے شوہر کے پہلو میں کھڑی ہوں گی لیکن میری باری آتے آتے گروپ فوٹو سیلفی سیلفی ہو گیا، اب تو امی بھی سیلفی بھیجتی ہیں کہ بیٹا عید پر میں آپ کو یاد کرتے ہوئے ایسی لگ رہی ہوں۔

ملازمت پیشہ لوگ چاہے وہ خواتین ہوں یا مرد ان کا حال ایک جیسا ہے، ان کو نئے کپڑوں کا شوق نہیں کہ سال بھر کپڑے استری کر کر کے تنگ آ چکے ہوتے ہیں۔ ان پر روزے تو آتے ہیں لیکن بےچاروں پر عید نہیں آتی، عید کے نام پر چند چھٹیاں ملتی ہیں جس سے ان کے جذبات میں بےقاعدگی کا عالم یہ ہوتا ہے کہ عید آنے کی خوشی تو نہیں ہوتی البتہ اس کے جانے کا دکھ ہوتا ہے، تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد۔

ایسے تمام لوگوں کو بار بار عید مبارک کہنا چاہیے تاکہ ان کو محسوس ہو کہ آج عید ہے۔پاک و ہند کے مسلمانوں پر فرض کی گئی عیدی کے بارے میں کسی قانون سازی کی اشد ضرورت ہے، اس سے امت مسلمہ کے بچوں کا اخلاق خراب ہو رہا ہے جب کہ امت مسلمہ کی خود اپنی معاشی حالت دگرگوں ہے، جہاں پٹرول کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں وہاں اس قسم کے غیر فلاحی خرچے عید کا مزہ کرکرا کر دیتے ہیں، امید ہے ارباب اختیار اس باب میں بھی ضرور سوچیں گے آخر وہ خود بھی تو اسی ستم کا شکار ہیں۔

اس شانہ بشانہ کے چکر میں خواتین بھی اس ظلم کا شکار ہیں۔ میں اپنے تمام بزرگوں، ماموں چچاؤں وغیرہ کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنھوں نے بچپن میں مجھے نئے نئے نوٹوں کی صورت میں عیدی دی اور اپنے تمام چھوٹوں بھانجے بھتیجوں سے معذرت چاہتی ہوں کہ آپ لوگ میری پکائی ہوئی سویوں کو ہی عیدی سمجھیے۔

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مصنفہ راولپنڈی کے تاریخی گورڈن کالج کے شعبہ اُردو سے وابستہ ہیں۔ اردو ادب ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، ریڈیو، ٹی وی پر کمپئرنگ کرتی ہیں۔ نثر لکھتی ہیں جو کبھی سنجیدہ ہوتی ہے اور کبھی اصلی۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp