چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان نے کہا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات، چیف جسٹس صاحب کی درخواست پر کی گئی، انہیں بتایا کہ آپ کے حکم پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس نے عدالتی ریفارمز کے حوالے سے ہم سے 10 نکاتی ایجنڈا شیئر کیا، ہم اپنی تجاویز چیف جسٹس آف پاکستان کو دیں گے۔
مزید پڑھیں: وزیراعظم شہباز شریف اور چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی ملاقات میں کیا ہوا؟
اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں سلمان اکرم راجا، عمر ایوب، لطیف کھوسہ، بابر اعوان اور شبلی فراز کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس سے بانی پی ٹی آئی کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک اور بانی پی ٹی آئی کو ڈاکٹر اور بچوں کے ساتھ ٹیلیفون کی رسائی پر بھی بات ہوئی۔ ہم نے پی ٹی آئی لیڈران اور کارکنان پر ایف آئی آر کی بات بھی کی۔
عمر ایوب نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ ہماری آج ملاقات تھی۔ بانی پی ٹی آئی سے بھی میں نے ملاقات کی تھی، اس ملاقات کے لیے بانی پی ٹی آئی کی منظوری لی گئی تھی۔ بانی پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی کا مؤقف سامنے رکھیں۔ بانی پی ٹی آئی کی سماعت کی تاریخیں بدلی جاتی ہے۔ عدالتوں کی اجازت کے باوجود بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہیں کرائی جاتی، بانی پی ٹی آئی سے بچوں کی بات نہیں کرائی جاتی۔ ہم نے چیف جسٹس کے سامنے یہ نکتہ رکھا۔
مزید پڑھیں: پاکستان چیمپیئن ٹرافی سے باہر؟۔ کے پی سنگاپور سے آگے۔ وزیراعظم کی چیف جسٹس سے ملاقات
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کو بتایا کہ جیل مینوئل کی دھجیاں اڑائی جاتی ہے۔ ملٹری کورٹس کے حوالے سے سلمان اکرم راجا نے چیف جسٹس سے بات کی۔ لاپتا افراد کے حوالے سے ایک تفصیلی بریفنگ ان کو دی گئی۔ بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا سے لوگوں کو غائب کیا جاتا ہے۔ بلوچستان میں حالات اتنے خراب ہے کہ لوگ وہاں آزادی کی بات کررہے ہیں۔
عمر ایوب کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس صاحب کے ساتھ معیشت کے حوالے سے بھی بات ہوئی۔ 9 مئی اور 26 نومبر کے بانی پی ٹی آئی کے خطوط کے حوالے سے ان کے ساتھ بات ہوئی۔ ہم نے واضح کردیا کہ ہم 26ویں آئینی ترمیم کو نہیں مانتے۔ ہم نے چیف جسٹس سے پروڈکشن آرڈر پر عملدرآمد نہ ہونے کے حوالے سے بھی بات کی اور اپنے وکلا کو ملنے والی دھمکیوں کے حوالے سے چیف جسٹس کو آگاہ کیا، ججز کے خط اور خفیہ اداروں کے منفی کردار کا نکتہ ان کے سامنے رکھا۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ہم نے چیف جسٹس کے ساتھ آئین اور قانون کی عملداری پر بات چیت کی۔ چیف جسٹس کو آئین میں دیے گئے انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے آگاہ کیا۔ اگر پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ ان مسائل کو نہیں دیکھتی تو پھر لوگ مایوس ہوں گے۔ ہم نے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے عمل پر تشویش کا اظہار کیا۔
مزید پڑھیں:چیف جسٹس سے اطالوی سفیر کی ملاقات، عدالتی تعاون پر تبادلہ خیال
لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہم نے چیف جسٹس پاکستان کو بتایا کہ اپنا گھر بھی ٹھیک کریں، جب اپنا گھر ٹھیک ہوگا تو لوگوں کو انصاف ملے گا۔ ہم نے چیف جسٹس پاکستان کو کہا یہ کورٹ پیکنگ نہ کریں۔ ہم نے کہا ہائیکورٹ کے لکھے گئے 5 ججز کے خطوط پر نظرثانی کریں۔ ہم نے انہیں بتایا ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے۔
ڈاکٹر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ فارم 47 نے یقین دہانی کروائی تھی کہ کسی کو گھر سے جاکر نہیں اٹھایا جائے گا۔ پہلے بلوچستان سے لوگوں کو لاپتا ہونے کا سنتے تھے اب یہاں پر بھی وہ سب کچھ ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ بانی چیئرمین پی ٹی آئی کو فیئر ٹرائل کا حق نہیں دیا جا رہا۔ 7 وزرائے اعظموں کا اوپن ٹرائل ہوا لیکن بانی پی ٹی آئی کا ٹرائل جیل میں ہورہا ہے۔
سینٹر شبلی فراز نے کہا کہ ہم نے بنیادی طور پر چیف جسٹس کو آگاہ کیا کہ جب تک ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی قائم نہیں ہوتی تب تک استحکام نہیں آسکتا۔ سینیٹر اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آڈر نہیں جاری کیے جارہے۔ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے احتجاجاً سینیٹ کا سیشن اٹینڈ نہیں کیا۔ میں نے چیف جسٹس سے درخواست کی کہ وہ لوگ جو آپ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کر رہے ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔