دو مقدس گائیوں کی ایک کہانی

منگل 25 اپریل 2023
author image

عبیداللہ عابد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

گزشتہ ہفتے فرانس میں ایک ایسا قانون نافذ ہوا جس کا پاکستان سے بھی بہت گہرا تعلق ہے۔ فرانس کے صدر ایمانویل میکرون کے دستخطوں سے بننے والے قانون کے مطابق اب فرانسیسیوں کو 62 کے بجائے 64 برس کی عمر تک ملازمت کرنا ہوگی، اس کے بعد ہی وہ ریٹائر ہوسکیں گے۔

رائے عامہ کے ایک جائزے کے مطابق 60 فیصد فرانسیسیوں نے اس قانون کی شدید مخالفت کی لیکن صدر میکرون نے ان کے احتجاج کو بدترین انداز میں کچلتے ہوئے یہ قانون نافذ کردیا۔ انہوں نے پارلیمان سے اس کی منظوری لینا بھی مناسب نہیں سمجھا بلکہ ایک متبادل راستہ اختیار کرتے ہوئے ملک کی اعلیٰ ترین آئینی کونسل سے اس کے حق میں فیصلہ لے لیا۔

قانون کی مخالفت کرنے والوں نے احتجاج کیا تو سیکیورٹی فورسز نے ان پر بدترین تشدد کیا اور پھر ہنگامے ایسے پھوٹے کہ انقلابِ فرانس کے بعد شاید ہی کوئی ایسی مثال ملتی ہو۔

سرکاری تنصیبات نذر آتش کردی گئیں، حکومتی شخصیات کا گھیراؤ کیا گیا، دارالحکومت پیرس میں پبلک ٹرانسپورٹ میں خلل پڑا۔ میٹرو اور مضافاتی علاقوں کی طرف جانے والی ٹرینیں بھی متاثر ہوئیں۔ سڑکیں بلاک ہونے کی وجہ سے ایفل ٹاور اور لوور میوزیم جیسے اہم اور سیاحتی مقامات بھی بند کردیے گیے، آئل ریفائنریز اور بندرگاہوں کو بھی مظاہرین نے بلاک کردیا، اسی احتجاج کے سبب برطانیہ کے بادشاہ چارلس سوم کا دورہ بھی ملتوی ہوا لیکن صدر میکرون اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔

مختلف اندازوں کے مطابق قانون کے خلاف سڑکوں پر نکلنے والوں کی تعداد 15 لاکھ سے زائد تھی۔ ہر قیمت پر یہ قانون منظور کروانے کی ضد نے صدر میکرون کی مقبولیت 28 فیصد کم کردی۔ انہوں نے کہا کہ کوئی پرواہ نہیں، وہ عدم مقبولیت قبول کرلیں گے لیکن قانون نافذ کرکے رہیں گے۔ واضح رہے کہ میکرون اپنی آخری مدت اقتدار گزار رہے ہیں۔

گزشتہ 4 ماہ سے سڑکوں پر موجود مظاہرین نے حکومت کو تجویز دی کہ نچلے اور متوسط طبقات کا خون نچوڑنے اور انہیں چکی میں پیسنے کے بجائے ملکی معیشت میں بہتری کے لیے دولت مندوں پر ٹیکس زیادہ کردیں، مگر میکرون نے ایک نہ سنی۔

ایسا لگا کہ وہ ملک کے دولت مند یعنی اعلیٰ طبقے کو ’مقدس گائے‘ سمجھتے ہیں، جس کی صرف پوجا کی جائے گی، پورے ملک کے وسائل اس کی بھینٹ چڑھائے جائیں گے، جب وہ یہ سارے وسائل قبول فرمائے تو اس کے سامنے تشکر سے بھرپور ماتھا ٹیکا جائے گا۔

جب فرانس کے صدر میکرون قانون پر دستخط کر رہے تھے تو مجھے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی مشہور ’شاہراہِ دستور‘ کے بالکل آغاز میں فلک بوس ’ٹوئن ٹاورز‘ کی کہانی یاد آئی جو ایک معروف پاکستانی تحقیقاتی رپورٹر عمر چیمہ نے پہلے لکھی اور پھر کہیں سنائی تھی۔

ان ٹوئن ٹاورز کو ’ون کانسٹی ٹیوشن ایوینیو‘ کہا جاتا ہے۔ ان ٹاورز کے لیے زمین جس انداز میں حاصل کی گئی، وہ بذاتِ خود متنازعہ عمل تھا۔ زمین خریدنے والی پارٹی نے ایک ارب روپے ادا کیے اور باقی ماندہ رقم ادا کیے بغیر ٹوئن ٹاورز کھڑے کرلیے۔ زمین حاصل کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ یہاں ایک ہوٹل تعمیر کیا جائے گا لیکن پھر رہائشی اپارٹمنٹس بنا دیے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کے تیسرے دورِ حکومت میں اس کی لیز منسوخ کردی گئی۔

یہ جڑواں ٹاورز سابق وزیرِاعظم عمران خان کے ایک انتہائی قریبی دوست کے ہیں۔ ان میں سارے اپارٹمنٹس اعلیٰ ترین طبقے سے تعلق رکھنے والوں نے خرید رکھے ہیں کیونکہ وہی خریدنے کی مالی استطاعت رکھتے ہیں۔ ان میں جرنیلز بھی ہیں اور ججز بھی۔ ایک اپارٹمنٹ دوست نے اپنے دوست عمران خان کو محض ایک کروڑ روپے میں دے دیا۔ سابق قائدِ حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے 5 سے 10 کروڑ میں اپارٹمنٹ خریدنے کی کوشش کی لیکن انہیں کہا گیا کہ یہ اپارٹمنٹ آپ جیسی مالی حیثیت والے نہیں خرید سکتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں بہت سے اپارٹمنٹس اعلیٰ طبقہ کے لوگوں نے اپنی ’محبوباؤں‘ کے لیے بک کروا رکھے ہیں، ایسی محبوبائیں جن سے ان لوگوں کا طویل المدتی ’تعلق‘ ہے۔

ایک طرف ’ون کانسٹی ٹیوشن ایونیو‘ کے ٹاور، دوسری طرف کراچی کا ’نسلہ ٹاور‘ تھا۔ اوّل الذکر اعلیٰ ترین طبقہ کے اپارٹمنٹس پر مشتمل جبکہ ’نسلہ ٹاور‘ عام پاکستانیوں یعنی متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والوں کا تھا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک چیف جسٹس نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ’ون کانسٹی ٹیوشن ایوینیو‘ کو غیر قانونی سے قانونی کرلیا جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک دوسرے چیف جسٹس نے نسلہ ٹاور کو ایڑی چوٹی کا زور لگاکر زمین بوس کردیا۔ موصوف سپریم کورٹ میں بیٹھ کر فرمایا کرتے تھے کہ ’بم مار کر نسلہ ٹاور گرادو‘۔

’ون کانسٹی ٹیوشن ایوینیو‘ بنانے والی پارٹی کے وکیل بعدازاں سپریم کورٹ کے جج بنے اور انہوں نے ہی چیف جسٹس ثاقب نثار کے ساتھ بیٹھ کر راتوں رات فیصلہ لکھا اور اس غیر قانونی عمارت کو قانونی قرار دے دیا۔ آج کل وہی جج صاحب سپریم کورٹ کے مشہورِ زمانہ 3 رکنی بینچ کا حصہ ہیں اور ان کا نام ہے عزت مآب جسٹس اعجاز الاحسن۔

’ون کانسٹی ٹیوشن ایوینیو‘ کو صرف 18 ارب روپے میں قانونی قرار دلایا گیا حالانکہ اس کی قیمت بہت زیادہ طے پائی تھی۔ 18 ارب روپے کا تعین کیسے ہوا؟ یہ بھی 30 سے 35 لفظوں کی ایک نہایت دلچسپ کہانی ہے۔

چیف جسٹس صاحب نے فرمایا کہ انہوں نے رات کو خواب دیکھا، اس خواب میں ایک عدد ظاہر ہوا: 18۔ اس لیے اب پارٹی 18 ارب ادا کرے اور ’ون کانسٹی ٹیوشن ایوینیو‘ کی حیثیت غیر قانونی سے قانونی ہوجائے گی۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے فیصلے کن بنیادوں پر ہوتے ہیں۔

وہ عظیم الشان بینچ جب ریکارڈ  تیز رفتاری سے یہ کیس سن رہا تھا اور فیصلہ لکھ رہا تھا، تو اس کی ’رحونیت‘ اور ’رعونیت‘ (دونوں غلط الفاظ لکھنے پر معذرت خواہ ہوں بزرگان اردو سے) کی شان بھی بلند و بالا تھی۔ تاریخ لکھنے والے بتاتے ہیں کہ چیف جسٹس صاحب کے ریمارکس اور حرکتیں غیر معمولی تھیں کیونکہ وہ دور ہی ’رحونیت‘ اور ’رعونیت‘ کا تھا۔

یہ تو صرف ایک عمارت کا قصہ ہے، باقی قصے بھی سنے، پڑھے جائیں تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی کہ کیسے پورے پاکستان کے نچلے اور متوسط طبقات کا خون نچوڑ کر اعلیٰ طبقہ کو مفت سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔

آپ نے بھی وہ خبر پڑھی ہوگی کہ پاکستان میں 200 گالف کلب ہیں، اور اربوں روپوں مالیت کی زمین پر واقع ہر گالف کلب سرکاری خرچ پر چلتا ہے، کلب والوں سے صرف 5 ہزار روپے کرایہ لیا جاتا ہے اور بس!

پاکستان کی حکومتیں عوام کا خون نچوڑ کر ان گالف کلبز کو سرسبز و شاداب رکھتی ہیں تاکہ اعلیٰ طبقے کے لوگ یہاں قدم رنجہ فرمائیں اور گالف کھیلیں اور پاکستان کی حکومتوں کو شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔

یہ ہے دنیا کی دو مقدس گائیوں کی ایک کہانی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp