پاکستان مسلم لیگ ن یا حکومت کی اتحادی کسی جماعت کا حصہ نہ ہونے کے باوجود سابق وزیراعلیٰ اور عمران خان کے سابق قابل اعتماد ساتھی پرویز خٹک شہبازشریف کی کابینہ میں شامل ہوگئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی کابینہ کے 27 نئے ارکان نے حلف اٹھا لیا، کون کون سے نئے چہرے شامل ہیں؟
سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر ہوں گے جو عمران خان حکومت میں وزیر دفاع تھے اور عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اقتدار سے باہر تھے۔
کیا بطور مشیر شمولیت تنزلی نہیں؟
پرویز خٹک کی وفاقی کابینہ میں شمولیت سے ان کے سیاسی مخالفیں کے علاوہ حکمران جماعت کے رہنما بھی حیران ہیں جو کسی بھی جماعت سے وابستگی نہ ہونے کے باوجود کابینہ میں شمولیت کو سمجھ سے بالاتر قرار دیتے ہیں جبکہ کچھ سیاسی تجزیہ کار تنزلی تو کچھ پرویز خٹک کی اہمیت سمجھتے ہیں۔
علی اکبر خان پشاور کے سینیئر صحافی ہیں جو ملکی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق سابق وزیراعلیٰ اور وفاقی وزیر دفاع کا مشیر بننا تنزلی ہی ہے۔
’بظاہر دیکھا جائے تو یہ تنزلی ہے ایک بندہ صوبے کا سربراہ رہا ہو، وفاقی وزیر اور اب مشیر بننا بالکل تنزلی ہے، لیکن یہ پرویز خٹک کی مجبوری تھی جو انہوں نے خود کو سیاسی طور پر زندہ رکھنے کے لیے کیا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں: عوام خیبرپختونخوا حکومت سے مایوس، عام انتخابات میں لوگ اندھے بہرے ہوگئے تھے، پرویز خٹک
علی اکبر کا ماننا ہے کہ پی ٹی آئی سے علیحدگی کے بعد پرویز خٹک وزیراعلیٰ بننے کا کھلم کھلا دعویٰ کررہے تھے لیکن بن نہ سکے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت پرویز خٹک سیاسی طور پر انتہائی کمزور تھے، وہ کسی سیاسی جماعت کو کچھ بھی دینے کے قابل نہیں ہیں اسی وجہ سے مشیر کا عہدہ بھی ان کے لیے غنیمت سے کم نہیں۔

پشاور کے نوجوان صحافی محمد فہیم بھی کچھ حد تک اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ فہیم کے مطابق اس وقت جہاں پرویز خٹک کھڑے ہیں ان کو مشیر کا عہدہ ملنا بہت بڑی کامیابی ہے، جو پی ٹی آئی چھوڑنے اور اپنی جماعت میں ناکامی کے بعد کسی سیاسی جماعت کا حصہ تک نہیں ہیں۔
’سیاستدان کو عہدے سے مطلب ہے‘
محمد فہیم نے کہا کہ سیاستدان کو سیاسی سسٹم میں ہر وقت اِن رہنا ہوتا ہے اور وہ کسی عہدے پر ہی رہ کر سسٹم سے فاہدہ اٹھا سکتا ہے اور اپنے لوگوں کے کام بھی آسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پرویز خٹک پھر سرگرم، 22 فروری کو مستقبل کا اعلان متوقع، کیا ناراضی ختم ہوگئی؟
علی اکبر کا بھی یہی خیال ہے۔ علی اکبر کے نزدیک پرویز خٹک کی مثال مچھلی کی سی ہے جو پانی کے بغیر رہ نہیں سکتی، پرویز خٹک کی سیاست بھی عہدے کے بغیر مکمل نہیں۔
علی اکبر نے کہا کہ اگر دیکھا جائے تو پرویز خٹک کی سیاست بھی عہدوں کے ارد گرد گھومتی آئی ہے اور عہدوں کے لیے وہ سیاسی وفاداریاں بدلتے آئے ہیں۔ پہلے پی پی پی میں تھے، شیرپاؤ کے ساتھ شامل ہوئے، پی ٹی آئی میں آئے عہدوں کا مزہ لیا، جب مشکل وقت آیا تو پی ٹی آئی کا ساتھ ہی چھوڑ دیا۔
یہ بھی پڑھیں: انتخابات میں شکست کے بعد پرویز خٹک کہاں غائب ہیں؟
انہوں نے بتایا کہ پرویز خٹک پی ٹی آئی میں ہوتے ہوئے پورے خاندان کو سیاست میں لے کر آئے تھے اور اب یہ نوبت آئی کہ خود مشیر کے عہدے پر اکتفا کرلیا۔ ’پرویز خٹک کے بیٹے، داماد بھابھی سب اقتدار میں تھے، ان کا راج تھا اب وہ خود مشیر بن گیا ہے یہ تنزلی نہیں تو اور کیا ہے۔‘
کیا پرویز خٹک کو پی ٹی آئی کے خلاف لایا گیا ہے؟
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پرویز خٹک کو ایک بار پھر خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کو کمزور کرنے کے لایا گیا ہے۔
صحافی عارف حیات کا ماننا ہے پرویز خٹک کو وہ لوگ لے کر آئے ہیں جو ان کو وزیراعلیٰ بنانے کی باتیں کررہے تھے اور پی ٹی آئی کے خلاف پارٹی بنا کردی تھی۔
انہوں نے کہا کہ پرویز خٹک اب سیاسی طور پر کمزور ہیں اور پی ٹی آئی کے خلاف سیاسی طور پر کسی کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتے،’ایک پارٹی کا سربراہ اپنا حلقہ نہیں جیت سکتا تو وہ اب حکومتی جماعت کو کیا دے سکتا ہے۔‘
پرویز خٹک کا سیاسی سفر
73 سالہ پرویز خٹک نوشہرہ کے منکی شریف میں اس وقت کے نامور گورنمنٹ ٹھیکیدار کے ہاں پیدا ہوئے۔ پرویز خٹک نے اپنے ساسی سفر کا آغاز 1983 میں ممبر ڈسٹرک کونسل نوشہرہ سے کیا تھا، جس کے بعد ان کی کامیابیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔
ابتدا میں وہ پاکستان پیپلز پارٹی سے منسلک تھے، پرویز خٹک وزیر آب پاشی اور 2 مرتبہ وزیر صنعت و پیداوار بھی رہے۔
2013 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف سے ممبر خیبرپختونخوا اسمبلی منتخب ہوئے اور پی ٹی آئی کے پہلے وزیراعلیٰ بن گئے۔
2018 کے عام انتخابات میں وہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور انہیں تحریک انصاف حکومت میں وزیر دفاع کا قلمدان دیا گیا، پرویز خٹک کو سیاسی جوڑ توڑ کا ماہر سمجھا جاتا ہے اور وہ عمران خان کے انتہائی قریبی تصور کیے جاتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ سیاسی فیصلوں میں وہ عمران خان کو مشورہ بھی دیتے تھے اور میٹنگز کے دوران کچھ معاملات پر کھل کر مخالفت بھی کیا کرتے تھے۔