26 اپریل 2012 کو پاکستان کے اُس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کی پاداش میں سزا سنا کر وزیراعظم کے منصب سے نااہل کیا گیا۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان اور معروف قانون دان شاہ خاور ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کو اگر پاکستان کی عدالتی تاریخ کا تاریک پہلو نہ بھی کہیں تو یہ ایک ناخوشگوار واقعہ ضرور ہے۔
جب جب عدالتیں سیاسی نوعیت کے مقدمات سنتی ہیں تو ان کے فیصلے متنازع ہو جاتے ہیں۔ شاہ خاور ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ سیاسی مقدمات میں تنازعات سے بچنے کے لیے فل کورٹ کو مقدمات سننے چاہییں اور منتخب لوگوں کو سرسری سماعت کے بعد نااہل نہیں کرنا چاہیے۔
اس وقت سپریم کورٹ کا ماحول کافی سخت تھا
شاہ خاور نے کہا کہ جب یہ مقدمہ شروع ہوا تو وہ اس وقت ایکٹنگ اٹارنی جنرل تھے اور انہوں نے اس وقت سپریم کورٹ کے 17 رکنی بینچ کے بہت سخت سوالات کا سامنا کیا تھا اور بڑے سخت ماحول میں اس مقدمے کا دفاع کیا تھا۔
اس مقدمے کا بیک گراؤنڈ کیا تھا؟
اس بارے میں بات کرتے ہوئے شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان نے این آر او کو غیر آئینی قرار دے کر حکومت کو ہدایات جاری کی تھیں کہ سوئس حکام کے ساتھ اس وقت کے صدر آصف علی زرداری پر کرپشن کے مقدمات چلانے کے لیے باہمی تعاون کے معاہدے کو بحال کیا جائے، جو معاہدہ اس سے قبل وفاقی حکومت ختم کر چکی تھی۔
سپریم کورٹ کا اصرار تھا کہ اس باہمی تعاون کے معاہدے کو بحال کرنے کے لیے سوئس حکام کو خط لکھا جائے۔ جب کہ عدالت کے سامنے یوسف رضا گیلانی کا موقف یہ تھا کہ وہ خود قانون دان نہیں ہیں اور ان کو حکومتِ پاکستان کے لا ڈویژن نے خط لکھنے سے روکا ہوا ہے اور وہ وزارتِ قانون کے مشورے کے پابند ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یوسف رضا گیلانی کو سزا دی گئی جو انتہائی متنازع قسم کا فیصلہ ہے۔ اس مقدمے کی کارروائی کے اختتام پر ملک کے منتخب وزیراعظم کو پانچ سال کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا۔
شاہ خاور کے مطابق اس کے بعد سیاسی عمل نہیں رُکا اور پاکستان پیپلز پارٹی نے راجا پرویز اشرف کو قائد ایوان منتخب کر لیا۔
آخری فیصلہ تاریخ کا ہوتا ہے
شاہ خاور نے کہا کہ سپریم کورٹ اس ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ہے اور اس کے فیصلے نافذالعمل بھی ہوتے ہیں، لیکن حتمی فیصلہ تاریخ کرتی ہے کہ وہ فیصلہ درست تھا یا غلط۔ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی سپریم کورٹ آف پاکستان ہی نے سزائے موت دی تھی۔ جس کے نتیجے میں ان کو پھانسی دی گئی اور آج بھی لوگ ان کو شہید کہتے ہیں اور اس فیصلے کو آج بھی کوئی عدالتی نظیر ماننے کے لیے تیار نہیں۔
جوڈیشل ایکٹوزم
2007 سے شروع ہونے والے جوڈیشل ایکٹوزم کے بارے میں بات کرتے ہوئے شاہ خاور نے کہا کہ سپریم کورٹ کے از خود نوٹس اختیارات کے بارے میں کافی اعتراضات سامنے آتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے از خود نوٹس اختیارات کا استعمال جسٹس افضل ظلہ نے 1991 میں بھٹہ مزدوروں کے بنیادی حقوق کے حوالے سے کیا۔ اس نوٹس کا اتنا اثر ہوا کہ بعد میں ان مزدوروں کے حقوق کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی گئی۔ لیکن چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں از خود نوٹس اختیارات کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ چھوٹے چھوٹے معاملات پر بھی از خود نوٹس اختیارات کا استعمال کیا گیا۔
شاہ خاور نے کہا کہ کچھ ایسے چیف جسٹس صاحبان بھی آئے کہ جن کے سامنے ایسے حالات اور ایسی چیزیں آئیں جن پر انہیں از خود نوٹس لینا چاہیے تھا لیکن انہوں نے نہیں لیا۔ انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ بھی آئین کی روح کے منافی رویہ ہے۔
شاہ خاور نے کہا کہ ازخود نوٹس اختیارات کے استعمال میں توازن اختیار کرنا انتہائی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ازخود نوٹس اختیارات کے مقدمات میں اپیل کے حق کے لیے بہت دفعہ بات کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ ازخود نوٹس اختیارات پر اپیل کا حق ہونا چاہیے۔
سپریم کورٹ رولز اینڈ پروسیجر بل
سپریم کورٹ رولز اینڈ پروسیجر ترمیمی بل کے بارے میں بات کرتے ہوئے شاہ خاور ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ابھی وہ ایکٹ بنا نہیں اور سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے پہلے ہی اس کا آپریشن معطل کر دیا۔
عدلیہ کی سیاسی معاملات میں مداخلت کے بارے میں بات کرتے ہوئے شاہ خاور ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے جو مسائل ہوتے ہیں، سیاستدانوں کو خود طے کرنے چاہییں، اور اس کے لیے باقاعدہ فورمز موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب سیاستدان آپس میں لڑائی کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی حیثیت کو نہیں مانتے تو پھر ایسے معاملات کا فیصلہ سپریم کورٹ کرتی ہے۔
فل کورٹ
شاہ خاور کا کہنا تھا کہ ایسے سیاسی نوعیت کی مقدمات جن میں آئینی پیچیدگیاں ہوں، ان کا فیصلہ کرنے کے لیے یا تو لارجر بینچ یا پھر فل کورٹ ہونی چاہیے۔