آئین کے ساتھ واردات

جمعرات 27 اپریل 2023
author image

سجاد لاکھا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ان دنوں وطن عزیز میں انتخابات کو لے کر ہر جگہ کیا پارلیمان ، کیا عدلیہ ، کیا اسٹیبلشمنٹ اور کیا میڈیا جوتیوں میں جو دال بٹ رہی ہے وہ آخر کار کس کے حصے میں کس قدر آئے گی اس سے متعلق کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا تاہم یہ ساری کہانی اس آئین کے گرد ہی گھوم رہی ہے جسے کبھی کسی ریاستی ستون نے احترام کے لائق نہیں سمجھا۔

ایسا کیوں ہوا یہ بات سمجھنے کے لیے ہمیں نصف صدی ماضی کی طرف رخ کرنا پڑے گا جب 1973ء میں ریاست اور شہریوں کے مابین دستوری معاہدے کی بنیاد رکھی جا رہی تھی ، اس وقت ملک کا اکثریتی حصہ مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بن چکا تھا ، ملک میں اپنے تئیں جمہوریت کے تمام دعوے داروں نے ایک متفقہ دستور بنا لیا اور ابھی انہی دنوں بڑے دھوم دھڑکے سے ہم اس کی گولڈن جوبلی تقریبات منا رہے ہیں ۔

ہم یہ نکتہ ذہن میں رکھ کر آگے بڑھیں گے کہ یہ آئین ایک ایسی مخلوق کے لیے لکھا گیا جو تعلیمی شرح کے اعتبار سے الف کو کلی سمجھتی تھی ، لطف کی بات یہ کہ پارلیمان میں ارکان کی اکثریت کا بھی یہی حال تھا ، اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آئین قومی زبان اردو میں لکھا جاتا ، تراجم ملک میں بولی جانے والی تمام زبانوں میں دستیاب ہوتے اور اسے بہت سادہ بنایا جاتا لیکن عالی مرتبت سیاسی اشرافیہ نے آئین کا مسودہ انگریزی زبان میں لکھ ڈالا تاکہ نہ کسی کو سمجھ آئے اور نہ ہی کوئی اس پر سوال اٹھائے۔

طرفہ برآں مشکل ہونے کی وجہ سے تشریح کا استرا بندر کے ہاتھ میں دے دیا ، لگے ہاتھوں اب یہ بھی سن لیجیے کہ جب کبھی تشریح کی نوبت آئی تو وہاں قانونی ماہرین کو بھاری فیسوں کے عوض معاونت کے لیے بلایا جاتا رہا ، کوئی پوچھے اگر پیسے دے کر دوسروں سے یہ کام کروانا تھا تو پھر تشریح کے اختیار سے دست کش کیوں نہ ہوئے ؟

آئین کے ابتدائی آرٹیکلز میں تسلسل کے ساتھ باور کرایا گیا ہے کہ تمام شہری آئین کی نظر میں برابر ہیں لیکن عملی طور پر اسے یقینی بنانے کے لیے کوئی ضمانت فراہم نہیں کی گئی۔ تاویلات کی گنجائش رکھنے کے لیے آئین میں جگہ جگہ یہ تماشا دیکھا جا سکتا ہے کہ جز فلاں فلاں کو فلاں سے ملا کر پڑھیں تو پھر اس کا فلاں مطلب نکلتا ہے ، گویا مطلب نکالنے کے لیے اسے گورکھ دھندہ بنا لیا گیا۔

پارلیمان کے اراکین کو بینکوں سے بھاری قرضے لے کر ہڑپ کرنے اور منافع بخش پرمٹ لینے سے مطلب تھا انہوں نے حسبِ توفیق دستخط اور انگوٹھے لگا کر قوم کو متفقہ دستور عطاء فرما دیا ، کیا ہی اچھا ہوتا اگر آئین کے مطابق بلا لحاظ رنگ نسل زبان عقیدہ تمام شہریوں کو برابری کی بنیاد پر تسلیم شدہ حقوق دیے جاتے اس کے برعکس یہاں طاقت ور اور کمزور کا فارمولا نافذ کر دیا گیا جس پر پوری دیانت داری سے عمل کیا جاتا ہے ، بالا دست طبقات کو انصاف کے نام پر تحفظ فراہم کرنے کے لیے نصف شب کو بھی آفتاب تراش لیے جاتے ہیں اور کمزور کے لیے دن کے اجالے میں بھی گھور اندھیرے ہی کا سماں رہتا ہے ۔

آئین سادہ اور آسان فہم نہ ہونے کے باعث قانون میں بھی سقم چھوڑے گئے تاکہ ان سے فائدہ اٹھا کر مرضی کا انصاف لیا اور دیا جا سکے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر آئین اور قانون کی نظر میں سب برابر ہیں تو عام آدمی کو وہ احترام کیوں میسر نہیں جو اشرافیہ کو حاصل ہے؟

قومی خزانہ شہریوں کے خون پسینے کی کمائی سے بھرتا ہے لیکن وہ خود اس کے ثمرات سے محروم رکھے جاتے ہیں ، عام آدمی کے دیے گئے ٹیکس سے تنخواہیں اور مراعات پانے والے خود کو اعلیٰ مخلوق سمجھ کر اپنے پالنے والے کو حقیر سمجھتے ہیں ، پروٹوکول کے نام پر ریاست کے اصل مالکوں کو شودر ہونے کا احساس دلایا جاتا ہے ، اشرافیہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آسمانی مخلوق بن جاتی ہے اور لوگوں کے حقوق اسے یاد ہی نہیں رہتے ، یوں بھی آئین کے ساتھ واردات کرنے والوں نے شہریوں کو ان کے حقوق کی فراہمی وسائل کی دستیابی سے مشروط کر دی تھی۔

اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت آئین کے لگ بھگ ایک سو آرٹیکلز کا از سرِ نو جائزہ لیا گیا ، کنکرنٹ لسٹ ختم کر کے وفاق اور وفاقی اکائیوں کے مابین تمام معاملات میں بہتری لانے کے لیے صوبائی خودمختاری دی گئی جو یقیناً ایک اچھا قدم تھا۔

اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جمہوریت کے دعوے دار ملک کو پرامن ، مہذب ، ترقی یافتہ اور خوش حال بنانے کے لیے تمام شہریوں کو مساوی حقوق دینے کے عزم کا اعادہ کرتے لیکن اس کے برعکس انہوں نے رجعت پسندی اختیار کی ، غیر مسلم پاکستانی شہری پہلے صرف ملک کا صدر نہیں بن سکتا تھا اور اب وہ وزیراعظم بھی نہیں بن سکتا ، یعنی واردات کے بعد ایک اور واردات ۔

ملک میں جاری سرکس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ از حد ضروری ہو گیا ہے کہ ریاست اور شہریوں کے مابین ایک نیا دستوری معاہدہ تیار کیا جائے جو قومی زبان اردو میں ہو ، تمام علاقائی زبانوں میں ترجمہ دستیاب ہو ، یہ مختلف جزوں کو باہم ملا کر مطلب نکالنے کی آلودگی سے پاک ہو تاکہ تشریح کی حاجت ہی نہ رہے ۔

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp