ڈیمنشیا ایک ایسا خاموش مرض ہے جو انسان کو تنہائی کی سیڑھی سے موت کی دہلیز تک پہنچا دیتا ہے۔ پوری دنیا میں اسے ایک خطرناک مرض کی طور پر دیکھا جاتا ہے جو بڑھاپے میں انسانی دماغ اور اعصاب کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔
بڑھاپے میں لاحق ہونے والی اس بیماری کے باعث انسان دماغی اور اعصابی طور پر کمزور ہوجاتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بیماری شدید ہوتی جاتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں ابھی تک اس مرض کو قبول نہیں کیا جاسکا یہی وجہ ہے کہ اس کے شکار افراد کو تلخ اور دل دکھا دینے والے جملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ مریض بہت مشکلات کا شکار رہتے ہیں، کہیں انہیں پاگل کہا جاتا ہے تو کبھی انہیں جسمانی اذیت پہنچائی جاتی ہے۔
مرض کی شدت سے زیادہ لوگوں کے رویوں سے دل برداشتہ ہوکر یہ لوگ موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میں اس کے مریضوں کی تعداد لاکھوں میں بتائی جاتی ہے، یہ بہت افسوسناک امر ہے کہ اس کے علاج کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کے باوجود کہ ڈیمنشیا کے مریضوں کو خصوص نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے، سرکاری یا نجی سطح پر مریضوں دیکھ بھال کا مناسب انتظام موجود نہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے 2017 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر برس 15 سو 50 افراد ڈیمنشیا اور الزائمر کے باعث موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اس مرض میں انسان دماغی کمزوری کا شکار ہونا شروع ہوجاتا ہے
ماہرین کے مطابق انسان دماغی طور پر کمزور ہونا شروع ہوجائے تو اسے ڈیمنشیا کا شکار مریض قرار دیا جاتا ہے اوراگر اس کی درست وقت پر نگہداشت نہ کی جائے تو یہ بیماری شدت اختیا ر کر جاتی ہے۔
یہ مرض جب بہت پیچیدہ شکل اختیار کر لے تو مریض کے پاس تھوڑا وقت باقی رہ جاتا ہے۔ اگرچہ اسے روکنے کی کوئی دوا دستیاب نہیں تاہم اجتماعی سماجی سرگرمیاں اس کی شدت کم کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہیں اور مریض بہتر زندگی گزار سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی شدت کم کرنے کے لیے کچھ دوائیں دستیاب ہیں لیکن اس کے ساتھ معاشرتی رویے اور تعاون بہت ضروری ہے۔
ایسے مریضوں کے چیک اپ کے لیے ایک پوری ٹیم ہونی چاہیئے جو اس کی جانچ کرسکے، اس ٹیم میں نیورو سرجن، ڈاکٹر اور جسمانی و ذہنی بحالی کے ماہرین شامل ہونے چاہئیں کیونکہ ایسے افراد کو دواؤں کے ساتھ ساتھ اچھے رویے اور مختلف مشقوں کی ضرورت ہوتی ہے۔