ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلباء کے ایک گروپ نے جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب کیمپس میں مظاہرے کیے جن میں گزشتہ برس ایوان اقتدار سے بے دخل کی جانے والی عوامی لیگ پر پابندی لگانے کا پھر مطالبہ کیا ہے۔
یہ احتجاج یونیورسٹی کے ہالپارہ علاقے سے آدھی رات کے بعد 2 بجے شروع ہوا اور راجو بھاسکرجیا (مجسمہ) کے سامنے ختم ہوا۔
طلباء نے یہ مظاہرے بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس کے اس بیان کے خلاف احتجاجاً کیے کہ حکومت کا عوامی لیگ پر پابندی لگانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
واضح رہے کہ جمعرات کو ڈاکٹر محمد یونس نے انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران یہ بیان دیا تھا۔ اس بیان کے فوراً بعد طلبا نے آدھی رات کو اپنا احتجاج شروع کیا اور راجو بھاسکرجیا تک مارچ کیا اور ایک مختصر ریلی نکالی۔
مارچ کے دوران مظاہرین نے پارٹی پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے ہوئے مختلف نعرے لگائے۔
مختصر ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مظاہرین کے ایک لیڈر مصدق علی ابن محمد نے الزام لگایا کہ مختلف سیاسی جماعتیں عوامی لیگ کو بچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انہیں (سیاسی جماعتوں کو) سیاسی ضرورت کے تحت منظر نامے میں جگہ دی جا رہی ہے لیکن عوامی لیگ کو مزید سیاست کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ایک اور طالب علم رہنما اے بی زبیر نے کہا کہ عوامی لیگ نے خونریزی کی ہے، اگر نسل کشی میں ملوث افراد پر پابندی نہ لگائی گئی تو اس ملک کے طلبا اور عوام اسے قبول نہیں کریں گے۔ بنگلہ دیش کے عوام کی نسل کشی میں عوامی لیگ کے کردار کے سبب اس پر پابندی لگانی چاہیے۔
زبیر نے کہا کہ جب تک عوامی لیگ پر پابندی نہیں لگتی عوام کسی قسم کے انتخابات کو قبول نہیں کریں گے۔