سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر آئینی بینچ کا آئندہ 2 سماعتوں پر فیصلہ دینے کا عندیہ

منگل 8 اپریل 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے  7رکنی بینچ نے کی۔

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے جواب الجواب دلائل جاری رکھتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ آئین کے مطابق کورٹ مارشل کورٹس ہائیکورٹ کے ماتحت نہیں ہوتی، آئین میں کورٹ مارشل کی حمایت میں گنجائش موجود ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ سلمان اکرم راجہ نے بھی عدالتی فیصلے کا حوالہ دیا تھا جو ان کی تفہیم کے مطابق تھا، جسٹس حسن اظہر رضوی  بولے؛ پیج 531 اور 533 بھی تھے جو سلمان اکرم راجہ کے خواب میں بھی آتے تھے، یہی پیجز نے انہوں نے بار بار پڑھے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل: آرمی ایکٹ ایک بلیک ہول ہے، سلمان اکرم راجہ کا موقف

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اب ہمیں بھی خواب میں ایف بی علی کی شکل نظر آتی رہتی ہے، جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ایف بی علی کیس میں کہا گیا کہ گٹھ جوڑ ثابت ہونے کی بنیاد الزام کی نوعیت پر ہوگی۔

جسٹس جمال مندوخیل کے مطابق ایف بی علی کیس میں کہا گیا کہ گٹھ جوڑ کی بنیاد دفاع پاکستان سے متعلق ہوگی، کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ صرف آرمڈ فورسز کے ارکان کے لیے ہوگا، کیونکہ اس فیصلے میں کہا گیا کہ جن پر آرمی ایکٹ کی سیکشن ڈی کا اطلاق ہوگا، ان پر باقی ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوگا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے دریافت کیا کہ ایک سازش جو ابھی ہوئی نہیں، اس پر قانون کا اطلاق کیسے ہو گا، جس پر خواجہ حارث بولے؛ سازش کرنے پر بھی آرمی ایکٹ کا نفاذ ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل،سیکشن 94 کا اطلاق ان پر ہوگا جو آرمی ایکٹ کے تابع ہیں، جسٹس جمال مندوخیل

جسٹس محمد علی مظہر کے مطابق ضابطہ فوجداری میں بھی قتل اور اقدام قتل کی الگ الگ شقیں ہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل نے بتایا کہکرمنل جسٹس سسٹم کو آرٹیکل 175 کی شق 3 کے تحت تحفظ حاصل ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ انہیں ایک کنفیوژن ہے جس پر ایک سوال پوچھنا چاہتی ہیں، پریس والے بیٹھے ہیں نجانے میری آبزرویشن کو کیا سے کیا بنا دیں، اپیل کا حق بھی نہیں ہے، کیا عام قانون سازی کرکے شہریوں سے بنیادی حقوق لیے جا سکتے ہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی بولیں؛ کیا آئینی ترمیم کرکے سویلین کا ملٹری ٹرائل نہیں ہونا چاہیے تھا، بھارت میں ملٹری ٹرائل کیخلاف آزادانہ فورم موجود ہے۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: عام شہری کے گھر گھسنا بھی جرم ہے، جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ویسے اپیل کی حد تک تو  اٹارنی جنرل نے عدالت میں گزارشات پیش کی تھیں، ان کی گزارشات عدالتی کارروائی کے حکمناموں میں موجود ہے، بنیادی حقوق ملنے یا نہ ملنے کا معاملہ یا اپیل کا معاملہ ہمارے سامنے ہے ہی نہیں۔

آج کی سماعت کے دوران آئینی بینچ نے کیس آئندہ دو سماعتوں پر مکمل کرنے کا عندیہ دیا، بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے وزارت دفاع کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اٹارنی جنرل کو خود عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ جب آرٹیکل 8 کی شق 3 اے کے تحت معاملہ عدالت آ ہی نہیں سکتا تو پھر بات ختم، پھر کیسی اپیل، جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ میں کسی کو اپیل کا حق نہیں دے رہا، بین الاقوامی طور اپیل کا حق دینے کی دلیل دی گئی۔

دوران سماعت سانحہ جعفر ایکسپریس کا تذکرہ

وزارت دفاع کی نمائندگی کرتے ہوئے خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ مئی کے جرائم ریاستی مفاد کے خلاف تھے، جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ کوئی بھی قانون کی خلاف ورزی ریاستی مفاد کی خلاف ہوتی ہے، تمام جرائم ریاستی مفاد کیخلاف ہوتے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ کیا بولان میں ہونے والا ٹرین کا واقعہ ریاستی مفاد کیخلاف نہیں تھا، آرمڈ فورسز کا بنیادی کام دفاع پاکستان کا ہے، جس پر خواجہ حارث بولے؛ پھر ہم دفاع کیسے کریں گے جب پیچھے سے ہماری ٹانگیں کھینچی جائیں گی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی جذباتی ہونے کا نہیں ملکی سیکیورٹی کا معاملہ ہے، ایک پولیس والے کی ڈیوٹی ہماری عدالت کے دروازے کے باہر ہو، اس پولیس والے کی ڈیوٹی ہوگی کہ کوئی اسلحہ سے لیس شخص عدالت داخل نہ ہو۔

مزید پڑھیں:

اپنی مثال کی وضاحت کرتے ہوئے جسٹس جمال مندوخیل نے دلیل دی کہ اگر وہ پولیس والا پانچ منٹ کے لیے ادھر ادھر ہو جائے تو اس نے ڈسپلن کی خلاف ورزی کی، کیا یہ سیکیورٹی آف اسٹیٹ نہیں ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے دریافت کیا کہ آرمی ایکٹ کے اندر سول جرائم کی تعریف موجود ہے، کیا آرمی ایکٹ کی شق 59(4) کو کالعدم قرار دینے سے سویلینز آرمی ایکٹ کے زمرے سے باہر ہوگئے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے مزید استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کے 23 اکتوبر کے فیصلے کا اثر یہ ہوگا کہ اب کسی سویلین کا ٹرائل نہیں ہوگا، جس پر خواجہ حارث بولے؛ میرے خیال سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا یہی اثر ہوگا۔

مزید پڑھیں:

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ صاف واضح ہے کہ اگر کوئی مستری فوج کے لیے کام کررہا ہے تو اس دوران جرم پر اس کا ملٹری ٹرائل ہوگا، مستری اگر ایک سال بعد فوج کی بجائے کسی اور کے ساتھ کام کرے تو اس پر سول ایکٹ کا اطلاق ہوگا۔

خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ نے میرے سوال کا ابھی تک جواب نہیں دیا کہ ملٹری کورٹس آئین کی کونسی شق کے تحت ہیں، کیونکہ ملٹری کورٹس آرٹیکل 175 میں نہیں آتیں۔

اس موقع پر خواجہ حارث کا موقف تھا کہ ملٹری کورٹس ہر وقت دستیاب عدالت نہیں ہوتی، وقتاً فوقتاً بلائی جاتی ہے، جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ آئین کے آرٹیکل 175 کے تحت عدلیہ کو ایگزیکٹیو سے کون الگ کرےگا، خواجہ حارث کے مطابق یہ کام تو ایگزیکٹو کا ہے۔

مزید پڑھیں:

 خواجہ حارث کو کل دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp