فیض احمد فیض اور لینن امن انعام

جمعرات 1 جون 2023
author image

خرم سہیل

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

نوٹ: فیض احمد فیض نے لینن انعام برائے امن یکم جون 1962 کو ماسکو میں منعقدہ ایک تقریب میں وصول کیا۔ یہ تحریر اپریل 2023 میں شائع کی گئی تھی جسے آج کے دن کی مناسبت سے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔


ایوارڈز کیوں دیے جاتے ہیں؟

دنیا بھر میں ایوارڈز اور اعزاز دیے جانے کی مستند روایات موجود ہیں۔ ان ایوارڈز کے ذریعے کسی فرد کی قابلیت کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں مختلف نوعیت کے اعزازات جاری کیے گئے ہیں، جو مختلف اداروں، حکومتوں اور بادشاہتوں کی طرف سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف شعبوں میں باصلاحیت افراد کو دیے جاتے ہیں۔ یہ بھی ایک پرانی بحث ہے کہ اعزازات کی تقسیم میں کس حد تک انصاف کے تقاضے پورے کیے جاتے ہیں، اس کے باوجود بھی ان اعزازات کی اہمیت اپنی جگہ مقدم ہے۔

دنیا کے چند مشہور اعزازات

پاکستان میں بھی حکومتی اور نجی سطح پر مختلف شعبہ جات میں ماہرین فن کو ایوارڈز دیے جاتے ہیں، لیکن جس طرح کچھ عرصے میں سرکاری ایوارڈز کی بندر بانٹ دیکھنے میں آرہی ہے، اس سے یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ اب افراد کا باصلاحیت ہونے کے بجائے تعلقات کا ماہر ہونا زیادہ ضروری ہے، تب ہی ان سرکاری اعزازات کا حقدار ٹھہرا جا سکتا ہے، بہرحال اس صورتحال کے باوجود کچھ ایسی نابغہ روزگارشخصیات بھی ہیں، جن کو یہ ایوارڈ برحق ملا ہے۔

’نوبیل پرائز‘ سویڈن کی نوبیل اکیڈمی کی طرف سے دیا جاتا ہے۔

نشان پاکستان سب سے بڑا سرکاری سویلین ایوارڈ ہے، جو غیر ملکی شخصیات کو ان کی خدمات کے اعتراف میں عطا کیا جاتا ہے۔

اسی طرح دنیا بھر میں جو چند ایوارڈز، جن کی بہت شہرت ہے، ان میں سرفہرست’نوبیل پرائز‘ ہے، جو مختلف شعبہ جات میں دیا جاتا ہے۔ یہ سویڈن کی نوبیل اکیڈمی کی طرف سے دیا جاتا ہے۔ اسی طرح ادب کی دنیا میں ’بُکر پرائز‘ ایوارڈ بہت اہمیت کا حامل ہے، جو برطانیہ کی طرف سے انگریزی زبان میں ناول لکھنے والے مصنف کو دیا جاتا ہے، اسی طرح برطانوی شاہی ایوارڈ بھی دنیا بھر میں برطانوی ثقافت و سفارت کے لیے خدمات انجام دینے والوں کو دیا جاتا ہے۔

جاپان میں شاہی ایوارڈ اسی سلسلے کی کڑی ہے، جو پاکستان میں بھی کئی معروف شخصیات کو مل چکا ہے۔ یورپ کے کئی ممالک میں بادشاہتوں، حکومتوں اور تنظیمی اداروں کی طرف سے ایسے اعزازات دیے جانے کی طویل فہرست ہے۔ فلموں اور شوبز کی دنیا میں ملنے والے اعزازات سے بھی ایک زمانہ واقف ہیں، جن میں ’آسکر ایوارڈ‘ کی حیثیت کلیدی ہے اور ایشیائی فلمی صنعتوں میں’گولڈن ہارس ایوارڈ‘ کو نمایاں مرتبہ حاصل ہے۔

دائیں اور بائیں بازو کی فکری خلیج، فرق اور اعزازات کی تقسیم

نوبیل پرائز  بین الاقوامی شہرت کا حامل اعزاز ہے، تاہم پاکستان میں بائیں بازو کی فکر کے افراد کو اس پر ہمیشہ اعتراض رہا ہے کہ یہ ایوارڈ ایسے افراد کو دیا جاتا ہے، جو سرمایہ داری کے حامی، سوشلزم اور اشتراکی سوچ کے مخالف ہوں، یا پھر ان کے ہاں کوئی مذہبی متنازعہ پہلو ہو، جس طرح ڈاکٹر عبدالسلام کو خاص فزکس کے شعبے میں خدمات پر نوبیل انعام دیا گیا، لیکن ایک عام خیال ہے کہ وہ اقلیتی فرقے سے تعلق رکھتے تھے، اس لیے انہیں یہ ایوارڈ ملا۔

اسٹالن انٹرنیشنل پیس پرائز کا نام بدل کر لینن امن انعام رکھا دیا گیا تھا۔

اسی طرح ملالہ یوسف زئی کو نوبیل امن انعام ملا، تو اس بارے میں بھی یہی قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کی متنازع شخصیت ہے، اسی لیے ان کو عالمی طاقتوں نے یہ ایوارڈ دلوایا۔ دوسری طرف یہ بحث بھی ہے کہ ہمارے ہاں علامہ اقبال جیسے بڑے شاعر کو نظر انداز کیا گیا جب کہ ان کے ہم عصر بنگالی شاعر رابندر ناتھ ٹیگور کو نوبیل پرائز دے دیا گیا۔ اس طرح کئی دیگر شخصیات کو ملنے والے یا اعزاز متنازع سمجھا جاتا ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد سوویت یونین کے زمانے میں ’اسٹالن انٹرنیشنل پیس ایوارڈ‘ کی بنیاد رکھی گئی، جو بعد میں ’لینن امن انعام‘ بن گیا۔ اس کو حاصل کرنے والوں کے لیے بھی سوویت یونین کی حمایت، اشتراکی فکر کا ہونا اور دیگر ایسے کئی پہلو تھے، جن کے حوالے سے دنیا بھر میں اعتراضات ہوتے تھے، بہرحال یہ اعزاز نوے کی دہائی تک دیا جاتا رہا۔

سوویت یونین نے اپنے شہریوں کے لیے سب سے بڑا جو جنگی ایوارڈ جاری کیا تھا، اس کانام ’آڈر آف دی لینن‘ تھا۔ یہ ایوارڈ روس کے اکتوبر انقلاب، جس کو بالشویک انقلاب بھی کہا جاتا ہے، سے منسوب تھا۔ یہ ایوارڈ ایک جرمن اور چار امریکیوں کو بھی دیا گیا۔ یہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے کا ایوارڈ ہے۔ نوے کی دہائی میں یہ بھی معطل ہوگیا۔

نشان پاکستان سب سے بڑا سرکاری سویلین ایوارڈ ہے۔

لینن امن انعام کا تاریخی پس منظر

ایک عام خیال ہے کہ اسٹالن انٹرنیشنل پیس پرائز کو نوبیل انعام کے مقابلے میں جاری کیا گیا تھا۔ یہ انعام اسٹالن کی 70ویں سالگرہ کے موقع پر 1949ء میں جاری کیا گیا تھا۔ یہ انعام ایسی شخصیات کو دیا جاتا تھا، جن کے ہاں اشتراکی فکر موجود ہو اور جو سوویت یونین کی ریاستی پالیسیوں کے حامی ہوں۔ اس انعام کا فیصلہ سوویت یونین کے سرکاری افسروں پر مشتمل کمیٹی کیا کرتی تھی۔ اسٹالن کی وفات کے بعد جب خروشچیف برسراقتدار آیا، تو اس نے اس انعام کا نام تبدیل کرکے لینن پیس پرائز کر دیا، لیکن انعام دینے کا بنیادی اصول قائم رہنے دیا۔

یہ انعام ایک ساتھ کئی شخصیات کو دیا جاتا تھا۔ یعنی ایک سال میں متعدد شخصیات کو یہ ایوارڈ ملتا، جن کا تعلق مختلف ممالک سے ہوتا، لیکن ان کی فکری اساس اشتراکیت ہوتی۔ اس انعام کے قابل ذکر وصول کنندگان میں فیڈل کاسترو، اینجلا ڈیوس، پابلو پکاسو، فیض احمد فیض، نیلسن منڈیلا، عبدالستار ایدھی سمیت دیگر شامل ہیں۔

یہ ایوارڈ جو پہلے ’اسٹالن ایوارڈ‘  کہلاتا تھا، 1951 سے 1955 کے دوران امریکا، برطانیہ، فرانس، میکسیکو، شمالی کوریا، چین، برازیل، جاپان، مشرقی و مغربی جرمنی، انڈیا، سویڈن، بیلجیم، اٹلی، پولینڈ، چلی، سوئزر لینڈ، آسٹریا، کیوبا، فن لینڈ، برما، انڈونیشیا، کولمبیا، برما، ناروے، ویت نام اور ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے 48 مختلف افراد کو دیا گیا، اس کے بعد پھر یہ ایوارڈ ’لینن امن انعام‘ کے نام سے دیا جانے لگا۔

ادب کی دنیا میں ’بُکر پرائز‘ ایوارڈ بہت اہمیت کا حامل ہے۔

لینن امن انعام

اس نئے نام سے یہ ایوارڈ 1957 سے شروع ہوا، جو ہر سال مختلف شعبہ جات میں کئی افراد کو دیا جاتا تھا اور یہ نوے کی دہائی تک جاری رہا۔ اس دور میں ایوارڈ پانے والے ممالک میں پاکستان کے علاوہ فرانس، آسٹریا، اٹلی، ارجنٹائن، سوویت یونین، انڈیا، چیکوسلاویہ، سویڈن، جاپان، مشرقی و مغربی جرمنی، برطانیہ ، کینیڈا، شام، عراق، انڈونیشیا، کیوبا، پولینڈ، آسڑیلیا، رومانیا، گھانا، ہنگری، اسپین، چلی، یونان، مالی، بلغاریہ، الجزائر، جاپان، ڈنمارک، نائیجیریا، منگولیا، فن لینڈ، گوئٹے مالا، جنوبی افریقا، نیدر لینڈز، مصر، سوڈان، اسٹریلیا، لبنان، یوروگوئے، گھانا، نمیبیا، آئرلینڈ، موزمبیق، ویت نام، وینز ویلا، فلسطین، نکارگوا، تنزانیہ اور آئرلینڈ شامل ہیں۔ ان ممالک کی کل 121 شخصیات کو یہ ایوارڈ دیا گیا۔

فیض، ایدھی اور لینن امن انعام

فیض احمد فیض کو یہ انعام 1962 میں دیا گیا، اس وقت ان کے علاوہ عالمی شہرت یافتہ مصور’پابلوپکاسو‘ کو بھی یہ اعزاز دیا گیا، جب کہ اسی سال یہ ایوارڈ وصول کرنے والے دیگر افراد میں ہنگری اور گھانا کے وزیراعظم’استوان دوبی‘ اور ’کوامے نکروما‘ کے علاوہ چلی کی معروف فیمنسٹ خاتون اور مدرس ’اولگاپوبلیٹ‘ بھی شامل ہیں۔,

فیض احمد فیض کو یہ انعام 1962 میں دیا گیا۔

عبدالستار ایدھی کو یہ ایوارڈ 1988 میں دیا گیا، اس سال یہ واحد ایوارڈ وصول کنندہ تھے۔ جن کو یہ ایوارڈ ملا، ان کے بعد اگلے سال نیلسن منڈیلاکو یہ ایوارڈ ملا اور پھر یہ ایوارڈ جاری ہونا بند ہوگیا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ ہی اس ایوارڈ کی اہمیت بھی ختم ہوگئی۔

فیض اور ایدھی کے مقبولیت ان کے اصل ایوارڈز

دنیا بھر میں سینکڑوں ایوارڈز حاصل کرنے کے باوجود حقیقی طور پر سب سے بڑا ایوارڈ وہی ہوتا ہے، جو آپ کو خواص کے بجائے عوام دیتے ہیں۔ عوام کی دی ہوئی محبت اور شہرت ، تخلیق کار اور ہنر مند کو دوام دیتی ہے۔ ایسے ہی لوگ پھر اس دنیا سے جانے کے بعد بھی عوام کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔ فیض کی شاعری اور ایدھی کی انسانیت کے لیے خدمت کا جذبہ پوری دنیا میں پاکستان کے روشن چہرے کو پیش کرتا ہے۔

دنیا بھر میں مختلف اداروں، حکومتوں اور بادشاہتوں کی طرف سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف شعبوں میں باصلاحیت افراد کو ایوارڈز دیے جاتے ہیں۔

بلاشبہ یہ ہمارا فخر ہیں اور آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بھی کہ انہوں نے اپنے ملک کی تاریکیوں میں علم و خدمت کے چراغ روشن کیے۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے گئے نام ہیں، جن کو ہم فیض اور ایدھی کہتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp