صبح ۔ شام ۔ رات

اتوار 30 اپریل 2023
author image

صنوبر ناظر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

صبح

سائرن بجاتی ایمبولینس تیز رفتاری سے ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کے سامنے رُکی، اسٹریچر پر ایک 7 سالہ بچی کو بھاگم بھاگ آپریشن تھیٹر کی جانب لے جایا جا رہا تھا۔ بچی کے چہرے، سینے، ٹانگوں اور ہاتھوں پر بے رحمانہ تشدد کے نتیجے میں آنے والے زخموں سے خون بہہ رہا تھا۔ ادھ موئی بچی آپریشن تھیٹر میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھی۔

ابھی تو ایک برس بھی پورا نہیں ہوا تھا مجھے گاؤں سے یہاں آئے، چاچا نے ابا کو کہا تھا کہ مالک اور مالکن بڑے دل والے ہیں وہ مجھ کو گھر کے کام کرنے کے عوض تنخواہ کے علاوہ پڑھائیں گے بھی۔ آنے سے پہلے میرے خوابوں میں  ہر طرف رنگ برنگی کتابیں بکھری ہوئی تھیں۔

دل والے مالکوں کے گھر کام کرتے کئی دن بیت گئے پر خواب والی ایک بھی رنگ برنگی کتاب میرے حصے نہ آئی۔ آہستہ آہستہ وہ کتابیں میرے خوابوں سے بھی روٹھ گئیں۔ اس گھر میں ایک ہی ذی روح میرا ہم جولی تھا، اور تھا میرے مالکوں کا ’طوطا‘، جو دن بھر پنجرے میں بیٹھا گھر والوں کی باتیں بڑے پیار سے دہراتا رہتا۔

اس کے پنجرے میں دانہ پانی ، چُوری اور ہری مرچ ڈالنا میری ذمہ داری تھی۔ میری طرح بظاہر مطمئن نظر آنے والا وہ طوطا بھی میری طرح اداس تھا۔ ہم ایک دوسرے کی اَن کہی باتوں کو خوب سمجھنے لگے تھے۔ یہ ستم ہی تو تھا کہ ہم دونوں کھلی فضاؤں کےپنچھی ایک جیسے قفس کا شکار تھے۔  بارہا مجھے اس کی آنکھیں ’پنجرہ کھول دو‘ کی التجا کرتی محسوس ہوئیں۔

جب گھر والے کہیں باہر جاتے تو ہم دونوں خوب کُھسر پُھسر کرتے۔ میں طوطے سے رنگ برنگی کتابوں اور ’مالکن کی مار‘ کا بلا جھجھک تذکرہ کرتی۔

آج یکم مئی تھا اور چھٹی والے دن مجھ پر کام کا بوجھ دُگنا ہوجاتا۔ خدا جانے آج طوطا بھی صبح سے میری کتابوں والے راز سے پردہ اٹھا رہا تھا۔ مالکن کے کان بار بار کھڑے ہو رہے تھے۔ آج انہیں مجھ پر معمول سے زیادہ غصہ آرہا تھا۔ ایک دو بار طوطے کو بھی بری طرح جھڑکا دیا۔

دوپہر کو جب میں نے چُوری ڈالنے کے لیے پنجرہ کھولا تو یہ سوچ کر کہ ہم میں سے ایک کو تو رہائی  نصیب ہو، دانستہ اُسے کھلا ہی چھوڑ دیا۔ طوطے نے میری جانب ایک تشکر کی نظر ڈالی اور پُھر  سے آسمان کی طرف پرواز کر گیا۔

اس کے بعد کیا ہوا مجھے کچھ یاد نہیں، سوائے صاحب جی کے بیٹ اور مالکن کے گھونسوں کے۔فضا میں لاتعداد طوطے اور  نیلی، پیلی، لال اور  نارنجی کتابیں محو رقص میری دسترس میں ہیں۔آج میں اور طوطا دونوں اس قید سےآزاد ہوئے۔

سات سالہ بچی کے وینٹی لیٹر پر دو دن سے ٹیڑھی میڑھی چلنے والی لائن ایک سیدھ میں چلنا شروع ہوگئی تھی۔

شام

’آگیا باسٹرڈ‘ ! شہر کے پوش علاقے میں بنے عالیشان گھر کے انٹر کام پر اپنے آنے کی اطلاع دینے پر پیچھے سے زنانہ ہرزہ سرائی ہوئی۔

ضروری نہیں کہ دولت کی فراوانی دل کی کشادگی کا بھی باعث ہو، اس لیے کہ عام طور پر ’جتنا دھن اتنا ہی دل تنگ‘ والا معاملہ ہوتا ہے۔

’وائے آر یو سو لیٹ؟‘ کب سے ہم کھانے کا ویٹ کر رہے ہیں۔ ایک مردانہ آواز آئی۔

’سر وہ بارش تیز تھی اور میری بائیک بیچ راستے میں بند ہوگئی تھی اس لیے دیر ہوگئی‘ میں منمنایا ۔۔

’مجھے کمپلین کرنی پڑے گی اب، نام کیا ہے تمھارا؟‘

آدمی کی آواز میں اب تک غصہ تھا۔

’سوری سر آئندہ ایسا نہیں ہوگا‘۔

میں بارش میں شرابور ہو رہا تھا اور ساتھ ساتھ اپنی اور بائیک کی قسمت کو کوس رہا تھا۔

اللہ اللہ کر کے ان کا ملازم باہر آ کر اپنا آڈر لے کر چلتا بنا۔ عیدی یا ٹپ تو دور کی بات مجھے تو اپنی نوکری چھن جانے کا ایسا دھڑکا لگا کہ فوراً بائیک وہاں سے بھگائی۔

میرا یہ دوسرا سال تھا گھروں میں کھانے کے آڈر پہچانے کا۔

ہم لوگوں کی مغلظات سننے کے عادی گئے ہیں۔ دیر ہو جانے کے باوجود اگر کوئی آڈر وصول کرتے ہوتے تمیز کا مظاہرہ کرے تو اس کی دماغی صحت پر شبہ ہونے لگتا ہے۔

صبح سے جو یہ کام شروع ہوتا تو رات کب ہوتی پتا ہی نہیں چلتا۔ تھکن کا احساس روز چارپائی پر لیٹ کر ہی ہوتا، جب جسم پھوڑے کی مانند دُکھنا شروع ہوتا تو نیند کہیں بھاگ جاتی۔

دن بھر کوہلو کے بیل کی طرح کام میں جُٹے رہنا جسم کی ساری توانائی نچوڑ لیتا تو دوسری طرف دل چوری چھپے اپنی پھٹیچر سی موٹر سائیکل پر لگے ڈبے میں بھرے لوازمات کھانے کو مچل پڑتا۔

شہر بھر کے لوگوں کو موسم کے تغیر سے قطع نظر ان کا من پسند ’من وسلوہ‘ پہنچانا میرے پیشہ ورانہ فرائض میں شامل تھا۔آپ خود فیصلہ کریں کہ کیا میرا دل نہیں چاہتا ہوگا کہ بےشک محدود ہی سہی پر میں بھی اس لذیذ خوراک کو اپنے معدے میں اتار سکوں۔

لیکن ہمارے نصیب میں فائیو اسٹار کیفے، ریسٹورنٹ اور ہوٹل کے سامنے دست بستہ قطار در قطار اپنی باری کا انتظار کرنا لکھا تھا کہ جتنے زیادہ آڈر پہنچائیں گے اتنا ہی ہمارا کمیشن بڑھے گا۔

عید کا پہلا دن تھا اور یہی سوچ کر ڈیوٹی کرنے کی حامی بھری تھی کہ ٹپ مع عیدی ملنے کا امکان تھا مگر بارش نے سب تلپٹ کر دیا ۔ منحوس دن ہے آج میرے لیے۔ بارش رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ کیفے کی انتظامیہ ہوم ڈلیوری کے آڈر لینے سے اجتناب برت رہی تھی۔

پورے دن صرف ایک آڈر ہاتھ آیا اور وہ بھی بنا ٹپ کا ثابت ہوا۔ شام ہونے کو آئی تھی سوچا گھر جاؤں کہ اس بارش میں مزید کسی آڈر کی توقع نہیں تھی۔ ابھی اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ کیفے سے فون آیا کہ ایک آڈر پہچانا ہے ارجنٹ۔

پتا چونکہ ایک پرتعیش اپارٹمنٹس کا تھا تو میں نے آناً  فاناً آڈر کا پارسل لیا اور تھوڑی ہی دیر میں میری بائیک ہوا سے باتیں کرنے لگی۔

وقت سے پہلے  پہنچا تو ایک اچھی ٹپ اور عیدی ملنے کی امید جاگی۔ تیسری منزل پر اپارٹمنٹ کا پتا تھا۔ لفٹ میں داخل ہوا تو دل نے پھر کہا کہ ایک اچھی ٹپ آج ضرور میری منتظر ہوگی۔ تیسری منزل پر لفٹ سے نکلا تو  سامنے خوبصورت بالکنی سے ہلکی بارش کی پھوار بڑی دلفریب معلوم ہو رہی تھی۔

منزل مقصود پر پہنچ کر ابھی بیل بجائی ہی تھی کہ ساتھ والے اپارٹمنٹ کا دروازہ کھلا اور دفعتاً ایک خونخوار کتا میری جانب لپکا۔ ڈر کے مارے میرے ہاتھ سے کھانے کا پارسل زمین پر آگرا ۔ میں نے آؤ دیکھا نا تاؤ اور بنا سوچے سمجھے دوڑ لگادی۔

مجھے لگا کہ آج میں اس بھوکے کتے کا شکار  بننے والا ہوں۔ ڈر جب غالب آجائے تو ذہن سُدھ بُدھ کھو بیٹھتا ہے۔ تیزی سے بھاگتے ہوئے میں سامنے شیشہ لگی بالکنی سے آ لگا۔ بالکنی اب میری پشت پر تھی اور بھاگنے کا کوئی راستہ نہ تھا ۔ اسے پہلے کہ کتا مجھ پر حملہ کرتا میں نے تیسری منزل کی خوبصورت بالکنی سے چھلانگ لگانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ کیونکہ واقعی آج کا دن میرے لئے منحوس ہی تھا۔

بارش میں خون اور پانی یکجا ہوتے رہے اور پارکنگ میں کھڑی پھٹیچر بائیک اپنی ہم سفر کا انتظار کرتی رہی۔

رات

جنوری کی ٹھٹھرتی سرد رات کے دوسرے پہر ایک معصوم کی سسکیاں اندھیرے اور سناٹے کو چیر رہی تھیں۔

آج اس تیرہ سالہ بچی کو مالکوں نے رَج کر پیٹا تھا۔ وجہ کام میں کوتاہی ہرگز نہیں بلکہ مالکن کے چھوٹے بیٹے کی ٹھرک پر سِر تسلیم خم نہ کرنا تھا۔

سال بھر پہلے اس کا باپ  اسے گاؤں سے شہر کام کی غرض سے لایا تھا، جو مالکوں سے ایڈوانس کی رقم پکڑ کر اس ننھی جان کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ کر چل بنا تھا۔ ایک طرح سے بیچ ہی ڈالا تھا۔

بچی گھر کے پچھلے حصے میں بنی ٹنکی کے پیچھے گٹھری بنی چھپ کر ایسے بیٹھی تھی کہ اُس پر کسی کی نظر نہ پڑ سکے۔

جسم پر لاتوں مُکوں کی بارش کے باعث اب درد کی ٹیسیں کھلے اور ٹھنڈے آسمان کے نیچے مزید توانا ہوگئی تھیں۔ ایسے میں ماں کی گرم گود کے بجائے وہ گیلی سرد زمین پر سکڑی بیٹھی تھی۔

معصوم ذہن کے لیے سب گھر والوں کے رویے سمجھ سے بالاتر تھے۔ اپنی دانست میں تو اس نے اپنے چھوٹے مالک کی دست درازی کی شکایت کر کے صحیح قدم اٹھایا تھا۔ نہ جانے کیوں پھر سب نے اسے ہی ڈرایا دھمکایا اور پھر روئی کی طرح دُھنک کر رکھ دیا۔

سارے گھر والے صوم و صلاة کے پابند اور پردے کے معاملے خاصے حساس د تھے۔ شاید اسی لئے اپنے لاڈلے کی بدکاری کا پردہ رکھنا بھی ضروری سمجھا تھا۔

رات کی تاریکی میں بچی کی سسکیاں دم توڑتی محسوس ہورہی تھیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp