جب خودکشی سے قبل ہٹلر نے اپنی گرل فرینڈ کی آخری خواہش پوری کی

منگل 30 اپریل 2024
author image

ڈاکٹر عثمان علی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

’گو کہ جرمن فوجوں کو ہر محاذ پراتحادیوں کے مقابلے میں پسپا ہونا پڑ رہا ہے،  لیکن اس کے باوجود فیوہرر اور ہماری فوج کے حوصلے بلند ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ چند روز میں ہم اس نازک صورت حال پر پوری طرح قابو پا کے دشمن کو پیچھے دھکیل دیں گے‘۔

ہٹلر کی سالگرہ کے دن روسی مارشل زوخوف نواح برلن تک پہنچ چکا تھا۔

جنرل گوئبلز کی خود فریبی

یہ تقریر جنرل جوزف گوئبلزنے  20 اپریل 1945ء کو جرمن فیوہرر ایڈولف ہٹلر کی 56 ویں سالگرہ کے موقع پر ریڈیو سے نشر کی، جس میں عوام کو فیوہرر اور جرمن فوجوں پر مکمل اعتماد اور بھروسہ رکھنے کی ہدایت کی گئی۔ مگر حقیقت میں حالات انتہائی بدترین صورت حال اختیار کر چکے تھے۔ جنرل گوئبلز خوب جانتا تھا کہ روسی فوجیں مارشل زوخوف کی قیادت میں برلن کی سرحدوں پر دستک دے رہی ہیں اور وہ دن دور نہیں جب روسی فوجیں اتحادیوں کے ساتھ باآسانی برلن فتح کر لیں گی۔ اس کے باوجود جنرل گوئبلز اپنی تقریر میں عوام اور فوج کا حوصلہ بلند رکھنے کے لیے خود فریبی کا شکار ہو رہا تھا۔

ہٹلر کی سالگرہ

ہٹلر کی سالگرہ کے دن یعنی 20 اپریل 1945ء تک روسی مارشل زوخوف جرمن فوجوں کو ’اوڈور‘ کے مقام پر پیچھے دھکیل کر نواح برلن تک پہنچ چکا تھا۔ دوسری طرف دریائے ایلبےکے کنارے ’ٹورگوا‘ کے مقام پر جو برلن سے صرف 75 میل دور تھا، پیدل امریکی فوجی دستے روسیوں کے شانہ بشانہ موجود تھے۔ جرمنی دو حصوں میں بٹ چکا تھا اور خشکی کے سب راستے اس کے لیے مسدود ہو چکے تھے۔

ان نامساعد حالات کے باوجود ہٹلر نے اپنی سالگرہ کی تقریب منائی جس میں وہ بہت خوش دکھائی دے رہا تھا اور اپنی پسندیدہ چائے سے شغل کر رہا تھا۔ یہ چائے صرف خاصی اس کے لیے منگوائی جاتی تھی اور جنگ کے دنوں میں یہ کہیں بھی دستیاب نہ تھی۔

ہٹلر اور ایوا براؤن نے شادی والے روز خود کشی کرکے زندگی کا خاتمہ کرلیا۔

حالات کی سنگینی

سالگرہ کی تقریب میں بڑے بڑے جرمن جنرلز موجود تھے جن میں جنرل ربن ٹراپ، جنرل کیسٹل، فیلڈ مارشل کیٹل، جنرل گوئبلز، جنرل ہملر، جنرل کربس، جنرل برگروف، جنرل بورمین اور جنرل گوئرنگ نمایاں تھے۔ ان جنرلز نے حالات کی سنگینی کے پیش نظر ہٹلر سے درخواست کی کہ وہ برلن سے اپنی جان بچا کر نکل جائے، مگر ہٹلر نے کسی کی بات پر کان نہ دھرے اور غصےکے عالم میں صرف اتنا کہا ’میں اسی شہر میں اپنی زندگی کے آخری دن پورے کروں گا‘۔ بار بار کی تکرار سے تنگ آ کر ہٹلر نےموضوع تبدیل کرنے کے لیے فیلڈ مارشل کیسلرنگ اور ایڈمرل ڈونر سے اتحادیوں کو پیچھے ہٹانے کے منصوبوں پر گفتگو شروع کر دی۔

جامِ صحت

تقریب میں موجود لوگوں کو اندازہ ہو گیا کہ ہٹلر کسی صورت بھی برلن سے نکلنے پر آمادہ نہ ہو گا، اس لیے وہ بھی ٹھنڈے ہو کر بیٹھ گئے۔ دوسرا ان کو ہٹلر کی آمرانہ سوچ کا اندازہ تھا جو اسے کسی صائب رائے کو اختیار کرنے سے روک دیتی تھی۔ بعد ازاں ہٹلر کی محبوبہ ’ایوا براؤن‘ نے اس کا جامِ صحت تجویز کیا اور سب لوگوں نے شراب کا جام نوش کیا جس کے بعد یہ تقریب اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔

یہ سالگرہ ’فیوہرربنکر‘ میں منائی گئی جو کہ ایک محفوظ پناہ گاہ کے طور پر سطح زمین سے تقریبا پچاس فٹ نیچے اس وقت تعمیر کی گئی تھی جب ہٹلر کا فوجی ہیڈکوارٹر ’رچ چانسلری‘ شدید بمباری کے باعث تباہ ہو گیا تھا۔

روسی مارشل زوخوف جرمن فوجوں کو ’اوڈور‘ کے مقام پر پیچھے دھکیل کر نواح برلن تک پہنچ چکا تھا۔

’فیوہرر بنکر‘

’فیوہرر بنکر‘ 18 مختصر کمروں پرمشتمل پناہ گاہ تھی جسے چانسلری کا درجہ دے دیا گیا تھا۔ اس زیر زمین بنکر کا درمیانی راستہ دو حصوں میں منقسم تھا۔ اس کے ساتھ ہی بیت الخلا، گارڈ روم، ایمرجنسی ٹیلیفون ایکس چینج اور پاور ہاؤس تھا۔ مرکزی درمیانی راستہ کانفرنس روم کے طور پر مستعمل تھا جہاں روزانہ ہٹلر کی صدارت میں اسٹاف کانفرنس ہوتی۔ کانفرنس روم کے بائیں جانب کا دروازہ چھ کمروں کے ایک الگ حصے کی نشاندہی کرتا تھا جس میں دو کمرے ہٹلر کے زیر استعمال تھے۔ ایک خواب گاہ، ایک غسل خانہ اور ایک ڈریسنگ روم ایوابراؤن کے قبضے میں تھا۔ چھٹا کمرہ ایک ڈیوڑھی تھا جس میں ایک خفیہ ہنگامی دروازہ موجود تھا۔ ہٹلر نے زیر استعمال کمروں میں سے ایک کو خواب گاہ اور دوسرے کو دفتر بنا دیاتھا۔

جنرل سٹینز

21 اپریل کو ہٹلر نے حفاظتی دستے (جسے ایس ایس کہا جاتا تھا)کے سربراہ جنرل سٹینز کو ایک خصوصی حکم کے تخت برلن میں مقیم تمام جرمن فوجوں کی سربراہی سونپ دی اور حکم دیا کہ ’دشمن کو ہر قیمت پر پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرو اور اس کے لیے جتنا اسلحہ اور سپاہی موجود ہیں، سب کو جنگ میں جھونک دو‘۔

جنرل سٹینز نے یہ حکم نامہ تو وصول کر لیا مگر اس حکم نامے پر عمل درآمدکرنا ضروری خیال نہ کیا، کیونکہ اسے جرمن فوج کی حالت کا اندازہ تھا اور وہ ہٹلر کے اس حکم کو غیر ضروری خیال کر رہا تھا۔ادھر ہٹلر سارا دن کسی اچھی خبر کے انتظار میں بیٹھا رہا کہ جنرل سٹینز کا شدید حملہ شاید دشمن کو پیچھے دھکیل دے مگر اس وقت تک اس کو معلوم نہ تھا کہ جنرل سٹینز اس کے حکم کے باوجود حملے میں لیت ولعل سے کام لے رہا ہے۔ اسے متضاد خبریں پہنچائی جاتی رہیں۔ تین بجے کے قریب اسے اطلاع دی گئی ’جنرل سٹینز نے حملہ تو کیا مگر جنرل وہیف نے اس کی کسی بھی قسم کی مدد نہیں کی جس کی وجہ سے اسے پسپا ہونا پڑا‘۔

مسولینی اور اس کے ساتھیوں کی لاشوں کو میلان میں لٹکا دیا گیا تھا۔

حالات کی سنگینی

اس تشویش ناک خبر نے ہٹلر کو آتش پا کر دیا۔شاید اسے پہلی بار حالات کی سنگینی کا شدید احساس ہوا اور اس نے محسوس کیا کہ اب اس کا برلن سے زندہ نکلنا ممکن نہیں رہا۔ برلن کے دفاع کی موہوم سی امید جو اس کے دل میں تھی، وہ بھی ختم ہوتی جا رہی تھی۔ فوری طور پر  ایک ہنگامی کانفرنس بلائی گئی جس میں اس نے  اپنے تمام ساتھیوں کو شدید سخت و سست کہا ۔اس نے نام لے لے کر تمام جنرلز کو گالیاں دیں اور کہا ’مجھے خوب اندازہ ہے کہ تم لوگوں نے ہمت ہار دی ہے۔ تم لوگ جرمنی کے غدار اور دشمنوں کے دوست ہو گئے ہو۔ ہر موقع پر تم لوگوں نے مجھ سے جھوٹ بولا اور دغابازی کی۔ میرے احکام پر عمل درآمد میں بے جا تاخیر کرتے رہے حتیٰ کہ دشمن ہمارے سروں پر آن پہنچا ہے۔ اب تم سب لوگ میدان چھوڑ کر بھاگنے لگے ہو اور چاہتے ہو کہ میں بھی بھاگ جاؤں۔ جاؤ تم سب چلے جاؤ میں یہیں اپنی موت کا انتظار کروں گا‘۔

’میں کسی صورت بھی برلن سے باہر نہیں جاؤں گا‘

اس ہنگامی کانفرنس کو برخاست کر کے سب کو رخصت کر دیا گیا۔حالات کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے  ہٹلر نے جنرل گوئبلز کو اس کے بیوی بچوں سمیت  طلب کر لیا جن پر ہٹلر کو بہت اعتماد تھا۔ جنرل گوئبلز نے مع اپنے اہل و عیال  ہر حال میں فیوہرر کے ساتھ دینے کے عزم کا اظہار کیا۔اس کے بعد ہٹلر نے ایسے تمام کاغذات چھانٹ کے نذر آتش کر دیے جن کا دشمن کے پاس جانا مناسب نہیں تھا، پھر فیلڈ مارشل کیٹل اور جنرل بورمین کو بلایا اور پھر سے اسی بات کا اعادہ کیا ’میں کسی صورت بھی برلن سے باہر نہیں جاؤں گا‘۔

’فیوہرر بنکر‘ 18 مختصر کمروں پرمشتمل پناہ گاہ تھی جسے چانسلری کا درجہ دے دیا گیا تھا۔

آخری ملاقات

اس موقع پر دونوں نے حتیٰ الامکان کوشش کی کہ کسی بھی صورت ہٹلر کو برلن سے نکلنے پر آمادہ کر لیا جائے مگر ہٹلر نہ مانا بلکہ اس نے  پریس ڈویژن کے افسر اعلیٰ کو بلا کر اس سے دریافت کیا ’کیا میرا یہ فیصلہ عوام کو پہنچا دیا گیا ہے کہ میں اپنی زندگی کے آخری لمحات تک برلن میں رہوں گا ؟ اور کیا ہر شخص اس فیصلے سے آگاہ ہو گیا ہے؟‘

پریس ڈویژن کے افسر اعلیٰ سے اثبات میں جواب ملا توہٹلر نے فیلڈ مارشل کیٹل کو مزید کچھ احکامات دیے اور پھر اسے اپنے ساتھ کھانا کھلا کر رخصت کر دیا۔ یہ فیوہرر اور فیلڈ مارشل کیٹل کی آخری ملاقات تھی۔

ایک بار پھر برلن چھوڑنے سے انکار

اگلے روز جنرل ہملر نے بھی حتیٰ المقدور کوشش کی کہ کسی طرح ہٹلر کو برلن سے نکلنے پر مجبور کیا جائے مگر اس کی کوشش بھی رائیگاں گئی اور وہ ہٹلر کا قائل نہ کر سکا۔ ہٹلر نے ایک بار پھر برلن چھوڑنے سے انکار کر دیا۔

23 اپریل کو چانسلری میں موجود لوگ آہستہ آہستہ فرار کا راستہ اختیار کرنے لگے۔ ہٹلر نے بھی عام اجازت دے دی کہ جو شخص بھی جان بچا کے نکل سکتا ہے، وہ چانسلری سے نکل جائے۔

جنرل گوئرنگ کی بغاوت

24 اپریل کو جنرل گوئرنگ نے ہٹلر سے بغاوت کر دی اور اسےایک  ٹیلیگرام کے ذریعہ مطلع کیاکہ ’فیوہرر ہٹلر چونکہ موجودہ صورت حال سے نمٹنے کی مناسب استطاعت نہیں رکھتے، اس لیے جرمن فوجوں کی کمان اور دشمن سے مذاکرات کا حق ہٹلر کے ڈپٹی جنرل ہرمن گوئرنگ کا حاصل ہو گیا ہے۔ جنرل گوئرنگ تہ دل سے فیوہرر کا احترام کرتے ہیں اور دعاگو ہیں کہ فیوہرر کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر سلامت رہے‘۔

جنرل گوئبلز نے مع اپنے اہل و عیال ہر حال میں فیوہرر کا ساتھ دینے کے عزم کا اظہار کیا۔

ہٹلر کی آمریت پر ایک بھرپور ضرب

ہٹلر کے ذاتی خدمت گار ہینز لینگی کے بیان کے مطابق ’یہ ٹیلیگرام پڑھ کر ہٹلر کی جو کیفیت ہوئی اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کے جسم میں خون کا ایک قطرہ بھی باقی نہیں رہا۔ شاید یہ اس کی آمریت پر ایک بھرپور ضرب تھی ۔ اس کی مایوسی و بے پناہ اضطراب سے ہمیں یقین ہو چلا تھا کہ وہ اس دنیا میں چند روز کا مہمان رہ گیا ہے‘۔

’لینگی! میں تمہارے جذبے کی قدر کرتا ہوں‘

25 اپریل کو ہٹلر نےاپنے ذاتی خدمت گار لینگی کو بلایااور کڑک دار لہجے میں کہا ’لینگی ! میں چاہتا ہوں کہ اب تمہیں اپنی ملازمت سے رخصت کر دوں‘۔

فوری طور پر لینگی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ وہ کیا کرے تاہم لینگی نے اظہار وفاداری کرتے ہوئے رخصت کی بجائے پُر خلوص ساتھ کا اظہار کیا لیکن ہٹلر نے کسی بھی قسم کے تاثر کا اظہار کیے بغیر کہا ’لینگی! میں تمہارے جذبے کی قدر کرتا ہوں‘۔

اکھٹے مرنے کا فیصلہ

ہٹلر کچھ دیر تامل کے بعد لینگی سے دوبارہ مخاطب ہو گیا ’تمہارے لیے یہ میرا خصوصی حکم ہے کہ یہاں سے فوراً رخصت ہو جانا۔ میں نے اور ایوابراؤن نے اکھٹے مرنے کا فیصلہ کیا ہے اور میرا یہ خصوصی حکم ہے کہ ہماری لاشیں اپنے ہاتھ سے آگ میں جلا ڈالنا تاکہ میری موت کے بعد کوئی شخص مجھے پہچان نہ سکے۔ پیٹرول کی وافر مقدار تمہارے پاس موجود ہونی چاہیے۔ ہماری لاشوں کو کمبلوں میں لپیٹ کر پیٹرول میں تر کر لینا اور پھر جلا دینا۔ ہماری لاشیں جلانے کے بعد میرے کمرے میں آ کر ہر وہ چیز جمع کرنا جس سے میری یاد تازہ ہوتی ہو، میری وردی، کتابیں، کاغذات، کھانے کے برتن غرض مجھ سے متعلق ہر چیز قبضے میں کر کے نذر آتش کر دینا۔ یہ تمہارا فرض ہو گا اور یاد رکھو، میں پھر اپنے الفاظ دہراتا ہوں، اچھی طرح یاد رکھنا، میری میز پر موجود فریڈرک اعظم کی تصویر ضائع نہ ہونے پائے۔ کیا تم نے میرے احکامات سمجھ لیے ہیں؟‘

لینگی نے اثبات میں گردن ہلائی اور باہر نکل گیا۔وہ فیوہرر سے کسی قسم کی بحث کی ہمت نہ کر سکتا تھا۔

ڈوچے مسولینی کا قتل

27 اپریل تک زیر زمین چانسلری اس حد تک خالی ہو گئی کہ جنرل گوئبلز مع خاندان، ایوابراؤن، باورچی اور ہٹلر کے چند ذاتی خدمتگاروں کے سوا کوئی بھی فیوہرر بنکر میں نہ رہا۔

28 اپریل کو عالمی جنگی منظر نامے میں اس وقت انتہائی ڈرامائی تبدیلی رونما ہوئی جب ہٹلر کے قریبی اتحادی اور اٹلی کے ڈوچے مسولینی کو انقلابیوں نے گولی مار دی۔ جنگ میں شکست کے بعد مسولینی اپنی گرل فرینڈ کلیریٹا کے ساتھ فرار ہوتے ہوئے سوئٹزر لینڈ کی سرحد کی طرف بڑھ رہا تھا کہ ’ڈوگون‘ قصبے کے پاس وہ انقلابی ’پارٹیزنز‘کے ہاتھ لگ گیا جنہوں نے  کومو جھیل کے پاس اسے اس کے سولہ ساتھیوں اور کلیریٹا سمیت گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ لوگوں میں اس قدر شدید غم وغصہ تھا کہ انہوں نے مسولینی کی لاش کو بھی نہ چھوڑا اور ہر ممکن حد تک اس کی تذلیل کی۔

پیازالے لوریٹو چوک اور عوامی غضب

29 اپریل کو صبح تین بجے مسولینی ، اس کے سولہ ساتھیوں اور کلیریٹا کی لاشوں کو میلان پہنچا کے ’پیازالے لوریٹو چوک‘ پر پھینک دیا گیا۔آٹھ بجے تک یہ خبر پورے شہر میں پھیل چکی تھی کہ ’ڈوچے کو سزائے موت دے دی گئی ہے اور ان کی لاش پیازالے لوریٹو میں پڑی ہے‘۔لوگوں کو جیسے ہی یہ خبر ملی تو کم و بیش پانچ ہزار لوگ پیازالے لوریٹو میں اکھٹے ہو گئے۔ یہ منتشر ہجوم شدید غم و غصے میں تھا۔ ایک عورت نے مسولینی کی لاش کے سر پر پانچ گولیاں داغیں اور ایک اور عورت نے مجمع عام کے سامنے مسولینی کی بگڑی صورت پر پیشاب کیا۔ ایک اور عورت نے اس کی لاش پر کوڑے برسائے۔ بعدازاں ہجوم نے ان تمام لاشوں کو پاؤں سے روندا اور مسولینی، کلیریٹا اور دیگر چار افراد کی لاشیں الٹی لٹکا دیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ لاشیں کئی روز تک لٹکی رہیں اور سینکڑوں لوگ ان مسخ شدہ لاشوں پر تھوکتے اور گندگی پھینکتے رہے۔

ہٹلر اور ایو ابراؤن کی شادی

یہ تمام خبریں ریڈیو کے ذریعہ ہٹلر کو 29 اپریل کو موصول ہوئیں جن کو سن کے ہٹلر دہل گیا۔ شاید انہی خبروں کے بعد اس نے فرار اور پکڑے جانے کے بجائے خودکشی کو ترجیح دی کیونکہ وہ مسولینی جیساحال نہیں چاہتا تھا۔ اس روز اس نے صبح ہی ’لینگی‘ کو طلب کر کے کچھ ہدایات جاری کیں ’آج میری اور ایوا براؤن کی شادی کی تقریب ہو گی اور اس شادی کی تیاریاں تمہارے ذمے ہیں۔ گواہوں میں بورمین ، جنرل گوئبلز اور اس کی بیوی شریک ہوں گے۔ میں نے اس رسم کو پورا کرنے کے لیے والٹر ویگز کو بلوایا ہے‘۔

ہٹلر کے کتوں کی ہلاکت

یہ شادی دوپہر کو ہونی تھی مگر والٹر ویگز کا کوئی اتا پتا نہ لگ سکا۔ اسی دوران ہٹلر  نے اپنے سابقہ معالج پروفیسر ہینری کو بلا کے حکم دیا کہ اس کے السیشن کتے بلونڈی کو زہر دے دے۔ بلونڈی کے علاوہ ہٹلر کے دو اور پالتو کتے تھے جنہیں گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔

الوداعی دعوت

شادی کی تقریب چونکہ والٹر ویگز کی عدم دستیابی کے باعث تاخیر کا شکار ہو رہی تھی، اس لیےاس سے قبل شام کے وقت ایک الوداعی دعوت کا اہتمام کیا گیا، جس میں مرد و عورتوں سمیت کل بیس افراد شریک تھے۔ ہٹلر ، جنرل بورمین کے ساتھ اپنے کمرے سے باہر آیا، سب عورتوں سے باری باری ہاتھ ملایا اور نہایت خاموشی کے ساتھ کسی بھی قسم کی بات کیے بغیر واپس اپنے کمرے میں چلا گیا۔

کسی بھی وقت خود کشی کا امکان

ہٹلر کے جانے کے بعد سب لوگ موجودہ صورتحال پر غور کرنے لگے۔ حالات کی کشیدگی کے پیش نظر ان لوگوں کا خیال تھا کہ اب کسی وقت بھی ہٹلر خود کشی کر سکتا ہے۔ اس دعوت میں لوگوں کے مابین ہر قسم کا امتیاز اُٹھ گیا اور ملازم و افسران آپس میں گھل مل گئے۔ سب نے مل جل کے کھانا کھایا اور ڈانس کیا۔ اعلیٰ افسروں نے بھی ملازموں کے ساتھ برابری کی سطح پر اس دعوت میں شرکت کی تھی کیونکہ ان کو یقین تھا کہ ہٹلر کی خودکشی کے ساتھ ہی ان میں سے بھی ایک دو روز سے زیادہ کوئی زندہ نہیں بچے گا۔

شادی کا بندھن

کہیں نصف شب کےبعد والٹر ویگز بھی چانسلری میں آن پہنچا۔ اس نے گواہوں کی موجودگی میں ایوابراؤن اور ہٹلر کو شادی کے بندھن میں باندھ دیا۔اس وقت 12 بج کر 25 منٹ کا وقت ہو رہا تھا اور تاریخ 29 سے 30 اپریل میں داخل ہو چکی تھی لیکن ہٹلر اور ایوا براؤن کی شادی کے سرٹیفیکیٹ پر تاریخ 29 اپریل ہی درج تھی۔ ایوا این پاؤلا براؤن 6 فروری 1912ء میں میونخ میں پیدا ہوئی تھی۔ 1936ء سے وہ ہٹلر کے ساتھ تھی اور ان کے ساتھ کو کم و بیش نو دس سال ہو چکے تھے۔ ایوا براؤن کی خواہش تھی کہ وہ ہٹلر کی قانونی بیوی کی حیثیت سے اس دنیا سے رخصت ہو۔ ہٹلر نے اس کی خواہش کا پورا احترام کیا اور اس کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھ گیا۔ ساتھ ہی الوداعی تقریب بھی چلتی رہی اور یہ دعوت صبح تین بجے کے قریب اپنے اختتام کو پہنچی۔

جنگ عظیم دوم میں مسولینی ہٹلر کا اتحادی تھا۔

جنگی صورت حال

الوداعی دعوت کے اختتام کے کوئی آدھے گھنٹے کے بعد تازہ جنگی صورت حال کی خبریں زیر زمین چانسلری میں موصول ہونا شروع ہو گئیں۔ دوپہر کو خبر آئی کہ ’فریڈ رچ‘ کی زیر زمین ریلوے سرنگ روسیوں کے قبضے میں چلی گئی ہے۔ اس کے بعد ’دونر ٹراس‘ کی ریلوے سرنگ پر دشمن کے قبضے کی خبر آئی اور یہ خبر اس لیے زیادہ تشویش ناک تھی کہ یہ سرنگ چانسلری سے قریب تھی۔ اس کے بعد روسیوں نے دریائے سپری کے پل پر بھی قبضہ کر لیا۔ ان خوفناک خبروں نے ہٹلر کے سکون میں کوئی خلل نہیں ڈالا اور خلاف توقع وہ انتہائی پُرسکون رہا۔ شاید اس نے جلد خودکشی کا مصمم ارادہ کر لیا تھا اس لیے اب ان ہولناک خبروں کا اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا تھا۔ جب وہ زندہ ہی نہ رہتا تو یہ خبریں اسے کیا پریشان کرتیں۔

خود کشی کا مصمم ارادہ

یہ تمام واقعات 30 اپریل کو ظہور پذیر ہو رہے تھے۔ دن دو بجے ہٹلر نے کھانا کھایا جس میں اس کی بیوی ایوا براؤن شریک نہ ہوئی۔

ہٹلر خود کشی کا مصمم ارادہ کر چکا تھا، اسی لیے  میجر اوٹو گنشی کو حکم دیا گیا کہ دو سو ڈبے پیٹرول ٹرانسپورٹ آفیسر کے ذریعے منگوا لے لیکن اس نازک صورت حال میں پیٹرول کا حصول بھی سخت مشکل کام تھا۔ فیوہرر کے خصوصی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ٹرانسپورٹ آفیسر نے ہر ممکن کوشش کی اور دو سو کے بجائے  ایک سو اسی ڈبے پٹرول کا بندوبست کر لیا۔ یہ پٹرول کے ڈبے اس نے  اپنے آدمیوں کے ذریعے چانسلری میں بھجوا دئے۔اس کے کچھ دیر بعدہی ڈیوٹی پر موجود گارڈز کے علاوہ  باقی تمام گارڈز کو چانسلری سے نکل جانے کا حکم دیا گیا۔ شاید متوقع کارروائی کو حتیٰ الامکان غیر ضروری لوگوں سے دور رکھا جا رہا تھا۔

فائر کی ہلکی سے آواز

کھانے کے بعد چانسلری میں موجود لوگ فیوہرر کے احکامات حاصل کرنے اکھٹے ہوئے۔ ہٹلر اور ایوابراؤن نے فرداً فرداً سب سے ہاتھ ملایا اور پھر خاموشی کے ساتھ اپنے کمرے میں چلے گئے۔ اس وقت ایوا براؤن گہرے نیلے رنگ کے لباس میں تھی اور اس نے کلائی پر پلاٹینم کی گھڑی پہن رکھی تھی۔ پاؤں میں اطالوی موتیوں والے جوتے تھے۔ اس کے بعد کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ہٹلر کے ذاتی خدمت گار ہینزلینگی نے لکھا کہ ’ 30 اپریل 1945ء کی سہ پہر کا ذکر ہے۔ برلن میں ہٹلر کے زمین دوز فوجی ہیڈکوارٹرز اور رہائش گاہ میں ہولناک سناٹا چھایا ہوا تھا اور ہٹلر کےذاتی خدمت گار کی حیثیت سے میں میپ روم کے باہر کھڑا تھا۔ چار بجنے میں دس منٹ باقی تھے کہ ہٹلر کے کمرے میں فائر کی ہلکی سے آواز گونجی جس کا مطلب تھا کہ ہٹلر نے خود کو موت کے حوالے کر دیا ہے‘۔

زندگی کا خاتمہ

لینگی ہمت کر کے کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے دیکھا کہ ہٹلر کی لاش ایک آرام دہ کوچ پر پڑی تھی۔لاش کی  دائیں کنپٹی پہ فائر کا نشان تھا۔ ہٹلر کی لاش کے ساتھ ہی اس کی محبوبہ اور بیوی ایوابراؤن کی لاش موجود تھی جس نے زہر کا کیپسول کھا کے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا تھا۔

’ہیل ہٹلر‘

لینگی نے ہٹلر کی لاش موٹے کمبل میں لپیٹی اور باہر لے گیا جہاں فیوہرر بنکر کی درمیانی گزرگاہ میں اس کا آخری دیدار کیا گیا اور پھر ہنگامی خفیہ دروازے سے یہ لاش لینگی نے چانسلری کے باغ میں پہنچا دی۔ ایوابراؤن کی لاش جنرل بورمین نے اٹھائی ہوئی تھی۔ یہ لاش بھی لینگی کے حوالے کی گئی جس نے اسے چانسلری کے باغ میں ہٹلر کی لاش کے پاس رکھ دیا۔ لینگی نے دونوں لاشیں پٹرول میں اچھی طرح تر کر دیں۔ اس کے بعد میجر اوٹو گنشی نے انہیں آگ لگا دی۔ سب نے فوجی انداز میں سلامی دی اور ہاتھ اٹھا کر ’ہیل ہٹلر(ہٹلر زندہ باد)‘ کا نعرہ لگایا۔

قومی راز

رات گیارہ بجے کے قریب ان لاشوں کو دفن کر دیا گیا۔ اس کے بعد لینگی کے مطابق ’ہم سب ملازموں کو طلب کر کے سختی سے ہدایت کی گئی کہ اس راز کو ہمیشہ کے لیے اپنے سینوں میں دفن کر دیں کہ ہٹلر اور اس کی محبوبہ ایوابراؤن کی لاشوں کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا ہے اور اگر کسی نے بھی اس قومی راز کو افشا کیا تو اسے گولی مار دی جائے گی‘۔

صلح کی بات چیت

ہٹلر کی خودکشی کے بعد جنرل بورمین نے اقتدار ہاتھ میں لے کر اتحادیوں سے صلح کی بات چیت شروع کر دی جو کامیاب نہ ہو سکی۔ یکم مئی کو جنرل بورمین نے صلح کے سلسلے میں ناکام سفارتکاری کے بعد مجبوراً ایڈمرل ڈونیز کو ساتھ ملانے کا پروگرام بنایا کیونکہ فوجی قوت اس کے ہاتھ میں تھی۔ فوری طور پر اسے ایک تار کے ذریعے فیوہرر کی موت کی اطلاع دی گئی اور کہا گیا کہ ہٹلر کی وصیت کے مطابق ایڈمرل ڈوینز کو رچ کا صدر، جنرل بورمین کو پارٹی منسٹر اور جنرل گوئبلز کو چانسلر بنایا جا رہا ہے۔ اب یہ ایڈمرل ڈونیز کی صوابدید ہے کہ وہ فوج اور عوام کو ہٹلر کی موت سے مطلع کرے۔ ایڈمرل نے پیغام ملتے ہی فوری طور پر ریڈیو سے فیوہرر کی موت کی خبر نشر کرتے ہوئے قوم کو پیغام دیا ’آج ہمارے فیوہرر برلن میں فوجوں کی کمان کرتے ہوئے میدان جنگ میں کام آئے‘۔

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp