سپریم کورٹ: فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کا معاملہ، سماعت 28 اپریل تک ملتوی

جمعہ 18 اپریل 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے جواب الجواب میں دلائل پیش کیے۔

سماعت کے دوران جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال اٹھایا کہ پک اینڈ چوز کس بنیاد پر کیا گیا؟ اس پر خواجہ حارث نے وضاحت دی کہ معاملہ پک اینڈ چوز کا نہیں بلکہ جرم کی نوعیت کے مطابق کیس انسداد دہشتگردی عدالت یا فوجی عدالت میں بھجوایا جاتا ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے آرمی ایکٹ کی دفعہ 8/3 پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیا سویلین اس کے دائرہ کار میں آتے ہیں؟ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ اس دفعہ کا تعلق فورسز کے ممبران کے ڈسپلن سے ہے۔

مزید پڑھیں: سویلینز کا ملٹری ٹرائل: شکایت کنندہ خود کیسے ٹرائل کر سکتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل کا استفسار

جسٹس حسن اظہر رضوی نے بھی استفسار کیا کہ اگر کوئی سویلین آرمی انسٹالیشنز پر حملہ کرتا ہے تو اس کا اس شق سے کیا تعلق بنتا ہے؟ اس پر جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ یہ دفعہ واضح طور پر صرف فورسز کے ممبران کے لیے ہے، اگر سویلین کا ذکر مقصود ہوتا تو قانون میں الگ وضاحت کی جاتی۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے مزید کہا کہ 1973 کے آئین میں مارشل لا ادوار کی بہت سی دفعات شامل کی گئیں، بعد میں آئینی ترامیم کے ذریعے آئین کو اس کی اصل شکل میں لایا گیا، تاہم آرمی ایکٹ سے متعلق شقوں کو تبدیل نہیں کیا گیا۔

وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا کہ ملٹری کورٹ کی کارروائی آئین کے تحت توثیق شدہ ہے اور کورٹ مارشل کو آئینی طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ کورٹ مارشل صرف زمانہ جنگ ہی نہیں بلکہ زمانہ امن میں بھی ہوتا ہے اور اس کی کارروائی فیئر ٹرائل کے اصولوں کے مطابق انجام دی جاتی ہے، جہاں پریذائیڈنگ افسران قانونی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کیس: سپریم کورٹ انڈر ٹرائل نہیں، جسٹس امین الدین کے ریمارکس

دورانِ سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب، ایسا نہ ہو نمازیں بخشوانے آئے اور روزہ گلے پڑ جائے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے نشاندہی کی کہ سیکشن 2 ون ڈی ون 1967 میں شامل کیا گیا تھا اور یہ سیکشن 1962 کے آئین کے تحت بنایا گیا۔ جسٹس مندوخیل نے مزید وضاحت کی کہ آئین کے آرٹیکل 202 کے تحت دو طرح کی عدالتیں ہائیکورٹ اور ماتحت عدلیہ موجود ہیں۔

اسی دوران جسٹس مسرت ہلالی نے رائے دی کہ ملٹری کا قانون آئین سے ٹکراتا ہے، پاکستان کا 1973 کا آئین بڑا مضبوط ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا ملٹری کی 12 سے 13 تنصیبات پر حملے دراصل سیکیورٹی ناکامی کا نتیجہ تھے، اور اس وقت ملٹری افسران کے خلاف کارروائی کی گئی تھی یا نہیں؟ جسٹس رضوی نے یہ بھی استفسار کیا کہ 9 مئی کے واقعات کے بعد کسی ادارے نے احتساب کیا یا نہیں، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے جواب دیا کہ اس سوال کا جواب اٹارنی جنرل پیش کریں گے۔

وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل مکمل کرلیے، جس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت 28 اپریل تک ملتوی کردی۔ آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل عدالت میں دلائل پیش کریں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp