پنجاب اسمبلی کے انتخاب کا معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا تو عمومی خیال یہی تھا کہ شہباز شریف کے پرخچے تو اڑے ہی اڑے۔ اس مقبول عام رائے کے خلاف ایک ہی شخص ڈٹ کر کھڑا رہا جس کا کہنا تھا کہ اول تو یہ بحران ہے ہی نہیں، اگر ہے تو یہ ان کے لیے ہے جو کوئی بحران پیدا کرنے کی آرزو بلکہ گھبراہٹ میں الٹی سیدھی حرکتیں کر رہے ہیں جن کے جال میں بالآخر وہ خود پھنسیں گے اور رسوا ہوں گے۔ تازہ پیشین گوئی اس دیدہ ور کی یہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات بھی تب ہوں گے جب میاں نواز شریف چاہیں گے، عمران خان ہوں یا ان کا کوئی سہولت کار، سب اس معاملے بے بس ثابت ہوں گے۔
ہماری سیاست کے یہ نبض شناس ہیں ہمارے ناصر الدین محمود۔ مسلم لیگ سندھ کے راہ نما، سی ای سی کے رکن اور کراچی ڈویژن کے سیکریٹری جنرل۔ ناصر کی خوبی یہ ہے کہ وہ سیاست کا مطالعہ نہ جذبات کی رو میں بہہ کرتے ہیں اور نہ خواہشات کے وفور میں الجھ کر۔ ان کا قول یہ ہے کہ ’کسی بحران کو سمجھنا ہے تو مرد بحران کو سمجھو، اسے سمجھو جو حقیقی منصوبہ ساز ہے‘۔
پاکستان کی حالیہ سیاست کے بارے میں کہنے والوں نے بہت کچھ کہا لیکن وہ بات جو ناصر کی زبان سے نکلی، بالآخر درست ثابت ہوئی لہٰذا کسی خصوصی صورت حال میں میاں نواز شریف کیا سوچتے ہیں اور اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے میاں شہباز شریف یا محترمہ مریم نواز کیا حکمت عملی اختیار کریں گی، یہ سمجھنے کے لیے میں نے ہمیشہ ناصر سے گفتگو کی اور انہیں حقیقت کے قریب ترین پایا۔ اس اعتبار سے میں اگر یہ دعویٰ کروں کہ نواز شریف کی حکمتِ عملی کو سمجھنے کے لیے ہمارے سیاسی دانش وروں میں ناصر الدین محمود کی سطح تک کم ہی کوئی پہنچتا ہے تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں۔
تازہ چیلنج تو یہی تھا کہ عمران خان خیبر پختونخوا کو نظر انداز کر کے پنجاب میں انتخابات کا مطالبہ کر رہے تھے۔ یہ مطالبہ درست تھا یا غلط، پنجاب اسمبلی کسی قاعدے اور قانون کے مطابق ٹوٹی تھی یا نہیں، یہ سوالات تو عمران خان کے لیے اہم تھے ہی نہیں لیکن ان کے بعض سہولت کاروں اور سرپرستوں نے بھی ان پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہ کی، لہٰذا انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں ایک لائن لے لی۔ یہ وہی لائن تھی جس کے تحت آرٹیکل 63 کے سلسلے میں ایک ایسا فیصلہ سنایا جو نہ صرف ایک سنگین بحران کا ذریعہ بنا بلکہ آنے والے دنوں میں اس بحران کو گہرا بھی کرتا چلا گیا۔ اسلام آباد میں جب اس مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو انداز وہی تھا چناں چہ شاہ محمود قریشی اور فواد چودھری جیسے منھ زور سیاست دان ہوں یا کوئی نہ کوئی دانہ چگ لینے والے یک رخے تجزیہ کار ، سب کی تان اسی ایک نکتے پر ٹوٹتی تھی کہ اب شہباز شریف کو یوسف رضا گیلانی کے انجام سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ ہمارے ایک پرانے کرم فرما، سیاسی دانش ور اور جماعت اسلامی کے مرکزی راہ نما جناب وقار ندیم وڑائچ کا کہنا تو یہ تھا کہ یہ دراصل آصف علی زرداری کا بچھایا ہوا جال ہے، مسلم لیگ کو جس کے شکنجے میں کس کر یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی کا انتقام لینا مقصود ہے، جب کہ ہوا اس کے بالکل برعکس۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ایک قرار داد پیش کر کے میاں شہباز شریف صاحب کو اعتماد کا تاریخی ووٹ دلا دیا۔ اس کے بعد تِلوں میں تیل دکھائی دے رہا ہے اور نہ چراغوں میں روشنی۔
تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اصل کھیل کیا تھا اور اس کھیل کو جناب نواز شریف نے پلٹا کیسے؟ ہمارے دوست یعنی نواز شریف کی سیاست کے شارح کا دعویٰ یہ ہے کہ 2017-18 کے پُر آشوب حالات ہوں، بعد کے برسوں میں قید و بند کا زمانہ ہو یا بعد ازاں جلاوطنی کے ایام، نواز شریف کے پیش نظر ایک ہی نصب العین رہا ہے، پارلیمنٹ کی حقیقی بالادستی۔ ان کا یہی نصب العین تھا جسے 2018 کے انتخابات کا نعرہ بنایا گیا۔ ناصر ٹھوس دلائل کے ساتھ دعویٰ کرتے ہیں کہ اپنے اس نصب العین کے حصول کے لیے نواز شریف نے طویل المیعاد منصوبہ بندی کی اور اس کے لیے ملک کی دیگر سیاسی قوتوں کو نہ صرف اعتماد میں لیا بلکہ ان کے لیے ایثار بھی کیا۔
یہ ایثار کیا ہے؟ مسلم لیگ ن پر ہمیشہ تنقید کی جاتی ہے کہ سندھ اس نے پیپلز پارٹی پر چھوڑ دیا، شہری سندھ میں ایم کیو ایم کے لیے کبھی مشکلات پیدا نہیں کیں۔ خیبر پختونخوا میں اپنے اتحادیوں جمعیت علمائے اسلام اور اے این پی کو آزادی دی اور بلوچستان میں بلوچ و پشتون قوم پرستوں سے ہمیشہ تعاون کیا۔ وجہ ایک ہی تھی کہ ایک جماعت کے لیے ملک گیر اقتدار کے لیے کشاکش سے کہیں بہتر حقیقی جمہوریت کا قیام اور اس مقصد کے لیے پارلیمنٹ کی بالادستی کا عظیم مقصد ہے۔ چناں چہ انہوں نے ایک طویل حکمتِ عملی کے تحت ملک کے مختلف حصوں میں ہم خیال سیاسی قوتوں کے ساتھ وسیع تر اتفاق رائے قائم کیا۔ یہ اتفاق رائے کتنا وسیع اور مؤثر تھا، حالیہ سیاسی بحران میں پارلیمنٹ نے اس کا کئی بار مظاہرہ کیا۔ پارلیمنٹ نے نہ صرف یہ کہ کسی دباؤ کے تحت پنجاب میں انتخابات کے لیے فنڈ جاری کرنے سے چار بار انکار کر دیا بلکہ جب یہ کہا گیا کہ پارلیمنٹ کی طرف سے اس فنڈ کے اجرا کا مطلب یہ ہے کہ وزیر اعظم ایوان کا اعتماد کھو چکے ہیں تو اس مرحلے پر پارلیمنٹ نے وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ دے کر نہ صرف یہ کہ انہیں سرخرو کر دیا بلکہ کھیل کا پانسہ ہی پلٹ دیا۔
سیاسی معاملات میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ کسی واقعے کو کسی خاص واقعے کے پس منظر میں دیکھا جاتا ہے، جیسے دباؤ کے تحت فنڈ کے اجرا سے انکار اور وزیر اعظم کو اعتماد کے ووٹ کو پنجاب کے انتخابات یا ایک ادارے کے ساتھ محاذ آرائی کے پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے لیکن حقیقت میں یہ ایک بڑی اور تاریخی لڑائی میں جمہوری اور پارلیمانی قوتوں کی تاریخی فتح ہے جس میں پارلیمنٹ کو پہلی بار فیصلہ کن برتری حاصل ہوئی ہے۔ یوں گویا پارلیمنٹ اور جمہوری قوتوں نے اپنی لڑائی کا ایک مرحلہ بہت کامیابی سے جیت لیا ہے جس پر وہ مبارک باد کی مستحق ہیں۔ سیاسی اور جمہوری قوتوں کے علاوہ مبارک باد کے مستحق سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے کارکن بھی ہیں جو یہ جانتے تھے کہ اس جدوجہد بہت سے عمومی ثمرات سے وہ محروم رہیں گے جن کے لیے سیاسی کارکن عام طور پر متحرک ہوتے ہیں۔ اسی طرح اس جدوجہد میں شامل تمام سیاسی جماعتیں بھی۔ جدید سیاسی تاریخ میں یہ واقعہ سنہرے حروف میں لکھا جائے گا، ان مسلم لیگی کارکنوں نے ایک مقصد اور نظریے کی خاطر اپنے قائد نواز شریف کی قیادت میں طویل جدوجہد کی اور آزمائشوں کا سامنا کیا۔ موجودہ سیاسی بحران کا جائزہ لیتے ہوئے اگر یہ پہلو زیر بحث نہ آئے تو میرا خیال ہے کہ ہم اپنی جدید تاریخ کے ایک اہم باب کو نظر انداز کرنے کے مرتکب ہوں گے۔
اس منظر نامے میں نسبتاً ایک مختلف واقعہ مذاکرات کا ہے۔ سیاسی تنازعات کے حل کا راستہ مذاکرات سے ہی نکلتا ہے اور سنجیدہ سیاسی قوتیں ہمیشہ یہی راستہ اختیار کرتی ہیں لیکن موجودہ صورت حال کا امتیاز یہ ہے کہ مذاکرات میں شریک ایک فریق اپنے عمومی سیاسی طرز عمل کی طرح بات چیت کو اپنی شرائط ڈکٹیٹ کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ ان مذاکرات کی ابتدا کے لیے چوں کہ دباؤ کا ایک خاص ہتھ کنڈا استعمال کرنے کی کوشش بھی کئی گئی تھی، اس لیے ان کا مزاج بھی فطری سیاسی عمل سے کچھ مختلف ہو سکتا ہے لہٰذا ان کی کامیابی یا انجام غیر روایتی ہی ہو گا۔ ان مذاکرات کی کامیابی کا واحد راستہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی آئین کے مطابق نظام الاوقات پر متفق ہو جائے۔ ایسا اگر نہیں ہو گا تو پارلیمان کی توہین کا قانون بھی منظور ہو گا اور فیصلہ بھی جیسے عرض کیا گیا ہے، نواز شریف کی حکمتِ عملی کے عین مطابق ہو گا اور اس کے ذریعے بھی پارلیمینٹ ہی کو تقویت ملے گی۔