یومِ مزدور _ مزدور کا دن
جو آج بھی کہیں گیہوں کے کھیتوں میں کٹائی کرتے اورپاپی پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے نیچے گرے گیہوں کے دانے چنتے دیکھا جا سکتا ہے۔
کئی چھوٹے بڑے آج بھی برش لے کر افسروں کے کالے جوتے چمکاتے نظر آئیں گے۔
کچھ عورتیں آج بھی بھٹی پہ اینٹیں بناتی اور اپنے ارمانوں کو بھٹی کی آگ میں پکاتی دیکھی جا سکتی ہیں۔
کئی مزدور آج بھی کسی صاحب کی 3منزلہ عمارت پر سیمنٹ کا لیپ کر رہے ہیں۔
تندوروں پہ آج بھی ایئر کنڈیشنڈ میں بیٹھے ہوؤں کے لیے روٹیاں لگ رہی ہیں۔
چھوٹے آج بھی میزیں صاف کر رہے ہیں۔
کئی مزدور چوک میں آج بھی اوزار لے کر کام ملنے کی آس میں کھڑے ہیں۔
گٹر صاف کرنے کو جمع دار بھی آیا ہے۔
کام والی ماسی نے بھی چھٹی نہیں کی۔
سگنل پہ پھول اور گجرے بیچنے والے بچے آج بھی لوگوں کے دلوں کو مہکایں گے۔
گاڑیوں کے شیشے صاف کرنے والے بھی بھاگے بھاگے آئیں گے۔
اسٹیشن پہ قلی بھی کسی مسافر کا سامان سر پر لادنے کی امید میں سر جھکا کے بیٹھے ملیں گے۔
رکشے والے، ریڑھی والے لائن لگائے نظر آئیں گے۔
سڑکوں پہ گول گپے، سبزی، پھل، گولے گنڈے والے بھی مل جائیں گے۔
بیرے ہوٹلوں میں کھانا بھی لگائیں گے، اور جھوٹھے برتن بھی اٹھائیں گے۔
آج مزدوروں کا عالمی دن ہے، لیکن ان کے لیے یہ دن بھی باقی دنوں جیسا عام دن ہی ہے۔ کیونکہ آج بھی مزدور مزدوری پر ہیں یا پھرچند لوگ جو آج اس دن کی وجہ سے کام نہ ملنے پر اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے بھی محروم رہیں گے۔
ایک سروے کے مطابق، مزدور طبقے کو اس دن کی اہمیت سے نہ تو کوئی خاص شناسائی ہے کہ آج ان کا دن ہے، اور نہ ہی وہ یہ جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جس طبقے کی آمدنی ان کی روزمرہ بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی ناکافی ہو، ان کے لیے اپنے حالات سے لڑتے ہر دن ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔
غربت کی چکی میں پستے ہوئے اپنے معاش کے لیے پریشان حال لوگوں کو گھڑی کی سوئیوں اور دنوں کے بدلنے کا کوئی خاص احساس نہیں ہوتا کیونکہ ان کی ہر صبح ایک ہی پریشانی لاتی ہے کہ آج کام ملے گا یا نہیں!
ہاں البتہ، کہیں کہیں فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنے والوں کے لیے چھوٹی موٹی تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے کہ مزدور پیشہ افراد کو اس دن کے بارے میں علم ہی نہیں کہ یوم مزدور کیا ہے۔ نہ ہی انہیں اپنے حقوق کے بارے میں کوئی خاص آگاہی ہوتی ہے، اور جنہیں ہوتی ہے وہ بھی اس سرمایہ دارانہ نظام میں آواز اٹھانے سے قاصر ہوتے ہیں۔
کارخانوں میں کام کرنے والی چند خواتین سے جب ان کی مشکلات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ہمیں اتنا معاوضہ نہیں دیا جاتا جتنا کام لیا جاتا ہے۔ ہر سال ایسے ہی دن پرکئی وعدے اور دعوے بس باتوں کی حد تک کیے جاتے ہیں۔ مگر ان پر کوئی خاص عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ جبکہ غربت کے منحوس چکر میں پسنے والے لوگوں کی حالت بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے۔
علاوہ ازیں، کارخانوں، بھٹوں اور دیگر جگہوں پر کام کرنے والے مزدوروں خصوصاً عورتوں سے متعلق کوئی خاص قوانین نہیں بنائے گئے ہیں اور انہیں کام کرنے کی جگہوں پر بیشتر ہراسانی کے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
زیادہ تر ایسے واقعات میں اپنے حقوق کے متعلق آگہی یا اس پر آواز اٹھانے کا اعتماد ہونے کے بجائے اپنا روزگار بچانے کے لیے خاموش رہنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔
گھروں میں کام کرنے والی خواتین کے متعلق بھی کوئی پالیسی موجود نہیں ہے، نہ ہی ان کی اجرت کا کوئی تعین ہے۔ گھروں میں کام کرنے والے بچوں کے ساتھ حال ہی میں پیش آنے والے مار پیٹ اور تشدد کے واقعات کے بعد بھی کوئی مثبت پالیسی یا حکمت عملی سامنے نہیں آسکی کہ ایسی صورتحال پر قابو پایا جاسکے۔ جبکہ چائلڈ لیبر کا سرطان بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
مہنگائی کے بڑھتے ہوئے طوفان میں مزدوروں کی روزانہ کی اجرت میں مہنگائی کے تناسب سے کوئی خاص اضافہ نہیں کیا گیا بلکہ کمی ہی دیکھنے میں آئی ہے۔ کئی مزدور روزانہ ایک ہزار روپے سی بھی کم کما رہے ہیں۔ ایسے میں ان کی زندگی کا معیار بد ترین سطح تک گر چکا ہے۔
آخر اس دن کو منانے اور عام تعطیل کا مقصد کیا ہے؟ جن کا دن ہے ان کو اس سے کیا فائدہ پہنچ رہا ہے؟ سرکاری ملازمین، افسروں، اسکولوں، اداروں کی چھٹی سے مزدور کے گھر میں راشن نہیں آتا۔ چھٹی جیسی عیاشی بھرے پیٹوں کے لیے تفریح کا باعث ہوسکتی ہے۔ دیہاڑی دار مزدور کے لیے صرف ایک خسارہ ہے۔
چھٹی تو کرلی ہے
کیا اس کے گھر میں اس دن راشن ڈلوایا ہے؟
اس کو تو اس دن سے کوئی غرض نہیں
جوآج بھی کام پر آیا ہے
فرضی دن اور فرضی باتیں
نام کسی کا، عیش کسی کے
چھوڑو یار!
دفتر والو! افسر نیلی بتی والو!
اور بے کار کے ٹھیکیدارو!
تم کو یہ دن بہت مبارک!
ہر سال یہ دن آتا ہے مگر مزدور طبقے کی حالت میں اس دن اور اس تعطیل سے کوئی فرق پڑتا نہیں نظر آرہا۔ سب اسپیکروں میں بولنے والے انسانیت کے علمبردار نظر آتے ہیں مگر عملی طور پر کوئی تبدیلی دکھائی نہیں آتی۔
اگر واقعی انسانیت کے ٹھیکیدار مزدوروں کے حقوق کے متعلق سنجیدہ ہیں تو اسپیکروں میں نعرے لگانے کے بجائے عملی طور پر اقدامات اٹھائیں۔ مزدوروں کی اجرتوں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کیا جائے۔ چائلڈ لیبر کے حوالے سے مناسب قانون سازی کی جائے۔ مزدور طبقے خصوصاً خواتین کے حقوق اور تحفظ کے لیے ایسا سرکاری پلیٹ فارم بنایا جائے جہاں آسانی سے ان کی رسائی اور داد رسی ہو سکے۔ یاد رہے کہ چھٹی سے، کھوکھلے وعدوں سے اور نعروں سے غریب کا پیٹ نہیں بھرتا۔
بھوک کی چغلی کھانے والے
زردی مائل چہرے والا
سوکھے سوکھے ہونٹوں پر وه
آس کی اک مسکان سجائے
قریه قریه بھٹک رہا ہے
نرم صدا معصوم ادا سے
زخمی دل سے جگ والوں کو
دکھ نگری کے شہزادوں کو
خوش باشوں کو، دل داروں کو
بے بس ماں کا راج دلارا
پھول کی مالا بیچ رہا ہے
پھول کے جیسا پیارا بچه
دل ہی دل میں کھیل رہا ہے
پاک وطن کا چاند ستاره۔۔۔۔۔۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔