چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) جنید اکبر خان نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) خیبرپختونخوا کا وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی جگہ صدر بننے کے بعد صوبے میں پارٹی کو متحد کرنے اور پارٹی قائد عمران خان کی رہائی کے لیے کسی بھی حد تک جانے اور منظم تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا، لیکن ابھی تک وہ ایک متاثر کن جلسہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
جنید اکبر کو صدارت ملنے سے قبل عمران خان کی رہائی کے لیے احتجاجی تحریک کے دوران علی امین کے کردار پر سوالات اٹھائے گئے۔ اسلام آباد مارچ کے دوران علی امین غائب بھی ہوگئے تھے، اور پھر ڈی چوک مارچ کے دوران بشریٰ بی بی کی جانب سے بھی سوالات اٹھائے گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں عمران خان کی رہائی کے لیے دوبارہ اسلام آباد آنے کی تیاری جاری ہے: جنید اکبر
ایسے حالات میں جب جنید اکبر صدر بنے تو ان سے توقعات زیادہ تھیں، کیونکہ پارٹی میں انہیں عمران خان کا قریبی ساتھی اور وفادار سمجھا جاتا ہے، ارکان نے ان کے صدر بننے کے فیصلے کو سراہا تھا۔ جنید اکبر جو ماضی میں بھی پارلیمانی سیاست کا تجربہ رکھتے ہیں، سے یہ امید تھی کہ وہ پارٹی کو منظم کریں گے اور عمران خان کی رہائی کے لیے سرگرم جدوجہد کی قیادت کریں گے۔
پہلا امتحان: صوابی جلسہ
صدر بننے کے بعد جنید اکبر نے پہلا بڑا جلسہ صوابی میں کیا، جسے ایک اہم سیاسی اقدام سمجھا گیا۔ تاہم پارٹی کی داخلی رپورٹس کے مطابق اس جلسے میں منتخب نمائندوں کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔ کئی حلقوں سے یہ بھی رپورٹ کیا گیا کہ مقامی نمائندے کارکنوں کو متحرک کرنے اور جلسے میں لانے میں ناکام رہے، جس سے پارٹی کی تنظیمی کمزوری اور قیادت پر اعتماد کے فقدان کا اظہار ہوتا ہے۔
جنید اکبر نے کارکنوں کو نہ لانے والے منتخب نمائندوں کے خلاف کارروائی اور رپورٹس عمران خان کو پیش کرنے کا بھی فیصلہ کیا تھا۔ پارٹی کے کچھ ذرائع بتاتے ہیں کہ جنید اکبر اندرونی اختلافات کا شکار ہو گئے ہیں اور انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ علی امین گروپ جنید اکبر کی مکمل حمایت نہیں کر رہا اور کارکنوں کو نہیں نکالا جا رہا، ان کے مطابق صوابی جلسے میں بھی یہی صورت حال تھی۔
تحریک کا اعلان اور عملی اقدامات کا فقدان
جنید اکبر نے اپنے ابتدائی بیانات میں پورے ملک، خاص طور پر خیبرپختونخوا سے دیگر صوبوں کو جانے والی موٹرویز اور ہائی ویز بند کرنے اور عمران خان کی رہائی کے لیے کسی بھی حد تک جانے کا اعلان کیا تھا۔ اب بھی پارٹی کارنر میٹنگز اور اجلاسوں میں وہ اسی اعلان کو دہراتے نظر آ رہے ہیں، لیکن عملی طور پر غیر فعال ہیں۔
پشاور کے سینیئر صحافی و تجزیہ کار علی اکبر کے مطابق جنید اکبر کمزور صدر ہیں اور اصل طاقت ان کے پاس نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی اس وقت شدید اندرونی اختلافات کا شکار ہے اور ہر کسی کو کرسی اور وزارت کی فکر ہے۔
علی اکبر نے کہاکہ پی ٹی آئی میں اس وقت اصل طاقت اور اختیارات کا مرکز علی امین گنڈاپور ہیں، جو وزیراعلیٰ ہونے کی وجہ سے مقتدر حلقوں سے بھی اچھے تعلقات رکھتے ہیں اور اپنی بات منوا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی میں عمران خان کے سامنے بھی علی امین اہم ہیں اور انہیں جیل میں رسائی بھی حاصل ہے۔ جبکہ مقتدر حلقے بھی علی امین سے بات منوا رہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو اہم فیصلے علی امین ہی کررہے ہیں، اور جنید اکبر کے صدر بننے کے بعد بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
انہوں نے کہاکہ جب علی امین چاہیں گے تو احتجاج بھی ہوگا، کارکنان بھی نکلیں گے۔ وہ وزیر اعلیٰ ہیں، اختیارات اور وسائل ان کے پاس ہیں۔
علی اکبر نے کہاکہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کارکنان متحد ہیں، نکلنے کو تیار ہیں، لیکن قیادت کا فقدان ہے اور ورکرز کو قیادت پر بھروسہ نہیں۔
پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کیا کررہی ہے؟
جنید اکبر کی قیادت میں پی ٹی آئی خیبرپختونخوا احتجاجی تحریک شروع کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ گزشتہ جمعے کے روز پشاور میں الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج کیا گیا، جس میں جنید اکبر اور دیگر صوبائی قائدین موجود تھے، جنہوں نے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
ہم تیار ہیں، بس کور کمیٹی کی اجازت کا انتظار ہے، علی اصغر
پاکستان تحریک انصاف خیبرپختونخوا کے جنرل سیکریٹری علی اصغر نے وی نیوز کو بتایا کہ صوبائی سطح پر احتجاج اور عمران خان کی رہائی کی تحریک چلانے کے لیے تیاری مکمل ہے۔ خیبرپختونخوا میں عوام تیار ہے، کارکنان تیار ہیں، منتخب نمائندے اور قیادت تیار ہے، بس پارٹی کی مرکزی باڈی سے منظوری کا انتظار ہے۔
علی اصغر نے بتایا کہ وہ مکمل تیاری کر چکے ہیں اور اپنی سفارشات مرکزی قیادت کو پیش کر چکے ہیں۔ جب وہاں سے منظوری ہو گی، اپنی جان و مال لگانے کو تیار ہیں تاکہ عمران خان کی رہائی ممکن ہو۔
یہ بھی پڑھیں علی امین بمقابلہ عاطف خان گروپ: صوبائی صدارت جانے کے بعد کیا وزیراعلیٰ کی پوزیشن کمزور ہوگئی؟
جب علی اصغر سے پوچھا گیا کہ کیا مرکزی قیادت خیبرپختونخوا کی قیادت کی بات نہیں مان رہی ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ حتمی فیصلہ مرکزی کمیٹی ہی کرے گی کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔ پارٹی کی کوشش ہے کہ مکمل حکمت عملی کے ساتھ میدان میں جایا جائے، جب بھی جانے کا فیصلہ ہوا، خیبرپختونخوا تیار ہے۔